کابل کے مختلف علاقوں، ننگر ہار، جلال آباد، پکتیا، کنڑ اور خوست سمیت دیگر علاقوں میں احتجاجی مظاہرے منعقد کئے جانے کے علاوہ بیرون افغانستان بھی طالبان کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے۔ گزشتہ روز بلجیم میں بھی ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا جس میں سیکڑوں افغان نوجوانوں اور خواتین نے شرکت کی۔
خبریں/تبصرے
افغان میڈیا پر خواتین 24 گھنٹے غائب رہنے کے بعد واپس
”طالبان کے زیر سایہ زندگی میں خوش آمدید، یہ آغاز ہے۔ جیسے ہی افغانستان سے توجہ ہٹے گی، صحافیوں، میڈیا اداروں اور مجموعی طور پر افغانیوں کے لیے زندگی جہنم بن جائے گی۔“
طالبان کے پاس سینگ ہیں سر نہیں
اگر طالبان سادہ لباس بن کر سیلفیاں لینے لگے تو جتنی آسانی سے وہ کابل میں گھسے ہیں، اسی آسانی سے لوگ انہیں نکال باہر کریں گے۔
یہ’مشرق زدہ مردوں‘ کی مردانگی کا اجتماعی اظہار ہے
بس اتنا کہوں گی کہ مجھے فخر ہے میں ’مغرب زدہ‘پاکستانی عورت ہوں جو نہ کسی پر ظلم کر سکتی ہے نہ کسی کا ظلم سہہ سکتی ہے، جو انسانیت پر یقین رکھتی ہے اور بطور انسان عورت کی برابری، عزت نفس اور آزادی کی قائل ہے۔
افغانستان میں طالبان مخالف مظاہرے: بامیان میں ہزارہ رہنما کا مجسمہ مسمار
یاد رہے کہ بامیان وہی صوبہ ہے جہاں 2001ء میں طالبان نے گوتم بدھا کے قد آور مجسموں کو مسمار کر دیا تھا۔
جلال آباد میں افغان پرچم لگانے پر 3 ہلاک، قندھار میں 4 سابق فوجی قتل
افغان صوبہ خوست میں سیکڑوں مظاہرین نے مرکزی چوراہے سے طالبان کا پرچم اتار کر افغانستان کا قومی پرچم لگا دیا ہے۔ مظاہرین نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کا سہ رنگا پرچم تبدیل نہ کریں۔ ’زاویہ نیوز‘ کے مطابق اس موقع پر سیکڑوں افراد شہر کے مرکزی چوراہے کے ارد گرد احتجاج میں موجود تھے۔
امر اللہ صالح نے خود کو افغانستان کا نگران صدر قرار دیدیا، طالبان کیخلاف مزاحمت کا اعلان
میں اس وقت اپنے ملک کے اندر ہوں اور جائز دیکھ بحال کرنے والا صدر ہوں۔ میں تمام رہنماؤں سے انکی حمایت اور اتفاق رائے کو محفوظ بنانے کیلئے پہنچ رہا ہوں۔
کابل میں طالبان کے خلاف خواتین کا پہلا تاریخی مظاہرہ
”ہم موجود ہیں۔ ملازمت، تعلیم اور سیاست میں حصہ لینا ہر افغان عورت کا حق ہے۔ عورتیں آدھا افغانستان ہیں۔ عورتوں کو مت پوشیدہ کرو۔ عورتوں کو نقصان مت پہنچاؤ۔ عورتوں کی آواز بنو۔ افغان عورت کا ساتھ دو“۔
سقوط کابل 15 اگست 2021ء اور عالمی دیہاڑی باز
یہ تمام رقم یا تو امریکی عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھی کی گئی اور امریکہ چونکہ پوری دنیا سے سود یا کسی اور مد میں رقوم اکھٹی کرتا ہے یعنی اس جنگی خرچ کا بوجھ ساری دنیا کے عوام نے برداشت کیا۔
ٹارزن کی واپسی اور بھیڑیوں کا راج!
یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ طالبان کی داغ بیل میں پاکستان، امریکہ، سعودی عرب اور اتحادیوں کا ہاتھ تھاجنہیں سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کے طور پر استعمال کیا گیا۔ امریکی قبضے کے خلاف جب یہی طالبان میدان میں اترے تو انہیں دہشت گرد کا نام دیا جانے لگا۔ اب نئے حالات میں امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان نئی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں بھی پیش پیش ہو گا اور شاید چین، روس اور دوسرے وسطی ایشیائی ممالک بھی اس دوڑ میں پیچھے نہ رہیں۔