نقطہ نظر


ٹراٹسکی کی نئی سوانح حیات: مہیب اشتعال انگیزی پر تاریخ کے خلاف خالی ہاتھ لڑائی

ٹراٹسکی یہ اندازہ بھی درست طور پر نہ لگا سکا کہ پارٹی میں جو تبدیلیاں آ رہی تھیں وہ کتنی اہمیت کی حامل تھیں۔ پرانے کارکن جنہیں ٹراٹسکی پارٹی کے اندر زوال پذیری کے خلاف ایک دیوار سمجھتا تھا، وہ کمزور ہو رہے تھے۔ ادہر، سٹالن جو نئی رکن سازی کر رہا تھا وہ سارے ارکان سٹالن کا ساتھ دیتے نہ کہ ٹراٹسکی کا۔ دیگر رہنماؤں کے ساتھ گھلنے ملنے سے پرہیز بھی ٹراٹسکی کی کمزوری ثابت ہوئی۔ سٹالن نے ٹراٹسکی کی جانب سے پارٹی رہنماؤں کے ساتھ سماجی تعلقات قائم نہ کرنے کا فائدہ اٹھایا اور اس کی مخالفت کو ہوا دی۔ ٹراٹسکی کے خلاف ہر طرح کے جھوٹ پھیلائے۔ کامیابی اور بلا کی ذہانت کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ انسان کے ساتھیوں میں حسد پیدا ہو سکتا ہے۔

وجاہت صاحب! کیوبا میں نسل پرستی کا طعنہ چے گویرا کو نہیں، انکل سام کو دیں

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اگر پاکستان میں کسی کو انسانی حقوق میں دلچسپی ہے تو اسے سوشلسٹ تحریک کا ساتھ دینا ہو گا۔ یہ ممکن نہیں کہ انسان شریف خاندان کے بھی ساتھ ہو اور ان کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور وں کا بھی ساتھی ہو۔
راقم فی الحال اپنی معروضات کو یہاں روک رہا ہے۔ وجاہت مسعود صاحب کے جواب الجواب کا اس امید کے ساتھ انتظار رہے گاکہ یہ بحث کامریڈلی انداز میں آگے بڑھے گی۔ اگر کسی جملے یا لفظ سے وجاہت صاحب کو کسی موقع پر یہ احساس ہوا ہو کہ اس تحریر کا لہجہ کامریڈلی نہیں تھا، تو اس کے لئے پیشگی معذرت۔

وجاہت صاحب! کیوبا نے ایٹم بم کی بجائے ڈاکٹر بنائے

”ہم کوئی کیمیائی ہتھیار بھی نہیں بنانے جا رہے۔ ایسے ہتھیاروں کی ٹرانسپورٹ کا کیا بندوبست ہو گا؟ آپ یہ ہتھیار کس کے خلاف استعمال کریں گے؟ امریکی شہریوں کے خلاف؟ نہیں۔ یہ نا انصافی ہو گی، لایعنی بات ہو گی۔ کیا آپ ایٹم بم بنائیں گے؟ اس طرح تو آپ تباہ ہو جائیں گے۔ یہ خود کشی کا بہترین طریقہ ہے: ’حضرات وقت آ گیا ہے کہ ہم اجتماعی خود سوزی کر لیں۔ یہ خود سوزی ایٹم بم کی مدد سے کی جائے گی‘۔“

وجاہت مسعود صاحب! اگر بزدل ہوتا تو چے گویرا نہ کہلاتا

مارکسزم کے خلاف پراپیگنڈے کا جو کام کبھی جماعت اسلامی سر انجام دیا کرتی تھی، یوں لگتا ہے کہ یہ ذمہ داری اب کچھ لبرل دوستوں نے سنبھال لی ہے۔ اس کی تازہ مثال قابل احترام وجاہت مسعود کا کالم ہے 6 جولائی کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔ کالم کا عنوان تھا: ’ایاز امیر کا خواب اور چے گویرا‘۔
وجاہت مسعود کا یہ کالم ’روزنامہ جدوجہد‘میں شائع ہونے والے ایک کالم،بعنوان: ’ایاز امیر کو خواہش ہٹلر کی ہے،نام چے گویرا کا لے رہے ہیں‘، کو بنیاد بنا کر لکھا گیا۔

