نقطہ نظر


پرویز ہود بھائی کی بے باک، بے دھڑک تاریخ نویسی

آخر میں یہی کہوں گا کہ یہ کتاب پاکستان میں تاریخ نویسی کے حوالے سے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کتابوں کی کمی نہیں جو نظریاتی تعصب کا شاہکار ہیں۔ ایسی کتابیں بھی موجود ہیں جن میں تحقیقی عرق ریزی تو کی گئی ہے مگر کتاب کا موضوع کسی محدود سے اکیڈیمک مسئلے کا جواب تلاش کرتا ہے جبکہ متنازعہ موضوعات سے اجتناب برتا جا تا ہے۔
پرویز ہودبھائی کی کتاب بے شمار موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ کتاب ویدک دورسے شروع ہو کر موجودہ دہائی کے پاکستان پر روشنی ڈالتی ہے۔ یہ ایک ایسے سائنسدان کی تحریر ہے جس کی سوچ واضح ہے۔ ہر بات ثبوت کے ساتھ کی گئی ہے۔ اگر آپ سوشل سائنسٹسٹ ہیں اور آپ کی کسی تحریر کا حوالہ اس کتاب میں موجود نہیں تو خندہ پیشانی سے کام لیجئے گا کیونکہ پرویز ہودبھائی نے وہی حوالے پیش کئے ہیں جن کا تعلق ان کی دلیل سے بنتا تھا۔

ہالی وڈ بمقابلہ بالی وڈ: ایک مارکسی تجزیہ

امریکی زوال بارے اگر کسی کو کوئی غلط فہمی ہے تو غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت سے یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہئے۔ چین اور روس کا کردار کہیں نظر نہیں آ رہا(ثقافتی شعبے میں بھی چین اور روس کہیں دکھائی نہیں دیتے)۔ سوشلسٹ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو نئی سرد جنگ کا آغاز کوئی اچھی خبر ہے نہ امریکہ کا مسلسل سامراجی کردار۔ احسن انداز میں امریکی سامراج کا زوال نئی سرد جنگ سے نہیں،نئے سوشلسٹ انقلابات کی شکل میں ہی ہو سکے گا۔

جمہوری حقوق کی جدوجہد اور سوشلسٹ نقطہ نظر

سوشل میڈیا پہ اکثر بائیں بازو کے نظریات، حکمتِ عملی اور طریقہ کار پر تنقید سلسلہ لگا رہتا ہے۔اس میں مخالفین سے زیادہ بائیں بازو کے وہ کارکنان ہیں،جو بہت جلدی میں انقلاب کرنے کے خواہش مند تھے۔ انقلاب ہونہ سکا تو اب مایوسی کے عالم میں سوشل میڈیا پر مصنوعی تنقید کے ذریعے اپنا ذہنی تناؤ کم کرنے اور ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ان میں بائیں بازو کے کچھ ایسے کارکنان بھی ہیں جو اپنی حکمتِ عملی اور طریقہ کار کو درست ثابت کرنے کے لیے باقی رجحانات کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ یہ سب فیس بک پوسٹوں کی حد تک ہی ہو رہا ہے، جو کوئی سنجیدہ پلیٹ فارم نہیں ہے۔

سرمایہ دارانہ سماج کا پاگل پن

انسان کیا سوچتا ہے،اس سوچ کا تعین وہ خود نہیں حالات کرتے ہیں۔جو سوچیں انسان کو پریشان کر رہی ہیں،وہ اس کے ذہن کی پیداوار نہیں ہیں،بلکہ ان حالات کی پیداوار ہیں،جن میں وہ زندگی بسر کر رہا ہے۔موجودہ سماج میں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے اکثریتی انسان غیر انسانی ماحول، معاشی مشکلات اور سماجی گھٹن کی وجہ سے مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہیں۔محض محنت کش طبقہ ہی نہیں بلکہ سارے سماج کی ہی کیفیت پاگل خانے جیسی ہے۔جنگی جنون ہو یا نسل پرستی یا مذہبی انتہا پسندی،یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کے پاگل پن کا کھلا اظہار ہے۔فلسطین میں معصوم بچوں کا قتل عام یا سمندر میں ڈوبتے ہوئے انسانوں کی موت کا تماشا دیکھنا پاگل پن نہیں تو اورکیا ہے؟

بھوپال سے بلدیہ ٹاون کراچی تک

اپنی پی ایچ ڈی کی ریسرچ کے سلسلے میں جب میں نے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن آف پاکستان کے سیکرٹری کامریڈ ناصر منصورکا انٹرویو کیا تو میڈیا کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کامریڈ صرف میڈیا کا شکوہ نہیں ہے بلدیہ ٹاون فیکٹری کے مزدور اس ملک کے دانشوروں اور ادیبوں کی بھی توجہ نہیں حاصل کر سکے کسی نے ان پر نظم نہیں لکھی، انہیں افسانے اور ناول کا موضوع نہیں بنایا صرف جواد احمد نے ایک گانا لکھا ۔ ان کا شکوہ بجا ہے پاکستان میں انٹرٹینمنٹ میڈیا نے بھی ایک ڈرامہ یا شارٹ فلم بلدیہ ٹاون فیکٹری کی آگ میں شہید ہونے والے مزدوروں پر نہیں بنائی۔
’’دی ریلوے مین‘‘ میں جب ٹرین میں چوری کرنے والا چور سٹیشن ماسٹر سے کہتا ہے کہ ’’آپ کا ڈیپارٹمنٹ بہادری پر کوئی میڈل نہیں دیتا؟‘‘ تو وہ جواب دیتا ہے کہ وہ صرف اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے ۔

