ناصر اقبال
تقریباً تین دہائیوں سے راقم کا اوڑھنا بچھونا صرف سیاست ہے اور سیاست بھی ترقی پسند، جسے ورکنگ کلاس یاپسے ہوئے محکوم طبقات کی سیاست بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہاں وضاحت ضروری ہے کہ راقم اکیلا ہی اس گناہ میں ملوث نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں اور بھی ترقی پسند سیاسی کارکنان شریک ِسفر ہیں اور سیاست کو راقم سے بہتر طور پر سمجھ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
اپنی روز مرہ سیاسی سرگرمیوں کے دوران ہمیں بیشمار لوگوں، جن میں اکثر صحافی، وکلا، سماجی کارکنان، شاعر، ادیب، دانشور، تاجر، مزدور، ہر قسم کی سیاسی پارٹیوں کے کارکنان، پیشہ ورانہ تنظیموں کے ارکان اور ٹریڈ یونین کے عہدیداران وغیرہ شامل ہیں، سے ملاقات اور مکالمہ کا موقع ملتا رہتا ہے۔
تبادلہ خیال یا بحث و مباحثہ کے دوران جہاں خاصے موضوعات زیر بحث آتے ہیں وہاں ایک سوا ل تواتر کے ساتھ سامنے آتا رہا کہ سیاست میں کیا رکھا ہے؟ او جی سیاست میری زندگی کے تیس سال کھا گئی اور ہمیں کیا ملا کچھ بھی نہیں جی، کچھ دوستوں نے تو یہاں تک مشورہ دے دیا کہ چھڈو جی سیاستاں نوں کوئی ڈھنگ دی نوکری یا کاروبا ر لبھو تے مال کماؤ تے فیر بیوی بچیاں نوں ٹائم دیو وغیرہ۔
یہاں ہم گارنٹی سے کہہ سکتے ہیں کہ دنیابھر میں شاید ہی کوئی سیاسی کارکن اسطرح کے سوالوں، تنقید یا فتوؤں سے بچ پایا ہو۔ ہماری دانست میں ہمیشہ یہ سوال ایک بڑایا اہم سوال رہا ہے اور شاید ہمارے دوسرے سیاسی کارکن دوستوں کے لیے بھی چیلنج رہا ہو۔
بحر کیف ہم نے اپنے تئیں اس کا جواب حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھی اور ماشااللہ آج کے دن تک جاری و ساری ہے۔ ہماری یہ تلاش یا کھوج گزشتہ تقریباً پچیس سالوں پر محیط ہے جس میں کتابوں کے اوراق پلٹے گئے، جید اساتذہ کی ایک بڑی تعداد جن میں تاریخ، فلسفہ، ادب، مارکسزم، سیاسیات اور معاشیات کے اساتذہ شامل ہیں کی باقاعدہ شاگردی اختیار کر کے کچھ سیکھنے کی کوشش کی گئی حتیٰ کہ ایک لمبا عرصہ ماہرین سماجیات سے بھی ماتھا پھوڑی کرنے کے بعدجو نتائج اخذ کر سکا دوستوں سے شیئر کیے دیتا ہوں۔
تفصیل و تجزیہ میں جانے سے پہلے دوستوں اور قائرین سے چند گزارشات کر دوں تا کہ کسی غلط فہمی یا فکری الجھاؤ کی گنجائش نہ رہے۔
علم سیاسیات جو کہ سوشل سائنس کا ایک ذیلی موضوع ہے اور عملی سیاست شاید دو یکسر مختلف چیزیں ہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ سیاسیات سائنس ہے اور عملی سیاست فن۔ علم سیاسیات کا باقاعدہ سلیبس ہے اور اسے کالجز اور یونیورسٹیز میں مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور ڈگریاں جاری کی جاتی ہیں جبکہ عملی سیاست کا نہ تو کوئی باقاعدہ نصاب ہے اور ہمارے جملہ علم کے مطابق دنیا میں کوئی کالج یا یونیورسٹی اس کی ڈگری جاری نہیں کرتی۔
البتہ سیاسی قابلیت ایک لمبے تیاگ کے بعدپیدا ہوتی ہے جس میں باہمی صلاح و مشورہ، مسلسل مطالعہ، زمینی حقائق سے مکمل آگہی، عملی جدوجہد، تجربات، بنیادی سیاسی اصولوں کی وضع و کاربندی، نظم و ضبط اور سینئرز کی ہمہ وقت مخلصانہ رہنمائی شامل ہیں۔
طلبہ یونین، مزدور یونین، لوکل گورنمنٹ، سیاسی پارٹیاں، مقننہ کے انتخابات اور حقوق کی تحاریک عملی سیاست کے لئے کالجز اور یونیورسٹیز کا درجہ رکھتی ہیں۔ ویسے تو اگر سوشل سائنس کے ذیلی موضوعات کی لسٹ بنائی جائے تو کم و بیش اڑھائی سو کے لگ بھگ کی بن جائے گی۔
