نقطہ نظر


ہیرا منڈی بطور سافٹ ہندتوا: پاکستان دہشت گرد سے بازار حسن تک

آٹھ قسطوں پر مبنی،سنجے لیلا بھنسالی کی نیٹ فلکس سیریز’ہیرا منڈی‘ کا ذکر سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر تو سنائی دیا ہی، راقم کے تجربے میں حالیہ دنوں میں شائد ہی کوئی ایسی محفل تھی جہاں اس سیریز کا ذکر نہ ہوا ہو۔بی بی سی اردو کے کالم نگار وسعت اللہ خان عام طور پر فلموں بارے نہیں لکھتے۔انہوں نے بھی ’ہیرا منڈی‘ پر کالم لکھ ڈالا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس حد تک تو یہ سیریز پاکستان میں کامیاب رہی کہ اسے دیکھا گیا،اس پر بات ہوئی۔

پاکستان کے چار چیلنج: معیشت، ماحولیات، فکری بنجر پن اور خارجہ پالیسی

اس پس منظر میں یہ امر قابل توجہ ہے کہ ملکی برآمدات کم سے کم ہو رہی ہیں۔ تارکین وطن جو رقوم بھیجتے تھے،ان میں کمی آ رہی ہے۔عام طور پر ان رقوم سے زر مبادلہ کی نازک صورتحال تھوڑی بہتر ہو جاتی تھی۔ان مسائل کے مرغوبے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان میں فیصلہ سازی کرنے والوں کے ہاتھ پاوں پھولے ہوئے ہیں جو بگڑی ہوئی معاشی صورت حال سے نپٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاسی پولرائزیشن نے پاکستان کی معاشی صورت حال کو مزید گڑ بڑا دیا ہے جس سے بے چینی مزید بڑھ گئی ہے۔سیاسی بیانئے میں موجود تقسیم سے بے یقینی پر مبنی ماحول میں مزید تیزی آئی ہے جس کے نتیجے میں معاشی بحالی کے لئے اقدامات لینا اور مشکل ہو گیاہے لہذا بیرونی امدا د کا سہارا لیا جاتا ہے جس کی اہم ترین شکل آئی ایم ایف پیکج ہیں۔ یہ کڑوی گولی بار بار نگلنی پڑ رہی ہے۔

ایک بھاری قیمت، جو ادا کرنی ہے

دنیا کا ہر ملک صحت کی دیکھ بھال کے حوالے سے اپنے اپنے چیلنجوں سے نبردآزما ہے لیکن ایک بات واضح ہے: صحت کی دیکھ بھال کو منافع کمانے والے ادارے کے طور پر فروخت کرنا ایک تباہی ہے،جیسا کہ امریکہ اس بات کا ثبوت ہے، جو مسلسل صحت کی دیکھ بھال پر فی کس زیادہ خرچ کرتا ہے اور بہت سے دیگر ملکوں کے مقابلے میں زندگی کی توقع، بچوں کی اموات وغیرہ کی صورت میں اس کے صحت کی دیکھ بھال کے بدتر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

سندھ نامہ (آخری حصہ): سندھ نے عمران خان کو ووٹ کیوں نہیں دیا؟

ان سارے شہروں اور علاقوں میں گھومتے ہوئے یا چھوٹے چھوٹے قصبوں سے گزرتے ہوئے جا بجا اگر کسی سیاسی جماعت کا پراپیگنڈہ نظر آیا تو وہ پیپلز پارٹی تھی۔ اس کی ایک وجہ شائد یہ تھی کہ انتخابی مہم کے دوران لگائے گئے پوسٹر اور بینر ابھی اترے نہیں۔ نوے کی دہائی میں قوم پرست جماعتوں کے پرچم اور وال چاکنگ زیادہ نمایاں ہوتی تھی۔ قوم پرست اب کی بار لگ بھگ غائب تھے۔ شائد ہی کہیں کسی قوم پرست جماعت کا جھنڈا یا وال چاکنگ دکھائی دی۔

چمکیلا کو گولی اور مستانہ کو تھپڑ نے مارا

چمکیلا غیرریاستی عناصر کی گولی سے اور مستانہ ریاستی عناصر کے تھپڑ سے مارا گیا ۔چمکیلا کو امتیاز علی مل گیا لیکن مستانہ کو شاید کسی امتیاز علی کا انتظار ہے ۔اوربارڈر کے دونوں طرف ورکنگ کلاس کو ایک ایسے نظام کا انتظار ہے جو انہیں زندگی میں ایسے مواقعے مہیا کرے کہ وہ اپنا بہتر کلچر تشکیل دے سکیں۔

