نقطہ نظر


بھولپن کا تجارتی قتل

ملک میں ثقافتی پیمانے اور ذوق اس قدر گر چکا ہے کہ لذت اور حظ کے پیمانے سوشل میڈیا پر ہونے والی حماقتیں بن چکی ہیں۔ لوگوں کا مذاق اس حد تک گر چکا کہ انہیں ایسی انٹرٹینمنٹ چاہئے جس پر دماغ نہ کھپانا پڑے یا جسے سمجھنے، لطف اٹھانے اور حظ اٹھانے کے لئے کسی تہذیبی تربیت کی ضرورت نہ ہو۔

بورژوا میڈیا ورکرز کو ٹیک اوور کرنا چاہئے: ٹوبی ملر

ضروری ہے کہ نفرت انگیز مواد، جھوٹ، سائنس کے بارے میں جھوٹ اور پبلک ہیلتھ بارے جھوٹ جیسی باتوں پر پابندی کا قانون بنایا جائے۔ انسان کو اپنی رائے دینے کا حق ہونا چاہئے مگر حقائق اور رائے میں فرق ہوتا ہے۔ کرونا کی مثال لیجئے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ کرونا بل گیٹس، نرسوں اور ڈاکٹروں، یہودیوں یا فائیو جی والی کمپنیوں کی سازش ہے۔ یہ وہ سفید جھوٹ ہیں جن کو ہر بار روکنا ہو گا۔

ہالی وڈ ہو یا ٹیلی کمیونیکیشن کی صنعت، یہ ڈرٹی انڈسٹریز ہیں: ٹوبی ملر

اسی طرح یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جب ان الیکٹرونک پراڈکٹس کی عمر ختم ہو جاتی ہے تو ری سائیکلنگ کے لئے انہیں انڈیا، پاکستان، برازیل، میکسیکو یا ملائشیا بھیج دیا جاتا ہے جہاں یہ ماحولیات کے لئے ایک مسئلہ ہیں اور جہاں کم عمر بچیاں اس شعبے میں کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

پاکستان اور بھارت کا تعلیم کی آڑ میں فساد کا کھیل

جی ہاں… سمجھ لیجئے…نئی بھارتی تعلیمی پالیسی صرف ہندی، ہندو اور ہندوستان کے نعرے پر مشتمل ہے۔ بھارت قوم پرستی کو فروغ دے رہا ہے اور اس مشن کے لئے ہندو ثقافت کا سہارا لیا جارہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوتعلیمی پالیسی کا پاکستانی یکساں نصاب تعلیم سے کیا تعلق ہے؟

آئین پاکستان ابہام اور تضاد کا ایک نادر مجموعہ ہے: توصیف کمال

توصیف کمال پاکستانی نژاد امریکی ماہرقانون ہیں جنہوں نے اپنی نئی کتابPakistan: A Possible Future میں ملک کے مسائل اور ان کے ممکنہ حل اور آئینی پہلوؤں پرتفصیلی بحث کی ہے۔مصنف یمن کی نیشنل آئل اینڈ گیس کمپنی کے علاوہ کئی بین الاقوامی کمپینوں میں ماہر قانون رہ چکے ہیں اور ان امور پر لکھتے رہتے ہیں۔

بابو جی اس لئے سوشلسٹ نہیں کہ کامریڈز لکھتے بہت مشکل ہیں؟

میرے ایک دوست جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں، سیاسی لحاظ سے نواز شریف کے حامی (دور طالب علمی میں جمعیت کے رفیق تھے) اور امریکہ میں رہتے ہیں۔۔۔چند دن پہلے فون پر بات کرتے ہوئے شکایت کرنے لگے کہ’جدوجہد‘ میں آپ بہت مشکل باتیں لکھتے ہیں۔

اسرائیلی منصوبہ حقیقت سے انکار اور رعونت پر مبنی ہے: صائب اراکات

”فلسطینی ہونے کی حیثیت سے ہم یہودیت کے خلاف نہیں ہیں۔ ہم اسرائیل سے اس لئے برسرِپیکار نہیں ہیں کہ یہودیوں کی مقدس کتاب میں کیا لکھاہے، ہمارا اسرائیل سے اختلاف سیاسی ہے۔ اسرائیلی اقدامات سراسر مذہبی ہم آہنگی کے خلاف ہیں جب کہ تمام مذاہب جیو اور جینے دو کے اصول پر امن کے خواہاں ہیں۔ فلسطینی ہرگز یہودیوں یا عیسائی باشندوں کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ اسرائیل کی فلسطین دشمن سیاست کے خلاف ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ امن معاہد ہ فلسطینیوں کے حق میں ہے اور وہ اس کی حمائت کریں گے۔ “