لیکن کلاسیکل اندازمیں ماہرین سوشل سائنس کو تین بنیادی حصوں میں ہی تقسیم کرتے ہیں، ۱۔ سیاسیات یا پولیٹیکل سائنس ۲۔ سماجیات یا سوشیالوجی اور ۳۔ معاشیات یا اکنامکس۔ ہمارا آج کا موضوع سیاست گھاٹے کا سودا ہے جو کہ خالصتاً عملی سیاست سے ہی متعلق ہے کی تفصیل میں آگے چل کر ان سوشل سائنسز کا مختصر تعارف اور حوالہ آئے گا۔
یہ بھی واضح رہے کہ آج کے کالم میں سیاست کو بالکل جنرل انداز میں مخاطب کیا گیا ہے۔ لیفٹ یا رائٹ کی کوئی تخصیص نہیں رکھی گئی ہے۔ موضوع میں ہر قسم کی سیاست کی گنجائش رکھی گئی ہے تا کہ ایک بالعموم رائے قائم کی جا سکے۔ یہ وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارے بعض دوست بعد میں خواہ مخواہ میں الجھ پڑتے ہیں کہ دیکھیں جی پورا کالم لکھ مارا اور اس میں انقلابی سیاست کا ذکر ہی نہیں ہے۔ تو عرض ہے کہ اس میں ترقی پسند سیاست اورانقلابی سیاست بھی پوری طرح موجود ہیں۔ ویسے چلتے چلتے ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ ہم ذاتی طور پر اس طرح کے بیسیوں انقلابیوں کو بھگت چکے ہیں جو انقلاب سے کم نہ بات کرتے تھے اور نہ ہی سنتے تھے۔ پھر وقت نے ثابت کیا کہ وہ اور ہی راستوں کے مسافر تھے۔
رہا سوال کہ سیاسی جدوجہد میں گھاٹے یا نفع کی جمع و تفریق کس طرح کی جائے لیکن اس سے پہلے سیاسی کارکن کے ارتقا کو سمجھنا ضروری ہے۔ انسان عمومی طور پر بالا سطور میں بیان کی گئیں تینوں سوشل سائنسز کے دائروں میں زندگی بسر کرتا ہے۔ انسان سماجیات کے دائرہ کار میں جنم لیتا ہے، اپنی تعلیم مکمل کرتا ہے اور آئندہ زندگی کے بارے پلان یا خواب دیکھتا ہے جس میں اہم شادی اور روزگار کے معاملات ہی ہوتے ہیں۔ زندگی کا یہ عرصہ عام طور پر پندرہ سے تیس سال تک کا ہوتا ہے۔ انسان کے تمام تر اخراجات بھی سماج کے ذمے ہوتے ہیں اور سماج ہی انسان کی زندگی کے اہم فیصلے بھی کرتا ہے مثلاً نام، مذہب، تعلیم، روزگار، آمدنی اور شادی وغیرہ۔ برصغیر میں یہ تمام فیصلے بچے کی پیدائش کے وقت ہی کر لئے جاتے ہیں باقی وقت تو عملدرآمد ہی کروایا جاتا ہے۔
چونکہ برصغیر کا سماج بحیثیت مجموعی ایک پسماندہ سماج ہے اس لیے اس کے فیصلے بھی پسماندہ ہوتے ہیں مثلاً بچہ آرٹس پڑھنا چاہتا ہے لیکن اسے سائنس پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے، پسند کوئی اور شادی کہیں اور، روزگار کے متعلق تو ہمارا سماج ایک لگے بندھے اصول یا روایت پر کاربند ہے یعنی مزدور کا بیٹا مزدور، تاجر کا بیٹا تاجر اور جاگیردار کا بیٹا جاگیردار وغیرہ۔ ہمارے ناقص اندازے کے مطابق دنیا کے 90 فیصد لوگ ان غلط یا صحیح سماجی فیصلوں کو مان کر بقیہ زندگی گزار دیتے ہیں۔ سماج ان سے خوش اور وہ سماج سے خوش اللہ اللہ اور خیر صلہ۔
باقی کے 10 فیصد لوگ سماج کے اکثریتی فیصلوں کو ماننے سے انکاری ہو جاتے ہیں اور سماج کے طے کردہ درجات کے منکر ہو کر سماج کے باغی ٹھہرتے ہیں۔ یہ کایا کلپ عام طور پر تعلیم مکمل ہونے اور روزگار کے حصول کے درمیانی عرصہ میں ہو جاتی ہے مگر اللہ کے کچھ نیک بندے زمانہ طالب علمی میں ہی معاملات کو بھانپ لیتے ہیں اور طلبہ سیاست کا حصہ بن کر سماج کو بدلنے یا سماج کی سوچ کو بدلنے کی عملی جدوجہد شروع کر دیتے ہیں۔ البتہ کچھ لوگ بذریعہ لوکل گورنمنٹ، ٹریڈ یونین، سول سوسائٹی اور دیگر پیشہ ورانہ ایسوسی ایشنوں کے ذریعے اپنے سیاسی ارتقا کو جلا بخشتے ہیں۔ بعد میں پھر یہی کارکن روائتی سیاسی پارٹیوں، نظریاتی گروپوں یا پارٹیوں کا حصہ بن کر اس وقت تک جدوجہد کرتے ہیں جب تک وہ اپنے اپنے سماجوں کو اپنے حق میں رام نہیں کر لیتے۔
