نقطہ نظر


”افغان خواتین کے لیے صحافت انتہائی خطرناک پیشہ ہے“: زہرہ نادر سے انٹرویو!

زہرہ نادر افغان صحافی ہیں جو آج کل کینیڈا میں مقیم ہیں اور افغانستان کے آن لائین اخبار ”زن ٹائمز“ کی ادارت بھی کررہی ہیں۔ نوے کی دہائی کے دوران ملک پر طالبان کے قبضے کے بعدوہ ایران منتقل ہو گئی تھیں۔ امریکہ کے ہاتھوں طالبان کی پسپائی کے بعد دوبارہ وطن آ کر انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور صحافتی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئیں۔

آدم خور آئین

سرکاری گراؤنڈ میں لوگوں کی قطاریں لگی تھیں۔ صفدر بھی ایک قطار میں موجود تھا۔ ہزاروں مرد و خواتین کا یہ مجمع حکومت کی طرف سے مفت آٹا ملنے کی خبر سننے کے بعد یہاں جمع ہوا تھا۔ تاہم آٹا تو صرف انہیں ملنا تھا، جو سرکاری امدادی پروگرام کے سروے کے دوران منتخب کئے گئے تھے۔ ان منتخب لوگوں کو موبائل پر آٹا وصول کرنے کا میسج آیا تھا۔ صفدر سمیت دیگر ہزاروں لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ وہ اس سروے کی مستحق افراد کی فہرست میں موجود ہی نہیں ہیں۔

SIR: تعلیم کے کاروبار کیخلاف ایک طاقتور فلم

پاکستان میں بھی تعلیم ایک جنس بن چکی ہے جس کے کور پر لکھا ہوا ہے’غریبوں کی پہنچ سے دور رکھیں‘۔ ایک طرف تعلیم اس ملک کا سب سے منافع بخش کاروبار ہے اور دوسری طرف ’سرکاری اعداد و شمار‘ کے مطابق تین کروڑ بچے سکول نہیں جاتے۔ بلوچستان میں 95 فیصد بچیاں سکولوں سے باہرہیں۔ اعلیٰ تعلیم تو لوگوں کے لیے ایک خواب بن چکی ہے۔ نجی تعلیم سماج کے لیے ایک باشعور اور آزاد انسان پیدا کر ہی نہیں سکتی۔ اسکے خمیر سے صرف کارپوریٹ غلامی پیدا ہو سکتی ہے۔ ایسے میں اس ملک کی طلبہ تحریک کو تعلیم کے اس کاروبار کے خلاف جدوجہد تیز ترکرنا ہو گی اور مفت تعلیم کا حق چھیننا ہو گا۔

فیض کی شاعری سوشلزم کی پکار تھی

فیض فیسٹیول میں ان کی اردو میں سوانح عمری بارے ہونے والے سیشن کے دوران کسی نے ایک بہت اہم سوال پوچھا: فیض کے ذہن میں ان کی شاعری کا ایک خاص سیاسی اور نظریاتی (سوشلسٹ) مقصد تھا مگر ایسا کیوں کہ ان کی شاعری کو اکثر سیاق و سباق سے کاٹ کر دیکھا جاتا ہے؟ بہ الفاظ ِدیگر، فیض نے مزدوروں، کسانوں، ٹریڈ یونین، خواتین اور مذہبی اقلیتوں، کے لئے جو جدوجہد کی اس پر اتنا زور کیوں نہیں دیا جاتا جتنا شائد فیض صاحب نے خود دیا ہوتا؟ یہ سوال فیض فیسٹیول کی میڈیا کوریج کے پس منظر میں پوچھا گیا تھا۔

’اشرافیہ کو 2.66 ٹریلین روپے کی سبسڈی ڈیفالٹ کی اصل وجہ‘

یہ معیشت تین بڑے بحرانات پر کوئی روشنی نہیں ڈال سکی۔ 2007-8ء کے بحران کا تناظرنہیں دے سکی۔ یہ بھی نہیں بتا سکی کہ اس بحران کی گہرائی کتنی ہو گی اور یہ کتنی دیر چلے گا۔ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
دوسری ناکامی یہ تھی کہ موسمیاتی بحران پر کوئی وارننگ ہی نہیں دے سکی۔ وہ تو سائنسدانوں نے ایک رپورٹ لکھی اور انہوں نے بتایا کہ زندگی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ معیشت دانوں نے اس بارے میں بھی کوئی تناظر نہیں دیا۔
تیسری بڑی ناکامی یہ ہے کہ ملکوں کے اندر اور ملکوں کے درمیان لڑائیاں ہو رہی ہیں، تشدد پھیل رہا ہے۔ معیشت دانوں نے اس بارے میں معاشی پالیسی کے ذریعے نہ کوئی تناظر دیا، نہ حل دے رہے ہیں۔ اس لئے دوبارہ اس پر از سرنو سوچا جا رہا ہے، تاکہ مختلف آئیڈیاز لے کر اس کو آگے لے جایا جائے۔ تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔

