لاہور (جدوجہد رپورٹ) ترقی پسند بلوچ رہنما، عوامی ورکرز پارٹی کے صدر یوسف مستی خان کراچی میں وفات پا گئے۔ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور طویل علالت کے بعد جمعرات کی صبح 6 بجے وفات پا گئے۔ انکی نماز جنازہ جمعرات کو ہی شاہ لطیف ٹاؤن میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ میں مختلف سیاسی و سماجی شخصیات سمیت سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔
یوسف مستی خان 16 جولائی 1948ء کو کراچی پاکستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی اور پھر ایبٹ آباد سے حاصل کی۔ سندھ آرٹس کالج کراچی سے انٹرمیڈیٹ کیا اور 1968ء میں گورنمنٹ نیشنل کالج کراچی سے بی اے کی ڈگری مکمل کی۔
انہوں نے 960ء کی دہائی میں طالبعلم کی حیثیت سے سیاست کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے کیا۔ انہوں نے بلوچ مارکسی رہنما لال بخش رند کے ساتھ کام کیا، جنہوں نے بی ایس او کو ترقی پسند سیاسی تحریک میں تبدیل کیا۔
یوسف مستی خان نے لیاری میں رہتے ہوئے لال بخش رند کے ساتھ نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ بلوچستان میں رہتے ہوئے وہ نیشنل عوامی پارٹی کی زیر زمین سرگرمیوں میں متحرک رہے۔
1975ء میں انہوں نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن کے طور پر شمولیت اختیار کی، بعد ازاں پارٹی صدر بھی منتخب ہوئے۔ یوسف مستی خان نے ضیا آمریت کے خلاف 6 فروری 1981ء کو تشکیل دی گئی تحریک برائے بحالی جمہوریت کے نام سے کثیر الجماعتی اتحاد میں شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں پاکستانی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی اورپی این پی کراچی کے صدر بن گئے۔
انہوں نے 1989ء میں غوث بخش بزنجو کی موت کے بعد مستی خان کی قیادت میں پاکستان نیشنل پارٹی نے عوامی جمہوری پارٹی میں ضم ہو کر نیشنل ورکرز پارٹی بنائی۔ یوسف مستی خان نے نیشنل ورکرز پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے طورپر خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی اور نیشنل ورکرز پارٹی کے انضمام کے بعد ورکرز پارٹی پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تو یوسف مستی خان اس کے نائب صدر نامزد ہوئے۔ وہ سندھ پروگریسیو کمیٹی کابھی حصہ تھے۔
2012ء میں جب عوامی ورکرز پارٹی کی تشکیل ہوئی تو اس وقت یوسف مستی خان کو مرکز کمیٹی کا رکن منتخب کیا گیا۔ 2016ء میں وہ عوامی ورکرز پارٹی کے سینئر نائب صدر منتخب ہوئے اور یکم دسمبر 2018ء کو پارٹی صدر فانوس گجر کی موت کے بعد یوسف مستی خان کو عوامی ورکرز پارٹی کا تیسرا صدر منتخب کیا گیاتھا۔
سیاسی جدوجہد کے دوران انہوں نے متعدد مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور عوامی حقوق کی بازیابی، محنت کش طبقے کی نجات اور مظلوم قومیتوں کے حق آزادی کے حصول کیلئے تاعمر جدوجہد کرتے رہے۔
ان کی وفات پر بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں اور قائدین نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ان کی جدوجہد کو بہر صورت جاری و ساری رکھا جائیگا۔