عبدالخالق کہتے ہیں کہ دنیا میں ایسے قواعد موجود ہیں جن کی بنیاد پر آفت زدہ ملک اپنے قرضے دینے سے انکار کر سکتے ہیں، یا کم از کم موخر کرنے کیلئے بات چیت کا آغاز کر سکتے ہیں۔ تاہم پاکستان کے حکمران ایسی جرات کرنے کی بجائے مزید قرض لینے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ قرض دینا عالمی مالیاتی اداروں کا کاروبار ہے، وہ اس کاروبار کو نقصان نہیں ہونے دے سکتے، اس لئے پاکستان جیسے ملکوں کو وہ دیوالیہ نہیں ہونے دیتے، بلکہ پالیسیوں پر اثر انداز ہوکر خودمختاری پر کمپرومائز کرواتے ہیں اور قرضوں کا یہ کاروبار جاری رکھتے ہیں۔ عبدالخالق ادارہ برائے سماجی و معاشی انصاف (ISEJ) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں اور دنیا بھر میں ناجائز قرضوں کے خاتمے پر کام کرنے والے نیٹ ورک ’CADTM‘ کے رکن ہیں۔ پاکستان میں ناجائز اور غیر قانونی قرضوں کے خاتمے کی تحریک میں سرگرم ہیں۔
نقطہ نظر
دادو میں شہریوں نے خود بند باندھ کر تحصیل جوہی کو بچا لیا
صدام مصطفی کہتے ہیں کہ سندھ کے ضلع دادو کی تحصیلوں میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت جہاں سیلابی پانی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں، وہیں حکومتی بے حسی اور انتظامی اداروں کی نااہلی کے خلاف سراپا احتجاج بھی ہیں۔ سیلابی پانی داخل ہونے کے خطرات سے دوچارشہروں اور دیہاتوں کو محفوظ بنانے کے علاوہ متاثرین کو فاقوں اور بیماریوں سے مرنے سے بچانے کیلئے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ صدام مصطفی دادو شہر کے رہائشی ایک سوشلسٹ رہنما ہیں، وہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (پی ٹی یو ڈی سی) کے ساتھ منسلک ہیں۔ گزشتہ روز سیلابی صورتحال سے متعلق ان کا ایک مختصر انٹرویو کیا گیا، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
خیبر پختونخواہ:’10 سال پہلے روز گن شپ ہیلی کاپٹر مارنے آتے تھے، اب سیلاب سے بچانے کوئی نہیں آیا‘
رکا ہوا پانی نکالنے اور تعمیر نو و بحالی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ فوری طور پر تو رکا ہوا پانی نکالنے کیلئے واٹر پمپنگ کرنے کے ساتھ ساتھ بند نالوں اور ندیوں کو کھولنے کی ضرورت ہے۔ تعمیر نو اور بحالی کیلئے فوری طور پر مواصلات کے شعبے کو جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سیلاب کی نظر ہونے والے مکانات کی تعمیر کرنے کے علاوہ دیگر ریلیف کی سرگرمیاں فوری طور پر شروع کرنی چاہئیں۔ اندرون و بیرون ملک سے جمع ہونے والی امدادی رقوم کو بنا خرد برد کے سیلاب زدگان کی بحالی و آبادکاری پر صرف کیا جانا چاہیے۔
’سرائیکی خطہ مکمل تباہ ہو گیا ہے، حکومت اور بڑی سیاسی جماعتیں غائب ہیں‘
جنوبی پنجاب اور سرائیکی خطہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ دو مرکزی اضلاع ڈی جی خان اور راجن پور کی تمام تحصیلیں سیلاب کی زد میں ہیں، مجموعی طو رپر کوئی ایسی جگہ نہیں جو محفوظ ہو، ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ شہروں تحصیل ہیڈکوارٹر اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر کو کسی حد تک پانی سے بچانے کی کوشش کی گئی ہے، اکثر شہروں میں بھی پانی داخل ہوا ہے۔ تاہم اس طرح کے نقصانات نہیں ہوئے۔ باقی تمام دیہات اور شہروں کے نواحی قصبے پانی میں ڈوب چکے ہیں۔ فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، مویشی ہلاک ہو چکے ہیں، مکانات پانی میں ڈوب کر گر چکے ہیں۔ لوگوں کا سب کچھ تباہ ہو چکا ہے اور لوگوں کی حالت اس وقت بہت تکلیف دہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کا زمینی صورتحال سے اس لئے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ ابھی تک حکومتی ادارہ کوئی بھی سیلاب متاثر ہ علاقوں تک مکمل رسائی ہی حاصل نہیں کر سکا ہے، ہواؤں میں ہی اعداد و شمار بنائے جا رہے ہیں۔ لوگوں کے دکھوں اور تکالیف کا مذاق بنایا جا رہا ہے۔
سندھ: ’لاشیں دفنانے کیلئے بھی خشک زمین میسر نہیں، وزیر اعلیٰ، بلاول بھٹو خالی ہاتھ دورے کر رہے ہیں‘
