سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے ہی انسانی زندگی پر منڈی کی بے رحم قوتوں کے بجائے انسان کا اپنا اختیار قائم کیا جا سکتا ہے۔

مصنف ’عزم‘ میگزین کے مدیر ہیں۔
سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے ہی انسانی زندگی پر منڈی کی بے رحم قوتوں کے بجائے انسان کا اپنا اختیار قائم کیا جا سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ محنت کش خواتین اس طبقاتی تفریق کو سمجھتے ہوئے ایک ایسی لڑائی لڑنے کی جانب جائیں جہاں محنت کش مرد و خواتین صنفی امتیاز سے بالا تر ہو کر باہمی جڑت بناتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑائی لڑیں تبھی آزادی حاصل ہو سکے گی۔
اشتہاری نہ بناؤ تک تو بات سمجھ آتی ہے مگر خواتین کی عزت پردے میں ہے کہہ کر اسے سماج کے ہر ادارے سے نکال کر صرف خاندانی ادارے کے حوالے کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی شناخت سے بھی واقف نہ ہو سکے۔
پدر سری سرمایہ داری سے پہلے وجود میں آئی تھی۔ سرمایہ داری اور پدر سری کے ملاپ نے بے شک عورت پر جبر کو گمبھیر بنا دیامگر یہ کہنا کہ پدر سری سرمایہ داری کے خاتمے کے ساتھ خود بخود ختم ہو جائے گی، نعرے بازی کے سوا کچھ نہیں۔ محنت کش طبقے کے اندر بے شمار رجعتی رجحانات پائے جاتے ہیں۔
پسماندہ ممالک میں مشترکہ اور غیر ہموار سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی کی وجہ سے یہاں کا معاشرہ زیادہ تضادات کا شکار ہے۔
جب ایک برس کی عمر کی معصوم بچیوں سے لیکر گھر میں مقید پردہ دار خواتین کی عصمت دری ہوتی ہے، تب یہ رجعتی درندے آواز نہیں اٹھاتے۔
آخرکار مارکس واد اور امبیدکر واد کو باہم اکٹھا کرتے ہوئے آپ جس نتیجے پہ پہنچے ہیں وہ ہے تہت ساری مختلف سطحوں پہ لڑنا۔
ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر 15 سے 30 سال کی عمر کے دوران تقریباً 736 ملین خواتین یا ہر 3 میں سے 1 خاتون کو زندگی میں کم از کم ایک بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، ان اعداد و شمار میں جنسی ہراسگی کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔
انگریزی ہو یا اردو، طبقہ ہو یا ذات، جینڈر ہو یا مذہب…کسی بھی بنیاد پر کسی کا مذاق اڑانا ایک شرمناک طبقاتی، نسل پرستانہ اور انسانیت دشمن رویہ ہے۔
ساڑھی اور شلوار کے ذکر سے میرا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سکرٹ یا جینز پہننا بے ہودگی، بے حیائی اور بے شرمی ہے۔ عورت کا جو جی چاہے پہنے۔ عورت کہیں برہنہ حالت میں بھی ہو تو بھی کسی پلے بوائے یا جہلم سے سے ڈھاکہ گئے ہوئے غازی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھے۔ ریپ ہر حالت میں ریپ ہے اور اس کا ذمہ دار ریپسٹ ہے۔ موٹر وے اور مدرسوں سے لے کر مشرقی پاکستان اور بوسنیا تک، ذمہ داری ریپسٹوں پر عائد ہوتی ہے۔