نقطہ نظر


منافقانہ ’سامراج مخالفت‘ پر شیری رحمان کے نام ایک خط

آپ کو موسمیاتی تبدیلیوں کے امور کی وزارت ملنے کے بعد نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔ پہلے ہمیں معلوم تھا کہ آپ بہت بڑی جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کی پرچارک ہیں۔ اب اتحادی حکومت میں نئی وزارت ملنے پر یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ آپ سامراج مخالف بھی ہیں۔۔۔مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کی سامراج مخالفت کا یہ نیابیانیے اپنا کر آپ ریاست کی نااہلیوں، ناقص پالیسیوں اور عوام دشمن اقدامات پر پردہ ڈالنے کی ایک سستی سی کوشش کر رہی ہیں۔

’ماہواری جسٹس‘: سیلاب زدہ علاقوں میں 8 ملین خواتین پیریڈز سپلائیز سے محروم

ماہواری جسٹس مہم‘کے دوران بے شمار مشکلات پیش آئیں اور تنقید کاسامنا کرنا پڑا، تاہم کچھ حوصلہ افزا باتیں بھی تھیں۔ ہم محض 70 ہزار خواتین کو پیریڈ سپلائیز مہیا کر سکے ہیں۔ سیلاب کے آفٹر افیکٹس لاکھوں خواتین کو متاثر کر رہے ہیں۔ ریاستی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس ایشو پر بات ہونی چاہیے۔ اس قدرتی عمل کو شرمندگی اور گندگی سے جوڑنابند کیا جانا چاہیے، نصاب کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر خواتین کے بارے میں پالیسی بنانے میں خواتین کی شرکت کو لازمی کیا جانا ضروری ہے۔

دیسی مولاجٹ بمقابلہ ولایتی مولا جٹ

فلم کی پبلسٹی جس جارحانہ انداز میں کی گئی ہے اس سے مداحوں کا کلچر تو تیار ہوتا ہے مگر فلم ناقدین کا کلچر ختم ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی فلمی صنعت کو اچھی فلموں کی اشد ضرورت ہے اور اچھی فلموں کے لئے نہ صرف اچھے فلم میکرز کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ فلم ناقدین کا ہونا بھی صحتمند ہوتا ہے۔

سرائیکی صوبے کا مطالبہ علاقے کے لوگوں کا جمہوری حق ہے: ڈاکٹر نخبہ تاج لنگاہ

معروف دانشور اور سرائیکی تحریک کی رہنما ڈاکٹر نخبہ تاج لنگاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ ملک کی اصل تہذیبوں اور ان کی تاریخی پہچان کو ختم کرنا چاہتا ہے اور ان کی زبان و ثقافت کو پامال کر رہا ہے۔ ان کے مطابق سیاستدان ووٹ بینک حاصل کرنے کے لئے سرائیکی عوام کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں لیکن وہ صوبے کے قیام میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ مگر ان تمام کوششوں کے باوجود ”سرائیکی صوبے کا مطالبہ تاریخی اور تہذیبی حقیقتوں پر مبنی ہے جسے رد نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مطالبہ علاقے کے لوگوں کا ایک جمہوری حق ہے۔“

سوات: فضل اللہ کو تین سال منظم ہونے کا موقع ملا، اب ایسا ممکن نہیں

ڈاکٹر سید عرفان اشرف کہتے ہیں کہ طالبان مالاکنڈ ڈویژن سے کبھی گئے ہی نہیں تھے، انکی محفوظ پناہ گاہیں آج بھی موجود ہیں۔ سرحداور باڑ بھی عام لوگوں کیلئے رکاوٹ ہیں، دہشتگرد جب چاہیں آ اور جا سکتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد انہیں لایا بھی گیا ہے لیکن اہم چیز انہیں سرگرمیوں کی اجازت دی گئی ہے۔ ریاست کی پشت پناہی نہ ہو تو طالبان کو مقامی عوام چند لمحوں میں ختم بھی کر سکتے ہیں اور ان کی دہشت کا بھی خاتمہ کیا جا سکتاہے۔ اب لوگ تنگ آ چکے ہیں، اب اس قتل عام کو دوبارہ پنپنے نہیں دیا جائے گا۔

موجودہ حکومت بھی ہابرڈ رجیم ہے، اگلا سیٹ اپ بھی ہابرڈ ہی ہو گا: عائشہ صدیقہ

یہ ایک کھچڑی ہے، بلکہ وہ تو فوری پک جاتی ہے، یہ فوری نہ پک پانے والی کھچڑی ہے۔ تین چیزیں اکٹھی چل رہی ہیں، معاشی کرپشن، سیاسی کرپشن اور دانشورانہ کرپشن حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ یہاں اب خواب لینے والے اور بات کرنے والے بھی نہیں رہ گئے ہیں۔ دو انتہائیں ہیں، یا تو مذہب کی طرف دھکیلا جاتا ہے، ہر مسئلے کو مذہب کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے، یا پھر مذہب سے پرے کی بات ہوتی ہے۔ ہر چیز ایک جگہ پر جا کر پھنس چکی ہے۔ سرمایہ داری کا گوڑھا رابطہ نیشنل ازم سے ہے۔ نیشنل ازم سرمایہ داری کا ایک حصہ ہے، جو عقل کو بالکل ماؤف کر دیتا ہے۔ انسانیت، اصول پرستی اور خوابوں کی بات کہیں پیچھے دور چلی جاتی ہے۔ جب خواب لینے والے ہی نہیں رہ گئے، تو پھر ہم آگے کیا بڑھیں گے۔

