1939-1947ء کے دوران سی پی آئی کے ایک ہول ٹائمر مکھن سنگھ (1913-1973ء) نے اپنا وقت مارکس کی ’سرمایہ‘ کے کچھ حصوں کو گورمکھی رسم الخط میں پنجابی میں ترجمہ کرنے میں صرف کیا۔ 1942ء میں سی پی آئی آرگن ’جنگ آزادی‘ کے ایڈیٹر جگجیت سنگھ آنند کو مکھن سنگھ کا ’جدلیاتی مادیت‘ کا پنجابی ترجمہ ملا جو ’داس کیپیٹل‘ میں ایک باب ہے۔ اپنی یادداشت میں جگجیت سنگھ آنند نے مکھن سنگھ کی مارکسی تھیوری پر گہری گرفت کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان پر ان کی مہارت کے بارے میں اپنے گہرے تاثرات کو رقم کیا ہے۔ دونوں افراد نے جنگ آزادی کے ادارتی بورڈ میں 1947ء تک کام کیا، اس کے بعد مکھن سنگھ پنجاب سے کینیا چلے گئے۔
تاریخ
راولپنڈی ’سازش‘ کیس (حِصہ دوم)
راولپنڈی سازش کیس کی تفصیلات مقدمہ ختم ہونے کے برسوں بعد تک بھی راز و اَسرار میں لپٹی ہوئی تھیں۔ آہستہ آہستہ یہ باتیں سامنے آنا شروع ہوئیں کہ اصل ’سازش‘ نئی نویلی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (CPP) پر پابندی لگانا اور ان تمام آوازوں کو خاموش کرنا تھا جو سیاسی آزادی اور کشادہ ذہنیت کا مطالبہ کر رہی تھیں۔یہ تفصیلات جو مقدمے کی کارروائی کے دوران اور بعد میں سامنے آتی رہیں تھیں ان سے الزام تراشی کے اصل مقاصد بھی سامنے آ گئے۔
راولپنڈی ’سازش‘ کیس (حصہ اوّل)
عام لوگ جنہوں نے پاکستان کے قیام کی حمایت کی تھی وہ یہ چاہتے تھے کہ پاکستان ایک آزاد اور جمہوری ریاست ہو جہاں اقلیتوں کے ساتھ ساتھ غریب اور پسماندہ پریشان حال لوگوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ بہرحال قیامِ پاکستان کے فوراً بعدخاص کر 1948ء میں قائداعظم کی وفات کے بعد حکومتِ پاکستان ایسے افراد کے ہاتھوں میں آ گئی جو ان تصورات و نظریات کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔
چے گویرا بطور وزیر سائنس
چے کے نزدیک سوشلزم شعور اور تکنیک پر مبنی مظہر کا نام ہے۔ چے کا خیال تھا جدید ٹیکنالوجی بشمول الیکٹرانکس، آٹو میشن اور کمپیوٹنگ کی مدد سے پیداوار میں اضافہ ہو گا۔ اس جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد تکنیکی تخلیق اور انتظامی کنٹرول ہوں گے۔ پیداوار میں اضافے کے لئے مزدوروں سے یہ اپیل نہیں کی جائے گی کہ یہ ان کے اپنے مفاد میں ہے، نہ ان کو کوئی فائدوں کا لالچ دے کر پیداوار بڑھائی جائے گی، نہ ہی ان کے استحصال میں اضافہ کر کے پیداوار بڑھائی جائے گی۔ چے کا خیال تھا کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال سے کیوبا ترقی کے مدارج اس طرح طے کرے گا کہ اسے بعض مدارج چھلانگ لگا کر گزرنا ہوں گے۔
پاکستان میں حب الوطنی اور غداری کی سیاست کی مختصر تاریخ
ریاست اور حکمران اشرافیہ کو اختلافی آوازوں پر غداری کا الزام لگانے کا خطرناک کھیل کھیلنے کے بجائے ان کی بات سننی چاہیے اور ان کی حقیقی شکایات کا ازالہ کرنا چاہیے۔ اس لیے عدم برداشت اور استثنیٰ کی بجائے رواداری اور شمولیت کے کلچر کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ جتنی جلدی ہم یہ کریں گے اتنا ہی بہتر ہو گا۔
عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر ریاست اور قوم کی تعمیر
پاکستان میں پہلے دن سے ریاست کی تعمیر اور قومی تعمیر میں نظریہ مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ ملک کے بانی اور بابائےِ قوم محمد علی جناح (جنہیں قائد اعظم کے نام سے جانا جاتا ہے) کی اس تاریخی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے، جو انھوں نے 11 اگست 1947ء کو پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی، کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کو ایک تھیوکریٹک (مذہبی) ریاست ہونا چاہیے جب کہ بعض دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ اسے سیکولر ریاست ہونا چاہیے۔
قدیم ہندوستان میں جاسوسی کا نظام
ریکارڈ شدہ انسانی تاریخ حکمرانوں کی طرف سے اپنی رعایا پر اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے، اسے وسعت دینے اور محکوم شہریوں اور برادریوں پر اپنی وسیع رِٹ کو برقرار رکھنے کے لیے انٹیلی جنس آلات کے موثر استعمال کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ قدیم چینی اور ہندوستانی حکمت کاروں اور مشیروں، جیسے سن زو اور چانکیہ کوٹلیہ، کی تحریروں میں دھوکادہی، بغاوت اور ان سے بچاؤ کے طریقوں کے بارے میں کافی معلومات موجود ہیں۔
کامریڈ زبیر الرحمن: وہ جو کوچہ قاتل سے بچ کے آئے تھے
کامریڈ زبیر الرحمان سر سے پاؤں تک ایک انقلابی تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی انقلاب کیلئے وقف کر دی تھی۔ انہوں نے جو شادی بھی کی وہ بھی ایک انقلابی کامریڈ صوفی کی انقلابی بیٹی سے کی۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ روزنامہ ایکسپریس میں کالم لکھتے تھے۔
ہیروشیما ناگا ساکی: امریکی ایٹم بم بمقابلہ کمیونسٹ تحریک کی امن فاختہ
اس جنگ کے خاتمے پر پوری دنیا امن کی خواہاں تھی۔ دنیا بھر کی ماسکو نواز کمیونسٹ پارٹیوں نے سوویت یونین کی ہدایت پر عالمی امن کی مہم شروع کی۔ اس کوشش کے نتیجے میں ورلڈ پیس کانگرس کا قیام عمل میں آیا۔ اس کا پہلا اجلاس 1949ء میں پیرس میں ہوا۔ اس کانگرس کے پوسٹر کے لئے پکاسو کے ایک سکیچ کا انتخاب کیا گیا۔ یہ اسکیچ دنیا بھر میں امن اورایک وقت پر کمیونسٹ تحریک کی علامت بن گیا۔
ارنسٹ مینڈل: عالمی ٹراٹسکی اسٹ تحریک کا میر کارواں
1950ء کی دہائی کے اواخر سے وہ چوتھی انٹرنیشنل اور بلجئیم میں ٹراٹسکی اسٹ تحریک کے اہم رہنما اور نظریہ دان بن کر ابھرے۔ اسی دوران وہ دو جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب ”مارکسٹ اکنامک تھیوری“ پر بھی کام کرتے رہے۔ وہ ایک شاندار مقرر تھے۔ کئی یورپی زبانیں بولتے تھے۔ 1960ء کی دہائی میں، بالخصوص 1968ء کے بعد، وہ ایک ہر دلعزیز شخصیت بن کر ابھرے۔ بائیں بازو کے وہ لوگ جو ان کی سیاست سے اختلاف رکھتے تھے، وہ بھی ارنسٹ مینڈل کے اثر و رسوخ اور بلا کی ذہانت کا اعتراف کرتے تھے۔ مغربی جرمنی کی ایس ڈی ایس (سوشلسٹ جرمن سٹوڈنٹس یونین)، بالخصوص اس کے رہنما مرحوم رودی ڈچک (Rudi Dutschke) ارنسٹ مینڈل سے بہت متاثر تھے۔