عام آدمی ہی اصل ہیرو ہوتا ہے اور اسی لئے وہ عام آدمی کا کردار ادا کرتے ہیں۔

عام آدمی ہی اصل ہیرو ہوتا ہے اور اسی لئے وہ عام آدمی کا کردار ادا کرتے ہیں۔
درحقیقت محنت کشوں کو اپنی طاقت پر اعتماد اور ہمت اس بات سے زیادہ کس چیز سے مل سکتی ہے کہ انہوں نے ہڑتال سے کام کو روک دیا ہے؟
کارل مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت کو عیاں کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ سرمایہ دار کا حتمی مقصد شرح منافع میں اضافے کا حصول ہے اور اس شرح کا تعین پھر محنت اور سرمائے میں موجود مستقل کشمکش کرتی ہے۔ سرمایہ دارہر وقت اس کوشش میں رہتا ہے کہ اجرتیں گھٹا کر سب سے نچلی جسمانی سطح پر لائی جائیں اور کام کے گھنٹے بڑھا کر سب سے اوپر کی جسمانی سطح تک پہنچائے جائیں۔
ان کی انقلابی نظمیں بھارت کے بائیں بازو کے جلسوں میں آج بھی مقبول عوامی ترانوں کے طور پر گائی جاتی ہیں۔
ایک نئے جنم کی امید لئے
گذشتہ روزکہیں ٹرانسفر ہو گئے”انتقال کو انگریزی میں ٹرانسفر ہی کہتے ہیں نا“۔
اس معروضی پس منظر میں اس سال یوم مئی منایا جا رہاہے کہ 1930ء کی دہائی کی کساد بازاری اب دوبارہ ہر ایجنڈے پر واپس آ گئی ہے۔ یہ یوم ِمئی صحت کی سلامتی اور ملازمتوں کے تحفظ کے لئے منایا جا رہاہے۔ اس صورت حال میں ایک محنت کش کا یہ جملہ بہت کچھ عیاں کر دیتا ہے، ”کرونا مارے نہ مارے، بھوک ہمیں ضرور مار دے گی“۔
وبا سے مرنا بھوک سے مرنے سے بہتر سمجھاجا رہا ہے۔ اس کیفیت میں جاری لاک ڈاؤن کے باعث روایتی طریقے سے یوم مئی نہیں منایا جا سکتا۔
سرمایہ داری نظام میں حکومتیں عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی بجائے ہتھیاروں اور دیگر جان لیوا اقدامات پر تو اربوں ڈالر خرچ کرنے کو تلی ہوتی ہیں مگر صحت کے میدان میں بالکل فارغ ہیں۔
جو ملک ستر سال سے دیوالیہ پن کا شکار ہو اسے اکنامکس کے ڈیپارٹمنٹ تو کھولنے ہی نہیں چاہئے تھے۔ ویسے بھی جب ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف اتنے پڑھے لکھے ماہرین ِمعاشیات ہر طرح کے ٹیکس لگانے اور مہنگائی کرنے کے لئے ہمارے ہاں بھیج دیتے ہیں تو اکنامکس کے شعبہ جات بند کرنے میں ہرگز کوئی حرج نہیں ہو گا۔