تاریخ


پہاڑوں کا شہزادہ: آغا عبد الکریم اور ان کی گوریلا تحریک

بلوچستان کی سیاست اور زندگی میں ریاست پاکستان کے خلاف گوریلا مزاحمت کی علامت کے طور پر پہاڑہمیشہ اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔’’پہاڑوں پر چلے جانا‘‘ایک ایسا استعارہ بن چکا ہے جو گوریلا جنگ شروع کرنے یا اس میں شامل ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 1948ء کے بعد سے بلوچستان میں کم از کم 6 بڑے’’پہاڑوں پر جانے‘‘کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔

نیویارک:ممدانی سے پہلے، 1911ء میں بھی سوشلسٹ میئر بنا تھا

اپریل 1912 میں والٹر لپ مین افسردہ تھے۔ چار ماہ قبل انہوں نے کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے فوراً بعد ایک دلچسپ سیاسی ملازمت قبول کی تھی۔وہ جارج لن کے معاون مقرر ہوئے تھے، جو ابھی ابھی نیویارک کے شہر شینیکٹیڈی (Schenectady) کے سوشلسٹ میئر منتخب ہوئے تھے۔ یہ شہر البانی (Albany) سے تقریباً 20 میل شمال مغرب میں واقع تھا اور اس کی آبادی لگ بھگ 75ہزار تھی۔

بالشویک انقلاب 1917ء: بڑھے قدم تو راہیں بنیں!

آج متبادل کی تلاش اور پیاس موجود ہے۔ پوری دنیا میں سوشلزم اور مارکسزم کی طرف نوجوان نسل راغب ہو رہی ہے۔ حقائق کو جاننے اور متبادل کی تخلیق کی تگ و دو میں انہیں ادراک حاصل کرنا ہو گا کہ سوویت یونین میں درحقیقت ہوا کیا تھا۔ وہ مستند انقلابی مارکسزم کے چہرے سے اس داغ کو صاف کر کے اپنے مقدر تبدیل کرنے کے لیے اسے بروئے کار لانے پر مجبور ہوں گے۔ ایسے میں صرف وہی انقلابی قیادت ان کی رہنمائی کا فریضہ ادا کر سکے گی جو پہلے سے غیر متزلزل یقین کے ساتھ اس وقت کی تیاری کر رہی ہو گی۔ آج یہ واضح ہے کہ سوشلسٹ انقلاب سے کم کوئی چیز بھی محکوم اور مجبور عوام کو اس استحصالی نظام سے نجات نہیں دلا سکتی۔

احمقوں کی سامراج مخالفت

قبل از اسلام بت پرست عہد کے نئے سال کے موقع پر ہونے والا جشن نو روز پچھلے دو سال سے منایا جا رہا ہے اور اس موقع پر نوجوان مرد اور بے نقاب نوجوان خواتین مذہبی پولیس کو اس کے کالے کارناموں پر لعن طعن کرتے ہیں۔ یہ محض آغاز ہے لیکن اس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ تجربے سے سیکھتے ہیں۔ تجربے امریکی بموں کی نسبت کہیں بہتر استاد ہیں۔ وجہ مختصراً یہ ہے کہ حکومت کے پاس کوئی بہانہ نہیں اور نئی نسل کسی جھوٹ پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اکثریت ملاؤں اور ان کے مذہب سے غیر معمولی نفرت کرتی ہے۔

فہیم اکرم شہید کا یوم شہادت: وہ نوجوان جس نے محکومی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا

فہیم اکرم نے شعور کی کرن پاتے ہی ظلم کے خلاف آواز بلند کر دی تھی۔اس وقت جب یہ خطہ جبر و استحصال کی چکی میں پس رہا تھا اور حق بات کہنا سنگین خطرے سے کم نا تھا،فہیم اکرم قابض قوتوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو گیا۔وہ سامراج کے ایجنٹوں اور حاشیہ برداروں کا مقابلہ کرنے سیسہ پلائی دیوار بن گیا۔ اس نے ان چوکوں چوراہوں میں نا صرف آزادی کا نعرہ بلند کیا بلکہ انقلابی نظریات کی بنیاد بھی رکھی۔

نتیجہ

انقلابِ روس کے ارتقا میں مراحل کا حیرت انگیز تسلسل دیکھا جا سکتا ہے اور اِسی وجہ سے یہ ایک مستند عوامی انقلاب تھا جس نے کروڑوں انسانوں کو متحرک کیا۔ واقعات اِس طرح سے ایک دوسرے کے بعد رونما ہوئے جیسے کشش ثقل کے قوانین کی اطاعت کر رہے ہوں۔ ہر مرحلے پر طاقتوں کے توازن کی دوہری جانچ ہوئی: پہلے عوام اپنے حملے کی قوت کا مظاہرہ کرتے تھے، پھر انتقام کی کوشش میں ملکیتی طبقات اپنی تنہائی کا اظہار زیادہ واضح طور پر کرتے تھے۔

سوویت آمریت کی کانگریس

مصالحت پسند دانشوروں کے اثر و روسوخ سے آزاد ہو کر مقامی سوویتوں نے زیادہ تر مزدوروں اور سپاہیوں کو بھیجا تھا۔ اُن کی اکثریت عام لوگوں پر مشتمل تھی، جنہوں نے خود کو عمل میں منوایا تھا اور اپنے علاقوں کا دیرپا اعتماد حاصل کیا تھا۔ محاذ سے آنے والے کم و بیش سب کے سب عام سپاہی تھے، جو فوجی کمیٹیوں اور صدر دفتر کی رکاوٹیں توڑ کر مندوبین کے طور پر آئے تھے۔

اکتوبر کی سرکشی

انقلاب پر مادی تمثیلات اتنے فطری طور پر منطبق ہوتی ہیں کہ اُن میں سے کچھ تو گھِس پِٹ چکے استعاروں میں بدل چکی ہیں: ’’آتش فشاں کا پھٹنا‘‘، ’’نئے سماج کی پیدائش‘‘، ’’نقطہ ابال‘‘ …یہاں ایک سادہ سی ادبی تصویر کشی کے نیچے جدلیات کے قوانین، یعنی ارتقا کی منطق کا وجدانی ادراک پوشیدہ ہے۔

سرما محل پر قبضہ

محاذ سے اطلاعات لانے والے سٹینکیوچ سے ملتے وقت کیرنسکی شدید ہیجان کی کیفیت میں مبتلا تھا۔ وہ ابھی ابھی ’جمہوریہ کی کونسل‘ سے لوٹا تھا، جہاں اُس نے بالشویکوں کی سرکشی کو فیصلہ کن طور پر بے نقاب کیا تھا۔ سرکشی! کیا تمہیں پتا ہے کہ مسلح سرکشی ہو رہی ہے؟ …