Day: جولائی 4، 2024


ناروے اور نظامِ طاغوت (حصہ اول)

حال ہی میں سما چینل پر مکالمہ نامی پروگرام میں لکھاری خلیل اُلرحمن قمر اور ٹی وی پریچر ساحل عدیم کو عورتوں کو درپیش مسائل پر رائے زنی کے لیے بلایاگیا۔ میں پروگرام کے آغاز میں یہ سوچتا رہا کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ بات تو عورتوں کے حقوق پر ہورہی ہے،مگر اسٹوڈیو میں بطورِ مہمان صرف مرد حضرات کو ہی بلایا گیا ہے۔ بعد میں یہ بھی دیکھا کہ پبلک میں بیٹھی ایک باشعور و تعلیم یافتہ لڑکی کو تنقیدی تبصرہ اور کڑوے سوال کرنے پر اس طرح جھڑک کر حقارت سے گھورا گیا کہ جیسے کوئی جاہل و بدکردار جاگیردار اپنے زرخرید غلام کی تذلیل کر رہا ہو، مگر ازبا عبداللہ نامی اس بہادر لڑکی نے95 فیصد عورتوں کو جاہل کہنے والے دونوں ادھیڑ عمر مردوں کو نہایت ہی بردباری و معلمانہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کھولتے تیل کے کڑھائے میں پھینک دیا۔

اردو ڈرامہ اور عصری مسائل

جب سماج کی بنیاد یعنی معاشی نظام متروک ہو جائیں،تو وہ محض معیشت میں ہی اپنا اظہار نہیں کرتے، بل کہ سماج کا ہر ایک ادارہ تعفن پھیلانے لگتا ہے۔ تاریخ کا دھارا گویا روک سا جاتا ہے۔ تہذیب و ثقافت زوال پذیر ہونا شروع ہو جاتیہیں۔ رشتوں کا تقدس اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔ سماج میں ایک بے گانگی جنم لیتی ہے، جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے لا تعلق کر دیتی ہے۔ یہ انسانوں کو مجبور کر دیتی ہے کہ ان کے پاس انفرادی بقا کے انتخاب کے علاوہ کوئی دوسرا رستہ نہیں بچتا، اور انفرادی کام یابی ہی سب سے بڑا مقصد حیات بن جاتی ہے۔ چاہے اس کی قیمت اپنوں کے خون سے ہی کیوں نا چکانی پڑے۔