ایاز امیر کو خواہش ہٹلر کی ہے، نام چے گویرا کا لے رہے ہیں

ایاز امیر ایک چھوٹا سا جنرل مشرف ہیں۔ کپتان کی سطح کا جنرل مشرف۔ پینا پلانا ٹھیک ہے۔ ناچ گانا، بغل میں کتا اٹھا کر تصویر کھنچوانا اور کبھی کبھی فیض کی شاعری…یہ سب ہونا چاہئے لیکن جمہوریت، سوشلزم، برابری، سیکولرزم، اکبر بگٹی وغیرہ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ فی الحال کوئی جنرل مشرف دستیاب نہیں تو اب آخری امید عمران خان کو قرار دیا جا رہا ہے۔

ننھا پروفیسر ایٹ نسٹ: طارق جمیل ایٹ جی سی یو

یونیورسٹی کا کام ہے علم، تحقیق اور مکالمے کو فروغ دینا۔ فیکلٹی کو درس و تحقیق میں مگن ہونا چاہئے۔ نئی تھیوریاں پیش کریں۔ نئی ٹیکنالوجی بنائیں جس سے ملک کو درپیش مسائل پر قابو پایا جا سکے۔ نیا ادب تخلیق کریں۔ نیا علم تخلیق کریں۔ طالب علموں کے پاس یہ موقع ہونا چاہئے کہ وہ علم، تحقیق اور مکالمے کا ہنر سیکھ سکیں اور لازمی طور پرسیکھیں۔

اسلامی سربراہی کانفرنس کی بد حال یادگار اور بھٹو کی وراثت

بھٹو کی تضادات سے بھرپور اندرونی سیاست کی طرح، بھٹو کی خارجہ پالیسی بھی تضادات سے بھرپور تھی۔ مذہب کے سیاسی استعمال و استحصال کے جس دھندے کو بھٹو نے فروغ دیااسے ضیا الحق نے انجام تک پہنچایا۔ گو یہ کام بھٹو سے پہلے والے حکمران بھی کرتے چلے آ رہے تھے مگر فرق یہ ہے کہ بھٹو کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔ علاوہ اور چیزوں کے، مذہب کا سیاسی استحصال بھی بھٹو کے گلے کا پھندا بنا۔ پاکستان کے عوام اس کی سزا آج تک بھگت رہے ہیں۔ پہلے ضیا الحق کی شکل میں، اب ضیا باقیات (طالبان، ٹی ایل پی، سپاہ صحابہ، پی ٹی آئی، لشکر طیبہ وغیرہ) کی شکل میں۔

نادرا کے اعتراض کا جواب: پاکستان پوسٹ کی جگہ ٹی سی ایس کو ٹھیکہ دینا مزدور دشمنی ہے

ٹینڈر جاری ہوا یا نہیں اس سے قطع نظر عمومی اصول و روایت یہ ہے کہ اگر کسی سرکاری ادارے کو کسی دوسرے سرکاری ادارے کی خدمات کی ضرورت ہو تو وہ باہمی خط و کتابت کرتے ہیں یا متعلقہ وزارت کی مدد لی جاتی ہے۔ کیا نادرا حکام نے وزارت مواصلات یا محکمہ ڈاک خانہ سے کبھی یا کسی بھی سطح پر رابطہ کیا؟ کیا نادرا حکام اس حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ وہ سرکاری ڈیٹا ایک نجی ادارے کے حوالے کر رہے ہیں؟

عمران خان کو چین، روس اور پاکستان میں اسلاموفوبیا کیوں نظر نہیں آتا؟

عمران خان کو مغرب میں رہنے والے مسلمانوں سے روا رکھے جانے والے اسلامو فوبیا کی اتنی فکر ہے تو ان کی حکومت نے لاپتہ کئے جا رہے بلوچوں، پی ٹی ایم کے کارکنوں (خڑ کمر میں قتل عام سمیت) اور رہنماؤں (محسن داوڑ، علی وزیر و دیگر)، اسلام آباد مظاہرہ کرنے والے ٹریڈ یونین کارکنوں، عورت مارچ اورہزارہ برادری کے لوگوں کے ساتھ جو سلوک کیا، کیا وہ اسلامو فوبک نہیں تھا؟