تاریخ

[molongui_author_box]

احمقوں کی سامراج مخالفت

قبل از اسلام بت پرست عہد کے نئے سال کے موقع پر ہونے والا جشن نو روز پچھلے دو سال سے منایا جا رہا ہے اور اس موقع پر نوجوان مرد اور بے نقاب نوجوان خواتین مذہبی پولیس کو اس کے کالے کارناموں پر لعن طعن کرتے ہیں۔ یہ محض آغاز ہے لیکن اس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ تجربے سے سیکھتے ہیں۔ تجربے امریکی بموں کی نسبت کہیں بہتر استاد ہیں۔ وجہ مختصراً یہ ہے کہ حکومت کے پاس کوئی بہانہ نہیں اور نئی نسل کسی جھوٹ پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اکثریت ملاؤں اور ان کے مذہب سے غیر معمولی نفرت کرتی ہے۔

حاشیہ ہائے بابِ شکست

1948ء کی نکبۃ کے ہاتھوں فلسطینی قیادت سے محروم ہوگئے اور بکھر کر رہ گئے۔ ان کی زندگیاں صحیح معنوں میں عرب ریاستوں کی کڑی نگرانی میں آگئیں۔ فلسطین محاذ آزادی (پی ایل او) کے قیام پر اتفاق رائے کے لئے عرب لیگ نے پندرہ سال لگا دیئے لیکن پی ایل او کا مطلب یہ تھا کہ فلسطینی دستے بنائے جائیں جو شام، عراق، اردن اور مصر کی فوجوں اندر مد غم ہو جائیں۔ عرب دارالحکومتوں اندر 1956ء کے واقعات اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والی پولرائزیشن سے متاثر ہوکر ریڈیکل نظریات رکھنے والی نئی فلسطینی نسل اندر ایک نیا شعور جنم لے رہا تھا۔ یہ ایسے نوجوان مرد و خواتین تھے جو 1948 میں ابھی اپنے پیروں چلنا سیکھ رہے تھے او ر اس دور کی نسلی صفائی کا براہ راست تجربہ انہیں بھول چکا تھا۔ یہ وہ نسل تھی جو بربادیوں کی داستان سنتے ہوئے پلی بڑھی تھی اور انکی یاداشت مشترکہ تھی جو شکست کے براہ راست تجربے کی نسبت زیادہ کار گر ہوتی ہے۔

فیض اور فلسطین

”محترم شاعر اور برادر عزیز فیض احمد فیض! آپ کی شکل میں فلسطینی لوگوں کو ایک ایسا شاعر نصیب ہوا ہے جو ترقی پسند ہے، عالمی شاعر ہے، عالمی امن کے لئے ان تھک جدوجہد کرنے والا کارکن ہے اور آزادی و خوشحالی کے لئے جدوجہد کرنے والے مظلوم عوام کا ساتھی ہے۔ ہم عرب فلسطینیوں کو آپ کی دوستی پر فخر ہے۔ آپ کے گہرے شعور، اہل فلسطین اور ان کی جائز جدوجہد میں آپ کی معاونت کرنے پر ہمیں آپ پر فخر ہے۔ اہل فلسطین خاص کر فلسطینی بچوں اور انقلابیوں کے لئے آپ نے جو دلسوز اور بہترین نظمیں کہیں وہ ہمیشہ برادرانہ اور سچی محبت کی مثال بن کر ہمیشہ زندہ رہیں گی“۔

جب طوفان جھوم کے اٹھے!

لیکن آج بالشویک انقلاب کے 102 سال بعد سوال یہ ہے کہ کیا سرمایہ داری انسانیت کے مسائل حل کر رہی ہے یا انہیں زیادہ گھمبیراور پیچیدہ بنا رہی ہے؟ امارت اور غربت کی خلیج اتنی وسیع پہلے کبھی نہ تھی جتنی آج ہے۔ جہاں سات افراد کے پاس دنیا کی آدھی آبادی سے زائد دولت ہے۔ ایک طرف غربت، بیروزگاری اور محرومی کی نہ ختم ہونے والی ذلتیں ہیں‘ دوسری طرف ماحولیات کی تباہی ساری نسل انسان کے وجود کے لئے ہی خطرہ بن رہی ہے۔ پچھلے سو سال میں بہت کچھ بدل گیا ہو گا لیکن طبقاتی تضاد اور جبر و استحصال کم نہیں بلکہ شدید ہی ہوئے ہیں۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں‘ لبنان، ایکواڈور، چلی، فرانس، سپین اور عراق سمیت دنیا کے بیشتر ممالک بڑے پیمانے کے احتجاجی مظاہروں اور عوامی تحریکوں کی زد میں ہیں۔

گلگت بلتستان کی جنگ آزادی میں برٹش ایجنٹ میجر براؤن کا کردار

کوہ ہمالیہ، کوہ ہندوکش اور کوہ قراقرم کے دامن میں واقع گلگت بلتستان کا یہ پہاڈی علاقہ نہ صرف اپنی قدرتی خوبصورتی، بلند بالا پہاڑی چوٹیوں اور معدنیات کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ جیو اسٹرٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ایشیاء کا مرکز کہلاتا ہے۔
ماضی میں یہ خطہ عالمی طاقتوں کے درمیان گریٹ گیم کا مرکز رہا ہے.John Keay اپنی مشہور کتاب "دی گلگت گیم” میں لکھتے ہیں کہ ” گلگت ریجن کی اہم اسٹریٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ہی عالمی طاقتوں نے گریٹ گیم کو گلگت بلتستان کی پہاڑی وادیوں میں لائیں، جہاں انڈیا ،چین، روس، افغانستان اور پاکستان کی طویل سرحدیں ملتی ہیں اور اس خطے کی خصوصیات اس طرح بیان کی گئی ہیں کہ اسے ریڑھ کی ہڈی،محور ، مرکز، تاج کا گھونسلا، فلکرم، اور چائنہ کے لکھاریوں نے اسے ایشیاء کا محور قرار دیا ہے۔“