ہم سمجھتے ہیں کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے یہ حکمران سیلاب یا کسی بھی نو ع کی آفات اور انسانی سانحات میں متاثر ہونے والے انسانوں کی بحالی اور تعمیر نو کیلئے اقدامات کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں۔ ان حکمرانوں کیلئے ہر قدرتی آفت اور سانحہ لوٹ مار اور منافعے نچوڑنے کا ایک راستہ اور ایک امکان لے کر آتاہے۔ پانی کو چینلائز کرنے کیلئے بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، جو اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اس بوسیدہ ریاستی ڈھانچے میں ممکن ہی نہیں ہے۔
پاکستان ہو یا ہندوستان، مذہبی جنونیت ملیریا ہے
شرمناک بات ہے کہ اس فلم پر تنازعہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب ہندوستان پاکستان اپنی اپنی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی منا رہے ہیں۔ پاکستان میں اس بات پر خوشی منائی جا رہی ہے کہ سلمان رشدی پر حملہ ہوا ہے جبکہ تحریک لبیک کے ڈر سے سرمد کھوسٹ کی فلم ریلیز نہیں ہو پا رہی۔ ادہر ہندو طالبان بضد ہیں کہ عامر خان غدار ہے اس لئے’لال سنگھ چڈھا‘ کا بائیکاٹ کیا جائے۔ سرحد کے آر پار پاگل پن کی یہ محض تازہ مثالیں ہیں۔ جس طرح ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کے ذریعے منٹو نے یہ پوچھا تھا کہ پاگل کون ہے، وہ جو لاہور کے پاگل خانے میں قید ہیں یا جنہوں نے ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان کو دے کر بشن سنگھ انڈیا کے حوالے کر دیا ہے؟ اسی طرح، لال سنگھ چڈھا بھی کچھ سوال پوچھ رہا ہے اور معصومیت سے آئینہ لئے کھڑا ہے جس میں ہندو طالبان اپنا چہرا دیکھ کر شور مچا رہے ہیں۔
’پی ٹی آئی نے سیاسی کلچر کو گالم گلوچ بنا دیا، یوں طنز سمجھنا بھی مشکل ہو گیا‘
زیادہ تر میرا مواد عمران خان اور ان کے فالوورز کے حوالے سے ہوتا ہے۔ تاہم مجھے جو بھی چیز غلط نظر آئے گی، بلاتفریق سب کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا۔ کسی کی تضحیک کئے بغیر اس کو اپنی نیچرل کمنٹری کی شکل میں منافقت کو سامنے لایا جائے۔ آہستہ آہستہ سب پر تنقید ہو گی۔
ٹراٹسکی کی نئی سوانح حیات: مہیب اشتعال انگیزی پر تاریخ کے خلاف خالی ہاتھ لڑائی
ٹراٹسکی یہ اندازہ بھی درست طور پر نہ لگا سکا کہ پارٹی میں جو تبدیلیاں آ رہی تھیں وہ کتنی اہمیت کی حامل تھیں۔ پرانے کارکن جنہیں ٹراٹسکی پارٹی کے اندر زوال پذیری کے خلاف ایک دیوار سمجھتا تھا، وہ کمزور ہو رہے تھے۔ ادہر، سٹالن جو نئی رکن سازی کر رہا تھا وہ سارے ارکان سٹالن کا ساتھ دیتے نہ کہ ٹراٹسکی کا۔ دیگر رہنماؤں کے ساتھ گھلنے ملنے سے پرہیز بھی ٹراٹسکی کی کمزوری ثابت ہوئی۔ سٹالن نے ٹراٹسکی کی جانب سے پارٹی رہنماؤں کے ساتھ سماجی تعلقات قائم نہ کرنے کا فائدہ اٹھایا اور اس کی مخالفت کو ہوا دی۔ ٹراٹسکی کے خلاف ہر طرح کے جھوٹ پھیلائے۔ کامیابی اور بلا کی ذہانت کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ انسان کے ساتھیوں میں حسد پیدا ہو سکتا ہے۔
وجاہت صاحب! کیوبا میں نسل پرستی کا طعنہ چے گویرا کو نہیں، انکل سام کو دیں
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اگر پاکستان میں کسی کو انسانی حقوق میں دلچسپی ہے تو اسے سوشلسٹ تحریک کا ساتھ دینا ہو گا۔ یہ ممکن نہیں کہ انسان شریف خاندان کے بھی ساتھ ہو اور ان کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور وں کا بھی ساتھی ہو۔
راقم فی الحال اپنی معروضات کو یہاں روک رہا ہے۔ وجاہت مسعود صاحب کے جواب الجواب کا اس امید کے ساتھ انتظار رہے گاکہ یہ بحث کامریڈلی انداز میں آگے بڑھے گی۔ اگر کسی جملے یا لفظ سے وجاہت صاحب کو کسی موقع پر یہ احساس ہوا ہو کہ اس تحریر کا لہجہ کامریڈلی نہیں تھا، تو اس کے لئے پیشگی معذرت۔
وجاہت صاحب! کیوبا نے ایٹم بم کی بجائے ڈاکٹر بنائے
”ہم کوئی کیمیائی ہتھیار بھی نہیں بنانے جا رہے۔ ایسے ہتھیاروں کی ٹرانسپورٹ کا کیا بندوبست ہو گا؟ آپ یہ ہتھیار کس کے خلاف استعمال کریں گے؟ امریکی شہریوں کے خلاف؟ نہیں۔ یہ نا انصافی ہو گی، لایعنی بات ہو گی۔ کیا آپ ایٹم بم بنائیں گے؟ اس طرح تو آپ تباہ ہو جائیں گے۔ یہ خود کشی کا بہترین طریقہ ہے: ’حضرات وقت آ گیا ہے کہ ہم اجتماعی خود سوزی کر لیں۔ یہ خود سوزی ایٹم بم کی مدد سے کی جائے گی‘۔“