لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایران کے پاسداران انقلاب نے ’ایشین میراڈونا‘ کے نام سے مشہور قومی فٹ بال آئیکون علی کریمی کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ علی کریمی نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے رہنماؤں میں سے ایک کے طور پر ابھررہے ہیں۔
’ٹیلی گراف‘ کے مطابق ایران کی قومی فٹ بال ٹیم کے سابق کپتان علی کریمی نے اپنے آن لائن فین بیس کا استعمال کرتے ہوئے ان ہزاروں مظاہرین کی حمایت حاصل کی ہے، جو گزشتہ ہفتے مہسا امینی کی موت کے بعد احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
وہ پہلی ایرانی شخصیت ہیں جنہوں نے 22 سالہ لڑکی کی موت کا الزام ایران کی اخلاقیات پولیس پر لگایا۔ انہوں نے اپنے لاکھوں پیروکاروں کو بتایا کہ وہ مہسا امینی کے خاندان کی اس کہانی پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ قانون کے مطابق حجاب نہ پہننے کی وجہ سے تشدد کے نتیجے میں آنے ولاے زخموں سے مر گئی ہے۔
تب سے بائرن میونخ کے سابق فارورڈ نے اپنے سوشل میڈیا چینلوں کو عوامی بغاوت کی حوصلہ افزائی کیلئے وقف کر دیا ہے۔ یہ بغاوت ملک بھر میں پھیل چکی ہے اور تصاویر اور ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں۔ انہیں ایران میں ایک لیجنڈ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جہاں فٹ بال قومی کھیل ہے۔
انہوں نے ٹویٹر ہینڈل پر لکھا کہ ”میں ایران کا صرف ایک عام شہری ہوں اور اپنی سرگرمی کیلئے کسی عہدے کا خواہشمند نہیں ہوں۔ میں صرف اپنے لوگوں کیلئے امن اور خوشحالی کیلئے ہوں۔“
انہوں نے اپنے پیروکاروں کو یہ مشورہ بھی دیا کہ انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کا مقابلہ کرنے کیلئے وی پی این کا استعمال کیسے کریں اور اپنی فوٹیج کو محفوظ طریقے سے آن لائن شیئر کریں۔
جمعہ کو رات بھر ایران کے 80 سے زائد شہروں میں مظاہرے جاری رہے، غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق مغربی ایران کے کرد شہر اوشناویہ، جہاں امینی رہتی تھیں، سے سکیورٹی فورسز کو نکال باہر کیا گیا۔
انسانی حقوق گروپوں اور اپوزیشن گروپوں کے مطابق سکیورٹی فورسز کے تشدد اورشیلنگ کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد 71 تک پہنچ گئی ہے، جن میں کم از کم تین بچے بھی شامل ہیں۔ سرکاری طور پر مرنے والوں کی تعداد 35 بتائی جا رہی ہے، جن میں کم از کم 5 سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔
بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی بھی اطلاعات ہیں، سرکاری خبر رساں ادارے نے شمال مغربی صوبے گیلان کے پولیس سربراہ نے ہفتے کے روز صرف اپنے علاقے میں 60 خواتین سمیت 739 مظاہرین کی گرفتاری کا اعلان کیا۔ عالمی میڈیا میں بعض چینلوں نے 1200 سے زائد گرفتاریوں کی خبر دی ہے۔
علی کریمی نے ایران کی مسلح افواج کو کریک ڈاؤن سے گریز کرنے کا کہتے ہوئے لکھا کہ’’آپ مادر وطن کے سپاہی ہیں اور ہمارے شہریوں کی جانوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں، انہیں چھیننے کیلئے نہیں۔“
فارس خبر رساں ایجنسی کے مطابق پاسداران انقلاب کے ترجمان نے جمعہ کے روز علی کریمی کو ایک فسادی قرار دیا اور ایران کی انٹیلی جنس وزارت اور عدلیہ سے ان کے ساتھ نمٹنے کا مطالبہ کیا۔
ایرانی حکومت ایک انتہائی مقبول اپوزیشن شخصیت کے طور پر علی کریمی کے کردار کے بارے میں فکر مند نظر آ رہی ہے کہ ایک نوزائیدہ احتجاجی تحریک ان کے گرد متحدہو سکتی ہے۔
لندن میں قائم ایک ایرانی فٹ بال کلب کے بانی نے کہا کہ ’مہسا امینی کی موت کے سانحے میں علی کریمی قوم کیلئے ایک آواز بن چکے ہیں۔ ایران کے نوجوانوں میں علی کریمی کی زبردست مقبولیت کا تعلق ان کے سیاسی نظریات کی وجہ سے زیادہ ہے، وہ کبھی بھی حکومت کے سامنے نہیں جھکے۔‘
علی کریمی کی مقبولیت 2009ء میں ایران کی گرین موومنٹ کے زمانے سے ملتی ہے، جب انہوں نے ورلڈ کپ کے میچ کے دوران مظاہرین کیلئے اپنی حمایت ظاہر کرنے کیلئے سبز رنگ کا آرم بینڈ پہنا تھا۔
اس کے بعد وہ ایرانی حکومت کی داخلی اور علاقائی پالیسیوں کی مخالفت کرنے والی بہت سی مہموں میں شامل رہے ہیں، جن میں خواتین کے اسٹیڈیم میں داخلے پر پابندی سے لے کر لبنان، عراق اور غزہ میں بنیاد پرست ملیشیا گروپوں کیلئے تہران کی حمایت تک شامل ہیں۔
دریں اثنا، دو دفعہ آسکر ایوارڈ جیتنے والے معروف ایرانی فلم ساز اصغر فرہادی نے بھی ایک ویڈیو پیغام میں دنیا بھر کے فنکاروں اور دانشوروں سے اپیل کی ہے کہ وہ مظاہرین کا ساتھ دیں۔