’انقلاب ایران کے بعد اتنی بڑی بغاوت پھوٹی ہے‘

”اگر ہم ایران میں اس بنیاد پرست تھیوکریٹک حکومت کا تختہ الٹ دیں تو پورے خطے کو فائدہ ہو گا۔ یہ پورے خطے کو بدل دے گا اور بہتری کی امید پیدا ہو گی، لہٰذا ایرانیوں کی جدوجہد آزادی کو ’عورت، زندگی، آزادی‘ کے نعرے کے تحت دیکھیں۔ ہمارے خطے کی خواتین نے ترکی، لبنان، سوڈان، عراق وغیرہ میں یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہمارے ملکوں کی حقوق نسواں تحریک کیلئے ضروری ہے کہ ایران کی خواتین اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوں۔ لہٰذا سب تحریک میں شامل ہوں“۔

پاکستان: ’انقلابی امدادی و احتجاجی کمپئین‘ کے منتظم اویس قرنی کا انٹرویو

ہم دنیا کے محنت کش طبقے سے کہتے ہیں، جیسا کہ مارکس نے خود کہا، دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ۔ ہمارا نعرہ ہمارے دکھ برابر ہیں۔ ایک کی چوٹ سب کی چوٹ ہے۔ لہٰذا ہم دنیا کے دیگر حصوں کے ساتھیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہم اس جدوجہد میں خود کو تنہا نہیں سمجھتے۔ ہماری جدوجہد آپ کی جدوجہد ہے اور ہمارا درد آپ کا درد ہے۔ آپ کا ساتھ بہت اہمیت کا حامل ہے اور ہماری جدوجہد، ذہنوں اور دلوں میں ایک اعلیٰ مقام رکھتا ہے اور اس بار ہم یکجہتی کا کھل کر اظہار کر سکتے ہیں اور محنت کش طبقے کی مختلف قومیتوں کے گرد یکجہتی پیدا کر سکتے ہیں، ایک تنظیم بنا سکتے ہیں، ایک انٹرنیشنل تشکیل دے سکتے ہیں جو اس غیر منصفانہ نظام کا مقابلہ کر سکے جو ایمازون سے ارجنٹائن، چلی سے لے کر لبنان، یورپ سے مشرق وسطیٰ اور یوکرین، امریکہ سے آسٹریلیا اور افریقہ سے لے کر ایشیا تک دنیا میں ہر جگہ تباہی پھیلا رہا ہے۔ اور ہم ایک بین الاقوامی تنظیم بنا سکتے ہیں جو ان تمام مصائب کا خاتمہ کر سکے۔

دی سوشلزم منسٹر: کیا سوشلسٹوں کو سرمایہ دار حکومتوں میں شامل ہونا چاہئے؟

پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر تو یہ بحث کوئی معنی نہیں رکھتی کہ سوشلسٹوں کو سرمایہ دار حکومت میں شامل ہونا چاہئے یا نہیں۔ ہاں بھٹو دور میں یہ بحث ضرور موجود تھی۔ دنیا کے دیگر ممالک میں، جہاں بایاں بازو نسبتاً بڑا وجود رکھتا ہے، یہ بحث گاہے بگاہے جنم ضرور لیتی ہے۔

پاکستانی ٹچ والی ’سکوئڈ گیمز‘: سرمایہ داری کی درندگی کا ایک رخ

ساتویں ایٹمی قوت، جس کی ایک چوتھائی آبادی اس وقت سیلاب میں ڈوبی، بیرونی امداد کی منتظر ہے…اس کا عالمی امیج کیا ہے؟ ’سکوئڈ گیمز‘ اس کی صرف ایک جھلک ہے۔ پاکستان کی ’سکوئڈ گیمز‘ میں نمائندگی (Representation) اس ریاست اور حکمران طبقے کے منہ پر طمانچہ ہے جو قوم کو ایٹمی قوت، فتح مکہ، غزوہ ہند اور اس طرح کی دیگر لوریاں سنا کر بغیر ویزے کے کوریا اور یورپ بھیج دیتے ہیں یا سیلاب میں ڈوبنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں مگر کورین اشرافیہ کی طرح خود مزے میں ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں یہ فکر بھی کھاتی رہتی ہے کہ پاکستان کا عالمی امیج خراب نہ ہو۔ اس لئے انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کے پیچھے ویگو ڈالے منڈلاتے رہتے ہیں۔ کیا کسی ’ہم‘، ’جیو‘ یا ’اے آر وائی‘ میں ہمت ہے کہ پاکستانی اشرافیہ کی ’سکوئڈ گیمز‘ کو اسکرین پر پیش کریں؟