شروع شروع میں جب لوگ سیاسی پول کا حصہ بنتے ہیں تو اس وقت انکے مقاصد یا اہداف ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کچھ لوگوں کے اہداف ذاتیات سے بلند ہو کر اجتماعی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ بحرحال سیاست ذاتی ہو یا اجتماعی اس کے ثمرات کا دارومدار بڑی حد تک اسی سے مشروط ہوتا ہے۔ دنیا میں اجتماعی سیاست کو ہی افضل مانا گیا ہے۔ ذاتی سیاست والوں کوموقع پرست یا ناقابل اشاعت قسم کے القابات سے البتہ ضرور نوازا جاتا ہے۔ سیاسی جدوجہدہی انسان کے سماجی درجات کو بلند کرتی ہے درجات کی یہ بلندی صرف انسان کے وراثتی درجات میں ہی اضافہ کر پاتی ہے۔
مثال کے طور پر انقلاب روس جوروئے زمین پر سب سے بڑی کامیاب انقلابی تبدیلی مانی جاتی ہے جو ہزاروں لوگوں کی قربانیوں اور جدوجہدکا نتیجہ تھی جس میں خواتین کو معاشی، سماجی اور سیاسی حقوق ملے، بے زمین کسانوں کو زمین مل گئی، بیروزگاروں کو صنعتوں میں نوکریاں ملیں، جو پہلے سے ملازم تھے انہیں جاب سکیورٹی مل گئی۔ اب یہاں یہ سوال کھڑا کرنا کہ تمام انقلابی کارکنان لینن کیوں نہ بن سکے ہمارے خیال میں یہ سیاست سے زیادتی ہے۔
سیاست میں نفع و نقصان ماپنے کا ایک سمارٹ اور مختصر طریقہ بھی ہے جسے نفی کا طریقہ کہا جا سکتا ہے۔ اس میں کسی بھی سیاسی کارکن کے موجودہ سماجی درجے یا سٹیٹس میں سے سیاسی جدوجہد کو منہا کر کے دیکھا جاتا ہے مثلاً پاک و ہند کے بڑے رہنما قائد اعظم، گاندھی جی اور نہرو کی زندگی سے اگر سیاست نکال دی جائے تو باقی صرف وثیقہ نویسی ہی بچتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو عام سے جاگیردار ہوتے، عمران خان یورپ میں دن کو کینسر ہسپتال کے لیے ٹیلی تھون کرتے اور رات کو کلبوں کے چکر لگاتے، مودی جی ممبئی میں عمدہ چائے کا کھوکھا کر رہے ہوتے، ولادیمیر لینن عام سے مزدور وکیل ہوتے، ابراہم لنکن ٹال پر بالن فروخت کرتے اور ماؤ زے تنگ چھوٹے سے کسان ہوتے۔
اس ضمن میں کئی سو اور مثالیں بھی دی سکتی ہیں لیکن ہمارا نقطہ شائد واضح ہو گیا ہے۔ یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہو سکتا ہے کہ مثالیں بڑے لوگوں کی دی گئی ہیں۔ دیکھیں جی یہ تو لیڈر تھے کارکن بیچارے تو استعمال ہو گئے نہ۔ تو عرض ہے کہ مثالیں ہمیشہ مشہور لوگوں کی دی جاتی ہیں۔ ہم سینکڑوں کی تعداد میں ہر قبیل کے کارکنان کوذاتی طور پر جانتے ہیں، انکی کامیابیوں سے بھی واقف ہیں اور انکی کہانیوں کو رقم بھی کیا جا سکتا ہے لیکن ہمارے قارئین چونکہ ان کو جانتے نہیں اس لیے ان کا ذکر بوریت کا سبب ہو گا۔
ہماری گارنٹی رکھیں وہ سب بالکل ٹھیک جا رہے ہیں یعنی کچھ حاصل ہو چکا ہے اور مزید کے لیے جدوجہد جاری ہے۔ اس فارمولے کے تحت کسی بھی سیاسی کارکن کی زندگی میں سے دودھ اور پانی کو علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔
سیاست سے شاکی دوستوں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ انگلی بھی کٹوائے بغیر شہادت کا رتبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، پھر سب سے بڑھ کر کھلاڑی اور تماشائی میں فرق نہ کر سکنا۔ مثال کے طور پر کرکٹ کو لے لیجئے سادہ سی ترکیب ایک میدان، 22 کھلاڑی، 4,5 ایمپائر اور 20 ہزار تماشائی، کھیل کا علم، دلچسپی اور جیت کی لگن سب میں لیکن انعام جیتنے اور ہارنے والے کھلاڑیوں کو ہی ملتا ہے۔
تاریخ میں آج تک کسی تماشائی کو سوائے چسکے یاشوق کی تسکین کے کچھ نہیں ملا۔ کچھ ایسا ہی منظر سیاست کے میدان میں بھی ہوتا ہے۔