بالی وڈ کے شہر ہ آفاق اداکار نصیر الدین شاہ کا کہنا ہے کہ آج ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد اور تعصب کی بنیادیں پہلے سے موجود تھیں۔ آج چونکہ ان متعصبانہ رویوں کو سیاسی پشت پناہی حا صل ہے یہ اب معاشرے میں ابھر آئے ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ قوم سے میری وفاداری پر آج جو سوال اٹھائے جا رہے ہیں وہ پہلے سے موجود ہیں یا ایک نئی چیز ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بٹوارے کے دوران تشدد کی کہانیاں اب بھی سرحد کے دونوں جانب لوگوں کے دلوں میں موجود ہیں لیکن اب انہیں با ہر آنے کا موقع ملک گیا ہے۔
نقطہ نظر
’حکومت سے امید نہ اپوزیشن سے، عمران کو ہٹانے کے لئے ناگزیر ہوا تو عدم اعتماد کروں گا‘
اپوزیشن نے ہی رابطہ کیا تھا۔ اپوزیشن کے اجلا س میں مجھے بلایا گیا تھا، لیکن میں نے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ شہباز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر اپوزیشن کے لوگ میرے پاس آئے تھے۔ میں نے انہیں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ حکمرانوں کے مفادات کی لڑائی اپنی جگہ پر ہے، ہم ایسے لوگ نہیں ہیں۔ میں آپ لوگوں سے عوام کے مسائل کے حل کے حوالے سے کوئی توقع نہیں رکھتا، نہ ہمارے کوئی مفادات ہیں اور نہ کسی چیز کی لالچ ہے۔ ہم نے جو وقت گزارنا تھا، جیسا تیسا گزار لیا ہے۔ جب بھی موقع ملا میڈیا پر بھی آؤں گا اور عوام کے پاس بھی جاؤں گا، جب تک مسائل حل نہیں ہوتے، تب تک آواز اٹھاتا رہوں گا۔
صرف ایک نظام ہی زندہ رہ سکتا ہے جس میں سب کا حصہ ہو: پرویز ہود بھائی
وہ (آرمی اسٹیبلشمنٹ) بلوچ قوم پرستی کو اپنی بالادستی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتی ہے اور اسے کچلنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔
کشمیر فائلز: انسانیت، تاریخ اور فن پر ہندتوا کی یلغار!
سرکاری سطح پر ایسی فلمیں بنا کر انکی سرکاری سطح پر تشہیراورترویج کی جا رہی ہے، جن میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو بیرونی ایجنٹ، حملہ آور، غیر مقامی قرار دیکر ہندو سماج کیلئے خطرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اقلیتوں کے خلاف ہونے والے فسادات اور قتل عام کو خاموش اور کئی جگہوں پر سرعام سرکاری سرپرستی فراہم کی جاتی ہے۔ اس سب کا مقصد قطعی طورپر ہندو مذہب کے ماننے والوں کو بہتر زندگی دینا نہیں ہے، بلکہ محنت کش طبقے کو تقسیم اورباہم دست و گریباں کر کے انکی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹائی جا رہی ہے۔
ہاں ہم لال خان ہیں!