’اگر پوری دنیا کی عورتیں فیصلہ کر لیں کہ وہ بچے پیدا نہیں کریں گی‘

پوری دنیا کو ایک طرف رکھ کر اگر صرف یہ فرض کر لیا جائے کہ صرف پاکستان کی عورتیں فیصلہ کر لیں کہ وہ بچے پیدا نہیں کریں گی تو کیا ہوگا؟ پاکستان جیسے ملک میں اکثریتی آبادی کے لیے اولاد سوشل سیکورٹی ہوتی ہے،جو بڑھاپے میں ماں باپ کا سہارہ بنتی ہے۔ یوں اگر ایسا فیصلہ ہو گیا تو سوشل سکیورٹی اور ماں باپ کا آخرت کا سہارانہیں رہے گا۔ ریاست تو ایسی کوئی ذمہ داری نہیں لے رہی کہ بڑھاپے میں آپکا خیال رکھے۔ یوں جب تک تو خاوند (کیونکہ پاکستان میں معاشی ضروریات پوری کرنا عموما خاوند کی زمہ داری ہے) کام کرے گا، تب تک دونوں شاید گزارہ کر لیں اور جب وہ کام کے قابل نہ رہا تو دونوں رُل جائیں گے۔اس طرح کی سطحی گفتگو میں سوشل میڈیا پر مقابلہ بازی تو کی جا سکتی ہے۔ تاہم اگر مقابلے میں مرد بھی ایسا فیصلہ کر لے تو نتیجہ تقریباً ویسا ہی نکلے گا جو عورت کے فیصلے سے نکلے گا۔ اس طرح کی سطحی، سماجی، معاشی اور سیاسی حالات سے کٹی ہوئی بحث کے اسی طرح کے نتیجے ہی نکل سکتے ہیں۔

جہالت کی نفسیات

جہالت کی نفسیات جانور والی ہوتی ہیں۔ جانور کا زمان و مکان اسی حد تک محدود (یا وسیع) ہوتا ہے جس حد تک اس کی نظر جاتی ہے۔ اس کے برعکس،انسان اپنے سماجی تعلقات کی بنیاد پر۔۔۔جس میں زبان بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔۔۔انسان اپنے وقت (حاضر) کے علاوہ دیگر وقتوں (ماضی و حال) بارے بھی جانتا یا سوچتا ہے۔

پنجابی مسافروں کا قتل: مہرنگ بلوچ کا ایک الباکستانی کے نام خط

چند روز قبل چند پنجابی مسافروں کو بس سے اتار کر گولی مار دی گئی۔ اس واقعہ کے بعد ایک مرتبہ پھر آپ اپنے لاکھوں ہم خیال بہن بھائیوں کی طرح مجھ سے مطالبہ کر نے لگے کہ میں اس واقعہ کی مذمت کروں۔
میں جن دنوں اسلام آباد میں پریس کلب کے باہر سردی میں دھرنا دئیے بیٹھی تھی، تب بھی غریدہ فاروقی جیسے لوگوں کو میرے پاس بھیجا گیا جو آ کر مطالبہ کر رہے تھے کہ میں بلوچ سرمچاروں کی مذمت کروں۔
اُن دنوں عالمی میڈیا میں غزہ کا موضوع سرخیوں میں تھا۔ بد قسمتی سے اب تک ہے۔مجھے یاد ہے جوں ہی کسی فلسطینی کو بی بی سی یا سی این این سمیت کسی مغربی نیوز چینل میں بات کے لئے مدعو کیا جاتا تو پہلا سوال ہوتا کہ کیا آپ 7 اکتوبر کے روز اسرائیل پر حماس کے حملے کی مذمت کرتے ہیں۔

’’مٹو کی سائیکل‘‘ ترقی کے ایکسپریس وے پر 

پاکستان میں چند ایک بڑے شہروں کو چھوڑ کر مزدور وں اور ورکنگ کلاس کے لیے کوئی ماس ٹرانسپورٹ کا منصوبہ نہیں بنایا گیا ۔دیہات سے شہروں میں مزدور ی کے لیے آنے والا مزدور پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز کے رحم وکرم پر ہے ۔شہروں میں اشرافیہ نے علیحدگی کی الگ سے تحریک شروع کر رکھی ہے جس کے تحت وہ اپنے پوش علاقے غریبوں کے علاقوں سے الگ کئے جا رہے ہیں جہاں  تک پہنچنے کے لیے سرکار انہیں انہی غریبوں کے ٹیکس سے بڑی بڑی ایکسپریس ویز بنا کر دی رہی ہے جن پر نان موٹررائیڈ سواریاں آ نہیں سکتیں ۔یہ بڑی بڑی سڑکیں اگرچہ ملک کی ترقی کے نام پر بنائی جا رہی ہیں لیکن ان کا بڑا مقصد اشرافیہ کو بہتر نقل و حمل مہیا کرنا اور پسے ہوئے طبقے کو مرکزی معاشی دھارے کے ہا شیے میں دھکیلنا ہے ۔ مسٸلہ تو یہ ہے کہ اگر مٹو نئی سائیکل لے بھی لے تو پھر بھی  وہ دیش کے وکاس کے نام پر بنی ہوئی ایکسپریس وے پر اسے چلا نہیں پائے گا ۔

بی جے پی کے 180 ملین اراکین، 800 این جی اوز اور 36 ونگ ہیں

انتہائی دائیں بازو کا عروج ایک عالمی رجحان ہے۔ شاید دنیا کے دوسرے سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت سے زیادہ کہیں اوردایاں بازو اتنامضبوط نہیں ہے۔ وہاں بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں 2014 سے اقتدار پر قابض ہے۔
تاہم بی جے پی محض ایک پارٹی نہیں ہے۔ بی جے پی اور ان کی کیڈر آرگنائزیشن ہندو قوم پرست نیم فوجی رضاکار وں پر مشتمل راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا نظریہ ایک عسکری، جوہری ہتھیاروں سے لیس بھارتی عظمت کا راستہ ہے۔ یہ ایک ایسا ویژن بھی ہے جس میں مسلمانوں کی کوئی تاریخ نہیں ہے اور اس لیے انہیں حال میں بھی یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