او مائی گاڈ 2: مذہب کی آڑ میں ہندتوا کا پرچار

لگ بھگ دس سال قبل جاری ہونے والی فلم ’او مائی گاڈ‘ کافی پسند کی گئی تھی۔ عام فلموں سے ہٹ کر اِس فلم میں مذہب پر بات کی گئی۔ گو مذہبی عقیدے کی فلسفیانہ بنیاد کو تو جسٹیفائی کیا گیا تھا لیکن مذہب کا بیو پار کرنے والے مذہب کے ٹھیکیداروں تک تنقید محدود رکھی گئی تھی۔ یوں یہ فلم بہت ریڈیکل تو نہ تھی لیکن قا بلِ تعریف ضرور ٹہرائی۔

افغان مہاجرین کا انخلا کمائی کا نیا ذریعہ اور زینو فوبک مہم ہے: صبا گل خٹک

ڈاکٹر صبا گل خٹک کہتی ہیں:افغان پناہ گزینوں کے انخلاء سمیت دیگر مسائل پر عالمی سطح پر آواز اٹھائی جانی چاہیے۔ پاکستان میں جس طرح بے وقار کر کے انخلاء کیا جا رہا ہے، اس پر پاکستان کے اندر بھی آواز اٹھائی جانی چاہیے۔ زینوفوبک نفرت انگیز مہم افغان پناہ گزینوں کے خلاف چلائی جا رہی ہے،جس میں میڈیا بھی پیش پیش ہے۔ اچانک پاکستان کے تمام مسائل کا ذمہ دار افغان پناہ گزینوں کو قرار دیکر ان کے خلاف مہم شروع کر دی گئی ہے۔ یو این ایچ سی آر، عالمی ادارے اور مغربی طاقتیں بھی افغان پناہ گزینوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہی نہیں بلکہ اس ساری صورتحال سے جان بوجھ کر نظریں چرا رہی ہیں۔

جوان: منی ہائسٹ کا چربہ، عوامی مسائل کا جھوٹا حل

بدعنوانی کی ذمہ داری افراد پر ڈال دی گئی ہے۔ فلم کی مارکیٹنگ کرتے ہوئے یہ ریڈیکل ٹچ دینے کی کوشش کی گئی کہ فلم میں کسانوں کی خود کشیاں دکھا کر در اصل بی جے پی پر تنقید کی گئی ہے۔ ایسا کچھ نہیں۔ کسانوں کی خود کشیوں (اور اس کی ذمہ دار نئیو لبرل معیشیت)پر ایک زبردست فلم عامر خان کی پروڈکشن ’پیپلی لائیو‘ تھی۔ ’مترو کی بجلی کا من ڈولا‘بھی رئیل اسٹیٹ، نئیو لبرل معیشیت اور کسانوں کی تباہی پر ایک اچھی فلم تھی (اس فلم کی مزید اچھی بات یہ تھی کہ ہلکی پھلکی کامیڈی کی شکل میں بنائی گئی تھی)۔’جوان‘ اس طرح کی کسی کوشش میں پڑے بغیر،عمران خان اور کیجری وال کی طرح سیدھا سیدھا پیغام دے رہی ہے کہ اگر کچھ لوگ کرپشن نہ کریں تو کرپشن ختم ہو جائے گی۔ یا یہ کہ اگر کچھ ہیرو سامنے آ جائیں تو وہ کرپٹ لوگوں کا خاتمہ کر دیں گے۔

جان جاناں: محبت ریاست سے زیادہ طاقتور

معروف مارکسی نظریہ دان اور فورتھ انٹرنیشنل کے رہنما، ارنسٹ مینڈل، کا ایک مشغلہ تھا جاسوسی ادب پڑھنا۔ ایک بار انہوں نے جاسوسی ادب بارے ایک تفصیلی مضمون لکھا جس میں جاسوسی ادب کا مارکسی جائزہ لیا گیا۔ یہ طویل مضمون ان کی آن لائن آرکائیو میں موجود ہے۔
اپنے مضمون میں انہوں نے ایک دلچسپ نتیجہ یہ اخذ کیا کہ جاسوسی ادب میں ابتدائی طور پر پرائیویٹ طور پر کام کرنے والے جاسوس کیس حل کرتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سرمایہ داری کا ابھار ہو رہا تھا۔ ایک بار جب سرمایہ دارانہ ریاستیں مستحکم طور پر قائم ہو گئیں تو مسٹر ی کیس کو حل کرنے کا کام جاسوسی ادب میں بھی زیادہ تر ریاست یعنی پولیس یا سی آئی ڈی طرح کے اداروں نے سنبھا ل لیا۔

خفیہ: ترقی پسند ہدایتکار کی رجعتی فلم

چارو مدد مانگنے کرشنا مہرہ کے پاس جاتی ہے مگر کرشنا مہرہ اس سے بات نہیں کرتی مگر بعد ازاں خود رابطہ کرنے کے لئے ایک غبارے بیچنے والے بچے سے مدد لیتی ہے جو دلی کی ایک مارکیٹ میں غبارے بیچتے ہوئے چارو کو اشارہ کر کے بتاتا ہے کہ سامنے گاڑی میں را کے اہل کار بیٹھے ہیں۔ دلی میں،انڈیا کے ایک عام شہری سے رابطے کے لئے، را کو یہ سب سیکریسی (secrecy)اور ڈرامے بازی کیوں چاہئے؟ کیا وہ ایک خفیہ کال کر کے کسی شہری کے ساتھ ملاقات طے نہیں کر سکتے؟ اب تو عام پولیس کے پاس بھی یہ سہولت ہے کہ وہ کال کریں تو کال ریسیو کرنے والے کی اسکرین پر کال کرنے والے کا نمبر نمودار نہیں ہوتا۔