نقطہ نظر


کارل مارکس بطور ایک صحافی

تاہم مارکس کا اپنے نیویارک ٹربیون کے کالم کیلئے بنیادی نقطہ نظر یہ تھا کہ وہ واقعات کو سیاست اور معاشیات کے کچھ بنیادی سوالات کی بنیاد پر کھنگالتے اور پر ان سوالوں پر اپنا فیصلہ سناتے تھے۔ وہ ایسے واقعات کو زیر بحث لاتے جو خبروں میں ہوتے تھے، جیسے کوئی الیکشن، بغاوت، دوسری افیون جنگ، امریکی خانہ جنگی کا آغاز وغیرہ۔ اس لحاظ سے مارکس کی صحافت کچھ ایسے تحریروں سے مشابہت رکھتی ہے، جو آج کل رائے عامہ کے جرائد میں شائع ہوتی ہیں۔ مارکس کی صحافتی تحریر اور عوامی امور پر کی جانیوالے سیاسی صحافت، جو بیسیوں صدی میں یورپ میں عام تھی، کے درمیان براۂ راست لکیر کھنچنا مشکل نہیں ہے۔

غربت اور عورتوں کی حالت زار آج کے اہم مسائل ہیں: فرزانہ راجہ

ے نظیرانکم سپورٹ پروگرام(BISP) کی سابق چئیرفرزانہ ر ا جہ نے کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی غربت اور عورتوں کی حالت زار آج ملک کے اہم مسائل ہیں۔ان کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان میں غربت کے خاتمے اور عورتوں کی فلاح کے پروگرام BISPکوسماجی کاوشوں کا ایک شفاف پروگرام قرار دیتے ہیں کیوں کہ اس کامیاب پروگرام کے فوائد اب عام لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔

ڈائریکٹر ایچ ای سی صاحبہ: پابندی لگانی ہے تو یونیورسٹی فیسوں پر لگاؤ

ویسے مولوی حضرات کے مطابق’ہماری روایت‘ تو یہ بھی ہے کہ خواتین کو گھر سے نہیں نکلنا چاہئے۔ معلوم نہیں جب طالبان نے افغانستان پر دوبارہ قبضہ کیا تو آپ خوش ہوئی تھیں یا نہیں۔ بہرحال ’ہماری روایات‘کے نام پر طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی ہے۔ میں نے لنکڈ اِن پر آپ کا سی وِی(CV) دیکھا۔ سی وِی پر بات کرنے سے پہلے آپ کی توجہ آپ کے لنکڈ اِن والے سی وی پر مبذول کراتا چلوں: جہاں آپ نے اپنے کیتھڈرل سکول کا ذکر کیا ہے، وہاں لاہور کے سپیلنگ غلط ہیں۔

’مارکس سے خائف لوگ‘

’مارکس سے خائف لوگ‘ ایک انتہائی دلچسپ کتاب ہے، جو پاکستانی سماج، اسکی سیاست، ریاست، پاپولر کلچر اور صحافت کا مارکسی نقطہ نظر سے تجزیہ کرتی ہے۔ مختلف تبصروں کے اس مجموعے کے مصنف عامر رضا کا کمال یہ ہے کہ وہ دقیق تھیوریٹکل سوالوں پر بحث کوانتہائی آسان اور عام فہم زبان میں پیش کرتے ہیں، یا یوں کہیں کہ یہ کتاب مصنف کی گہری سماجی نظراور داستان گوئی کی باکمال صلاحیتوں کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔ جس میں حکمران طبقات کی طرف سے تخلیق کردہ بیانیوں کو ڈی کنسٹرکٹ کرتے ہوئے مذہب، نظریے اورسیاست کو پرکھنے کا ایک متبادل نقطہ نظرپیش کیا گیا ہے۔

”افغان خواتین کے لیے صحافت انتہائی خطرناک پیشہ ہے“: زہرہ نادر سے انٹرویو!