کامریڈ لال خان نے ایک نظریہ بن کر کام کیا اس لیے ان کے جانے کے بعد ان کا کیا ہوا کام اور ان کی عمر بھر کی جدوجہد رائیگاں نہیں گئی۔
ڈیئر عنبر رحیم شمسی موازنہ اشرف غنی سے نہیں یحییٰ خان سے بنتا ہے
یہ موازنہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ جب افغانستان کے سکولوں، ہسپتالوں، جنازوں، ٹیلی ویژن چینلوں، خاتون صحافیوں پر حملے ہو رہے تھے تو پاکستان میں کوئی پاکستانی یہ پلے کارڈ لے کر نہیں نکلا: آئی ایم اے پاکستانی، آئی ایم سوری، آئی ایم سوری کے ہم نے کوئٹہ شوریٰ اور حقانی نیٹ ورک کو گھر داماد بنا کر رکھا ہوا ہے اور جب بھی خود کش دھماکے کی خبر کابل سے آتی ہے تو پاکستانی نیوز چینل فتح کے شادیانے بجاتے ہیں۔
احمقوں والی سامراج مخالفت پر ایک ’سوشلسٹ انقلابی‘ کو کھلا خط
اگلی بار اسکرین پر یوکرین کے شہریوں، بچوں، بوڑھوں، نوجوان مرد و خواتین کو خون میں لت پت، بے گھر اور ہجرت کرتا دیکھیں تو کیمپ ازم کی عینک اتار کر دیکھئے گا، شائد نظریاتی افاقہ ہو۔ آپ نے جو سیاسی پوزیشن لی ہے اس نے تو آپ سے آپ کی انسانیت تک چھین لی ہے۔ اگر کسی سوشلسٹ سے اس کی انسانیت ہی چھن جائے تو پھر اس میں اور ایک فاشسٹ میں کیا فرق؟
گلگت بلتستان: عبوری صوبہ بنانے سے سہولت کار فائدہ اٹھائیں گے، عوام نہیں
گلگت بلتستان پاکستان کا سب سے زیادہ ’ڈی پولیٹی سائزڈ‘ علاقہ ہے۔ سیاست پر پابندیوں کی وجہ سے این جی اوز نے سیاسی جماعتوں کی جگہ لے لی۔ این جی اوز کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کو غیر سیاسی کریں۔
شعبدہ بازی اور انسانی نفسیات سے کھیلتی ’نائٹ مئیر ایلی‘
فلم کو 1930ء کی دہائی کے پس منظر میں شوٹ کیا گیا ہے۔ فلم چونکہ ایک نیو نویر کے انداز میں شوٹ کی گئی ہے تو روشنی اور سایوں کا استعمال نہایت خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ فلم کی ایڈیٹنگ بھی اچھی ہے۔ فلم لمبی نہیں لگتی اور بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔ فلم کی اوریجنل لوکیشز بفلو سٹی اور کچھ کینیڈا میں ہیں اس کے علاوہ سارے سیٹ بہت عمدہ بنائے گئے ہیں۔ میلے کا ماحول روایتی امریکی انداز کا ہے اور 1930ء میں امرا کے گھر اور ہوٹلوں کے انداز سے دوسری عالمی جنگ اور نازی جرمن کے وقت کی عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ڈاکٹر لالیتھ کا دفترانسانی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوے ڈیزائن کیا گیا ہے جو عالیشان ہونے کے ساتھ ساتھ اعصاب پر دہشت طاری کرتا ہے۔ اس کے پوشیدہ دروازے جیسے کئی راز چھپائے ہوئے ہوں۔ دیواروں کا رنگ، الماریوں کی بناوٹ اور نقش و نگار انسانی سوچ کو قابو میں لینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کے سٹین اور ڈاکٹر لالیتھ کے سین اتنے دلچسپ ہے۔ پھر ان دونوں کے مکالمے نہایت مہارت سے لکھے گئے ہیں۔
یہ سڑک آپ کے ابا جی کی نہیں ہے
ڈئیر ایلیٹ! مجھے معلوم ہے کہ آپ کے لاڈلوں کی بے ہودہ اور شرمناک حد تک خطرناک ڈرائیونگ آپ کی بے رحم طبقاتی طاقت کا اظہار ہوتی ہے۔ آپ کے لاڈلے ہمیں اپنی خوفناک حد تک مہنگی گاڑیوں میں بیٹھ کر حد درجہ ڈروانی ڈرائیونگ کے ذریعے یہ بتا تے ہیں کہ جس طرح ڈیڈی نے قانون کو تہس نہس کر کے ہذا من فضل ربیٰ حاصل کیا، کوئی قانون ڈیڈی کا کچھ نہیں بگاڑ سکا، اسی طرح کوئی ’چھلڑ‘، کوئی ٹریفک رُول، کوئی ٹریفک قانون، ٹریفک کی کوئی اخلاقیات لاڈلے بیٹے کا راستہ نہیں روکے گی۔ وہ دائیں سے اوورٹیک کرے یا بائیں سے۔ لال اشارہ توڑے یا پیلا۔ سب طاقت کا اظہار اور دولت کے نشے کا خمار ہوتے ہیں۔