ایک ممتحن کی غلطی نے آشکار کیا

دلیل کتنی بھی اہم کیوں نہ ہو، اسے اصول کے تابع ہونا چاہئے۔ اگر ہم ترقی پسند ہیں تو ہمارے کچھ اصول بھی ہیں ورنہ ہم موقع پرست ہیں۔ ترقی پسندوں اور قوم یوتھ میں اگر فرق ہے تو اصول پرستی کا ہے۔ دوم، دلیل وہ ہوتی ہے جو یونیورسل ہو۔ اگر ایک سوال آکسفورڈ یونیورسٹی میں پوچھا جا سکتا ہے تو وہ سوال کامسیٹ میں اٹھانے کی بھی اجازت ہونی چاہئے۔ اگر ہم دلیل کو ’Relative‘ بنا دیں گے تو یہ ہمارے گلے پڑ جائے گی۔ اگر کامسیٹ کا لیکچرر محرمات کے مابین سیکس پر سوال نہیں پوچھ سکتا تو پاکستان کے فوجی بجٹ پر سوال اٹھانا بھی منع ہونا چاہئے۔ کیا خیال ہے؟

’پٹھان‘ پر فاطمہ بھٹو کا تبصرہ منافقت اور جہالت سے لبریز ہے

فاطمہ بھٹو کو تو شائد پتہ بھی نہ ہو گا کہ جس طرح جموں کشمیر میں نریندر مودی بھارتیہ جنتا پارٹی کو مقبولیت دلا کر کشمیری سیاسی جماعتوں کا خاتمہ کرنے اور جموں کشمیر کو بھارتی مرکزی دھارے کی سیاست سے ہم آنگ کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں، اسی طرح کی پالیسی 50 سال قبل بھٹو نے لائن آف کنٹرول کی پاکستانی جانب نافذ کر لی تھی۔ نہ صرف پیپلز پارٹی کی پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ذیلی شاخ قائم کی گئی تھی، بلکہ ایوب آمریت میں اس خطے پر مسلط کئے گئے حکمران عبدالحمید خان کو ہی وزیر اعظم بھی بنا دیا تھا۔

’طالبان پاکستان میں چاہئیں نہ افغانستان میں: ورنہ دہشت گردی ختم نہیں ہو گی‘

جتنی بھی جابرانہ طاقتیں ہیں، یا آؤٹ فٹس ہیں، انہیں پالیسی فارمولیشن کا حصہ نہ بنایا جائے، وہ ہمیں ہمیشہ مہنگا پڑتا ہے۔ وہی آؤٹ فٹس جنہیں ہم ملکی مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں، بعد میں پھر ہمارے لئے ہی تھریٹ ثابت ہوتے ہیں۔ معاشی خدشات کے بارے میں سوچی، فرینڈلی پالیسی بنائیں، غیر مداخلت کی پالیسی بنائیں، کبھی بھی مداخلت نہ کریں تاکہ کسی کو بھی مداخلت کا بہانہ یا ضرورت محسوس نہ ہو۔

انقلابی شاعری کا امام جوش ملیح آبادی: اقبال حیدر سے گفتگو

جی ہاں، جوش صاحب ان عظیم شعرا کی صف میں آتے ہیں جنہوں نے اپنے دور کو نہ صرف’Define‘ کیا ہے بلکہ اس سے تجاوز بھی کیا ہے۔ ہر دور اور ہر زبان میں اس قبیل کے شعرا نسبتاً کم ہوتے ہیں جو ایک خاص قسم کی فکری آزاد روی یا عقلیت پسندی کی وجہ سے اپنی ہی زندگی میں ایک ’Iconoclast‘ بن جاتے ہیں۔ وہ ہر فرسودہ چیز کو یا جنہیں وہ فرسودہ سمجھتے ہیں، ببانگ دہل رد کرتے ہیں او ر زمانے سے اصرار بھی کرتے ہیں کہ عقل و دانش کے سوا کوئی دوسرا راستہ فلاح کا راستہ نہیں، کوئی بھی ایسے متحرک اور علم دوست معاشرے کو جمود کا شکار نہیں بنا سکتا۔

دی لیجنڈ آف مولا جٹ فلمی یوتھیاپا ہے

پاکستان تحریک انصاف کی سیاست دراصل سیاست سے عاری سیاست ہے۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس جماعت کی سیاست دراصل سیاست دشمنی کی سیاست ہے۔ یہ سیاست ضیا الحق کی سیاست ہے جو سیاست کو برا کہتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیتا ہے۔ سیاست کا مطلب ہے مکالمہ اور جمہوریت۔ ضیا الحق کی سیاست ہے آمریت۔ عین اسی طرح، مولا جٹ کی ری میک کا مولا جٹ سے کوئی تعلق ہے نہ پنجابی فلم اندسٹری سے۔ یہ سراسر ہالی وڈ فلموں کی نقالی ہے۔ یہ تھوڑا سا گلیڈی ایٹر کا چربہ ہے۔ تھوڑا سا گیم آف تھرونز کی نقالی۔