حرف پائیدار: ’امید سحر کی بات‘

میڈیا سکالر کے طور پر ڈاکٹر قیصر کی اس موضوع پر کتنی گہری گرفت ہے، اس کا اندازہ تو مجھے انہی دنوں ہو گیا تھا جن دنوں میں اپنے مقالے کے سلسلے میں ان سے رہنمائی لیتا تھا لیکن مجھے اس کا حقیقی ادراک اس وقت ہوا جب میں نے ان کے ساتھ مل کر پاکستانی میڈیا پر ایک کتاب مدون کرنا شروع کی۔اکیڈیمک مطبوعات شائع کرنے والے معروف عالمی ادارے ’روٹلیج‘ کے زیر اہتمام، ’فرام ٹیلی ویژن ٹو ٹیرر ازم: ڈائنامکس آف میڈیا، سٹیٹ اینڈ سوسائٹی‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اس کتاب کی تدوین کے دوران مجھے ڈاکٹر قیصر سے بے شمار علمی باتیں سیکھنے کا موقع تو ملا ہی لیکن جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ تھا ڈاکٹر قیصر کا رویہ اور خندہ پیشانی۔

ایک اور دوست رخصت ہوا

قیصر عباس ایم اے کرکے کچھ عرصہ محکمہ تعلقات عامہ پنجاب میں انفارمیشن آفیسر رہے۔پھر پی ٹی وی نیوز اسلام آباد چلے گئے۔گھر راولپنڈی میں ہی تھا۔ہماری جونیئر صالحہ سلیمان بھی پی ٹی وی پہنچیں تو ان کا تعارف ہوا اور پھر زندگی کا ساتھ بن گیا۔صالحہ نے اپنے سیشن میں تمام شعبوں کے طلباء سے زیادہ نمبر لیے تھے۔انہیں قائداعظم سکالر شپ ملا تو انہوں نے امریکہ میں داخلہ لیا۔قیصر بھی ساتھ گئے۔بالآخر دونوں نے پی ایچ ڈی کرلیا اور مختلف یونیورسٹیوں میں بطور پروفیسر، ڈائریکٹر اور اسسٹنٹ ڈین خدمات انجام دیتے رہے۔

صیہونیت، تیل کی پہلی جنگ، مزاحمت

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے سے نو آبادیات کے خاتمے کا عمل شروع ہوا۔ کش مکش کے ہاتھوں پرانی سلطنتیں کمزور ہو گئی تھیں۔ جرمن سامراج کو شکست ہو گئی تھی مگر برطانیہ اور فرانس کے ہاتھوں نہیں۔ یہ تاریخ ساز سویت مزاحمت تھی، کرسک اور سٹالن گراڈ کی جنگیں اس مزاحمت کی علامت تھیں، جس نے ویرَماخت٭ کی کمر توڑی۔ امریکہ کی اقتصادی اور فوجی امداد نے بھی فیصلہ کُن کردار ادا کیا۔ امریکہ دنیا کی طاقتور ترین معاشی قوت بن کر اُبھرا مگر وہ سویت یونین کی فوجی طاقت اور تکریم سے پریشان تھا۔ ابھی دوسری جنگ عظیم لڑی جا رہی تھی کہ سرد جنگ، جو بعد میں چلی، شروع ہو چکی تھی۔ امریکہ، سویت یونین اور برطانیہ اس بات پر متفق تھے کہ وہ یورپ کو اپنے اپنے حلقہ اثر میں تقسیم کرلیں گے۔ جرمنی تقسیم کیا جائے گا۔ سٹالن کو مشرقی یورپ ملے گا اور اس کے بدلے میں وہ فرانس، اٹلی اور یونان میں کمیونسٹ مزاحمت کو کُچلے گا اور یہ وہ ممالک تھے جو اینگلو امریکی سامراج کی ذمہ داری تھے۔ جہاں تک باقی دنیا کا تعلق ہے، بالخصوص ایشیا، کسی قسم کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرایا اور اس پر قبضہ کر لیا مگر باقی ہر جگہ افراتفری مچی تھی۔

جموں کشمیر پر قبائلی حملہ: 74 سالہ ’زخموں‘ سے نجات خود انحصاری کی متقاضی!

رواں سال 22 اکتوبر کو جموں کشمیر پر قبضے کی غرض سے پاکستانی ریاست کی ایما پر ہونے والے منظم قبائلی حملے کو 74 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں ابھی تک اس واقع کو متعدد مرتبہ کریدہ جا چکا ہے اور ہر مرتبہ وحشت و بربریت کی ایک نئی داستان ان واقعات کی ہولناکی میں اضافہ ہی کرتی آئی ہے۔

مبارک قاضی: بلوچستان کا سربکف شاعر

بعض شاعروں اور ادبی شخصیات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ واقعی ان سے ملنا چاہتے ہیں تو ان کے کام کے ذریعے ملیں، کیونکہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں بہت مایوس کن ہو سکتے ہیں، یا ان کا کام اور ذاتی زندگی ایک دوسرے سے متصادم ہو سکے ہیں۔ ایسے ہی ایک بلوچ شاعر مبارک قاضی تھے،جو مزاحمتی اور عوامی شاعر تھے۔