زہرہ نادر افغان صحافی ہیں جو آج کل کینیڈا میں مقیم ہیں اور افغانستان کے آن لائین اخبار ”زن ٹائمز“ کی ادارت بھی کررہی ہیں۔ نوے کی دہائی کے دوران ملک پر طالبان کے قبضے کے بعدوہ ایران منتقل ہو گئی تھیں۔ امریکہ کے ہاتھوں طالبان کی پسپائی کے بعد دوبارہ وطن آ کر انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور صحافتی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئیں۔

آدم خور آئین

سرکاری گراؤنڈ میں لوگوں کی قطاریں لگی تھیں۔ صفدر بھی ایک قطار میں موجود تھا۔ ہزاروں مرد و خواتین کا یہ مجمع حکومت کی طرف سے مفت آٹا ملنے کی خبر سننے کے بعد یہاں جمع ہوا تھا۔ تاہم آٹا تو صرف انہیں ملنا تھا، جو سرکاری امدادی پروگرام کے سروے کے دوران منتخب کئے گئے تھے۔ ان منتخب لوگوں کو موبائل پر آٹا وصول کرنے کا میسج آیا تھا۔ صفدر سمیت دیگر ہزاروں لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ وہ اس سروے کی مستحق افراد کی فہرست میں موجود ہی نہیں ہیں۔

SIR: تعلیم کے کاروبار کیخلاف ایک طاقتور فلم

پاکستان میں بھی تعلیم ایک جنس بن چکی ہے جس کے کور پر لکھا ہوا ہے’غریبوں کی پہنچ سے دور رکھیں‘۔ ایک طرف تعلیم اس ملک کا سب سے منافع بخش کاروبار ہے اور دوسری طرف ’سرکاری اعداد و شمار‘ کے مطابق تین کروڑ بچے سکول نہیں جاتے۔ بلوچستان میں 95 فیصد بچیاں سکولوں سے باہرہیں۔ اعلیٰ تعلیم تو لوگوں کے لیے ایک خواب بن چکی ہے۔ نجی تعلیم سماج کے لیے ایک باشعور اور آزاد انسان پیدا کر ہی نہیں سکتی۔ اسکے خمیر سے صرف کارپوریٹ غلامی پیدا ہو سکتی ہے۔ ایسے میں اس ملک کی طلبہ تحریک کو تعلیم کے اس کاروبار کے خلاف جدوجہد تیز ترکرنا ہو گی اور مفت تعلیم کا حق چھیننا ہو گا۔

فیض کی شاعری سوشلزم کی پکار تھی

فیض فیسٹیول میں ان کی اردو میں سوانح عمری بارے ہونے والے سیشن کے دوران کسی نے ایک بہت اہم سوال پوچھا: فیض کے ذہن میں ان کی شاعری کا ایک خاص سیاسی اور نظریاتی (سوشلسٹ) مقصد تھا مگر ایسا کیوں کہ ان کی شاعری کو اکثر سیاق و سباق سے کاٹ کر دیکھا جاتا ہے؟ بہ الفاظ ِدیگر، فیض نے مزدوروں، کسانوں، ٹریڈ یونین، خواتین اور مذہبی اقلیتوں، کے لئے جو جدوجہد کی اس پر اتنا زور کیوں نہیں دیا جاتا جتنا شائد فیض صاحب نے خود دیا ہوتا؟ یہ سوال فیض فیسٹیول کی میڈیا کوریج کے پس منظر میں پوچھا گیا تھا۔

’اشرافیہ کو 2.66 ٹریلین روپے کی سبسڈی ڈیفالٹ کی اصل وجہ‘

یہ معیشت تین بڑے بحرانات پر کوئی روشنی نہیں ڈال سکی۔ 2007-8ء کے بحران کا تناظرنہیں دے سکی۔ یہ بھی نہیں بتا سکی کہ اس بحران کی گہرائی کتنی ہو گی اور یہ کتنی دیر چلے گا۔ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
دوسری ناکامی یہ تھی کہ موسمیاتی بحران پر کوئی وارننگ ہی نہیں دے سکی۔ وہ تو سائنسدانوں نے ایک رپورٹ لکھی اور انہوں نے بتایا کہ زندگی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ معیشت دانوں نے اس بارے میں بھی کوئی تناظر نہیں دیا۔
تیسری بڑی ناکامی یہ ہے کہ ملکوں کے اندر اور ملکوں کے درمیان لڑائیاں ہو رہی ہیں، تشدد پھیل رہا ہے۔ معیشت دانوں نے اس بارے میں معاشی پالیسی کے ذریعے نہ کوئی تناظر دیا، نہ حل دے رہے ہیں۔ اس لئے دوبارہ اس پر از سرنو سوچا جا رہا ہے، تاکہ مختلف آئیڈیاز لے کر اس کو آگے لے جایا جائے۔ تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