نقطہ نظر


جوائے لینڈ: گُھٹے ہوئے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا

پاکستانی فلموں کا پاکستانی ثقافت میں ہمیشہ ایک اہم کردار رہا ہے مگر اس کے باوجود فلمی صنعت معقول حکومتی سرپرستی سے محروم رہی ہے۔ خوش قسمتی سے مختلف تخلیقی افراد مُشکلات کاسامنا کرتے ہوئے فلمی صنعت کو آکسیجن مُہیاکرتے رہتے ہیں۔ ایسے افراد میں ایک صائم صادق ہیں۔ اُنہوں نے سکر پٹ لکھنے اور ہدایتکاری کی تعلیم کولمبیا یونیورسٹی سکول آف دی آرٹس سے حاصل کی۔”جوائے لینڈ“ اُن کی پہلی پوری لمبائی والی فیچرفلم ہے۔ اس سے پہلے اُنہیں متعدد مُختصر فلمیں بنانے کا تجربہ ہے۔

فلم ’اوپن ہائمر‘ امریکی تاریخ کے کن گوشوں پر روشنی ڈالتی ہے؟

فلم کی کہانی اوپن ہائمر کی زندگی پر لکھی کتاب ’امریکن پرومیتھیوس دی ٹرائمف اینڈ ٹریجڈی آف اوپن ہائمر‘نامی کتاب سے اخذ کی گئی ہے۔ پرومیتھیوس یونانی دیومالا کا ایک کردار ہے، جو سب سے بڑے دیوتا ’زیوس‘کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آگ انسانوں کو دے آتا ہے۔ سزا کے طور پر اسے پہاڑ پر زنجیروں سے باندھ دیا جاتا ہے، جہاں روز صبح ایک عقاب آ کر اس کے جگر کو نوچتا ہے اور رات میں یہ جگر دوبارہ سالم ہوجاتا ہے۔ تین گھنٹے کی فلم کے تقریباً ڈھائی گھنٹے ایٹمی بم بنانے کی ناگزیریت کا بیانیہ تشکیل پاتا ہے۔ صرف آخری آدھ گھنٹے میں ہیرو اپنی تہذیب کش تخلیق پر تھوڑی ندامت کا اظہار کرتا ہے۔ فلم میں ایٹمی بم سے متاثرہ انسان، حیات اور ماحول کی کوئی منظر کشی نہیں کی گئی۔

’زندگی تماشہ‘: ایک دلیرانہ کوشش

سرمد کھُوسٹ کوئی متنازعہ فلم بنانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی فلم میں کُچھ متنازعہ ہے، مگر شاید پاکستان میں انتہائی دائیں بازو کے بنیاد پرستوں کی تنقید کا نشانہ بننے کے لئے متنازعہ ہونا ضروری نہیں۔

موت کی کتاب

مسعود قمر کی کتاب ’آئینے میں جنم لیتا آدمی‘ ماضی کے شاعروں، ناول نگاروں، فلسفیوں اور فنکاروں (جیسا کہ دوستوفسکی، فرانز مارک، کافکا، محمود درویش وغیرہ) کی تخلیقی سوچ کی مظہر اور اس کا مواد تاریخی حقائق پر مبنی ہے، جیسے ان کی نظم ’عمل زمین پر تھا قہقہے آسمان پر‘ میں ضیا دور کے خاتمے کا جشن ہے، جس دور میں شاعر کو آزادی اظہار رائے کی تحریک میں سرگرم ہونے کی وجہ سے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ بعد میں انہوں نے سویڈن میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی، تاہم اس سب کے باجود یہ کتاب اپنے خواص میں عین موت کی کتاب ہے۔

کارل مارکس بطور ایک صحافی

تاہم مارکس کا اپنے نیویارک ٹربیون کے کالم کیلئے بنیادی نقطہ نظر یہ تھا کہ وہ واقعات کو سیاست اور معاشیات کے کچھ بنیادی سوالات کی بنیاد پر کھنگالتے اور پر ان سوالوں پر اپنا فیصلہ سناتے تھے۔ وہ ایسے واقعات کو زیر بحث لاتے جو خبروں میں ہوتے تھے، جیسے کوئی الیکشن، بغاوت، دوسری افیون جنگ، امریکی خانہ جنگی کا آغاز وغیرہ۔ اس لحاظ سے مارکس کی صحافت کچھ ایسے تحریروں سے مشابہت رکھتی ہے، جو آج کل رائے عامہ کے جرائد میں شائع ہوتی ہیں۔ مارکس کی صحافتی تحریر اور عوامی امور پر کی جانیوالے سیاسی صحافت، جو بیسیوں صدی میں یورپ میں عام تھی، کے درمیان براۂ راست لکیر کھنچنا مشکل نہیں ہے۔

غربت اور عورتوں کی حالت زار آج کے اہم مسائل ہیں: فرزانہ راجہ

ے نظیرانکم سپورٹ پروگرام(BISP) کی سابق چئیرفرزانہ ر ا جہ نے کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی غربت اور عورتوں کی حالت زار آج ملک کے اہم مسائل ہیں۔ان کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان میں غربت کے خاتمے اور عورتوں کی فلاح کے پروگرام BISPکوسماجی کاوشوں کا ایک شفاف پروگرام قرار دیتے ہیں کیوں کہ اس کامیاب پروگرام کے فوائد اب عام لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔

ڈائریکٹر ایچ ای سی صاحبہ: پابندی لگانی ہے تو یونیورسٹی فیسوں پر لگاؤ

ویسے مولوی حضرات کے مطابق’ہماری روایت‘ تو یہ بھی ہے کہ خواتین کو گھر سے نہیں نکلنا چاہئے۔ معلوم نہیں جب طالبان نے افغانستان پر دوبارہ قبضہ کیا تو آپ خوش ہوئی تھیں یا نہیں۔ بہرحال ’ہماری روایات‘کے نام پر طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی ہے۔ میں نے لنکڈ اِن پر آپ کا سی وِی(CV) دیکھا۔ سی وِی پر بات کرنے سے پہلے آپ کی توجہ آپ کے لنکڈ اِن والے سی وی پر مبذول کراتا چلوں: جہاں آپ نے اپنے کیتھڈرل سکول کا ذکر کیا ہے، وہاں لاہور کے سپیلنگ غلط ہیں۔

’مارکس سے خائف لوگ‘

’مارکس سے خائف لوگ‘ ایک انتہائی دلچسپ کتاب ہے، جو پاکستانی سماج، اسکی سیاست، ریاست، پاپولر کلچر اور صحافت کا مارکسی نقطہ نظر سے تجزیہ کرتی ہے۔ مختلف تبصروں کے اس مجموعے کے مصنف عامر رضا کا کمال یہ ہے کہ وہ دقیق تھیوریٹکل سوالوں پر بحث کوانتہائی آسان اور عام فہم زبان میں پیش کرتے ہیں، یا یوں کہیں کہ یہ کتاب مصنف کی گہری سماجی نظراور داستان گوئی کی باکمال صلاحیتوں کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔ جس میں حکمران طبقات کی طرف سے تخلیق کردہ بیانیوں کو ڈی کنسٹرکٹ کرتے ہوئے مذہب، نظریے اورسیاست کو پرکھنے کا ایک متبادل نقطہ نظرپیش کیا گیا ہے۔