نقطہ نظر


ترکی: ’اردگان کی مقبولیت برقرار ہے مگر بائیں بازو کو بھی زبردست کامیابی ملی ہے‘

اردگان ترک معاشرے میں شدید پولرائزیشن کا فائدہ اٹھا کر اپنی طاقت کی بنیاد بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طرف ثقافتی اور مذہبی پولرائزیشن ہے اور دوسری طرف سماجی، طبقاتی پولرائزیشن ہے۔ جمہوریہ کی بنیاد کے بعد (کمال اتاترک، 1923) جس کا ایک مضبوط سیکولر پہلو تھا، مذہبی لوگوں کو طویل عرصے تک اقتدار کے عہدوں سے باہر رکھا گیا۔ اگرچہ قدامت پسند مذہبی سیاسی دھارے بچ گئے، لیکن معاشرے میں غالب نظریہ سیکولر اور شہری تھا اور اس نے ان قوتوں کو خارج کر دیا۔ قصبوں سے باہر دیہی معاشرے میں اور غریب پرتوں میں کہانی الگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی انتخابات ہوتے تھے کسانوں اور دیہی علاقوں میں قدامت پسند، مذہبی جماعتوں کی بنیاد ہوتی تھی۔ آپ کے شہروں میں دانشور، محنت کش، شہری پیٹی بورژوا اور بورژوا طبقے تھے۔

صہیونیوں کو سعودی منافقت کا علم ہے: جلبیر اشقر

یکجہتی کی تحریک کے اندر ایک ریاست یا دو ریاستوں پر بحث اکثر میرے خیال میں نامناسب ہوتی ہے، کیونکہ یہ فیصلہ پیرس، لندن یا نیویارک میں نہیں ہونا چاہیے کہ فلسطینیوں کے لیے کیا ضروری ہے۔ یکجہتی تحریک کو فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کے لیے اپنے تمام اجزاء میں جدوجہد کرنی چاہیے۔ یہ فلسطینیوں پر منحصر ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اس وقت 1967 میں مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی انخلاء، مغربی کنارے میں بستیوں کو ختم کرنے، علیحدگی کی دیوار کی تباہی، پناہ گزینوں کی واپسی کے حق اور اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کیلئے حقیقی معنوں میں مساوات کے مطالبات پر فلسطینیوں کا اتفاق رائے ہے۔ یہ تمام جمہوری مطالبات ہیں، جو ہر کسی کے لیے قابل فہم ہیں، اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کی مہم کا مرکز ہونے چاہئیں۔

غزہ: 1 فیصد آبادی ہلاک: فرانس میں یہ 680,000 اموات کے مساوی ہو گا

قابض افواج کی فوجی رپورٹس کی روشنی میں چیزیں نسبتاً واضح ہیں۔ شمال کے لیے انتہائی شدید بمباری کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور جنوبی حصے میں مکمل کیا جا رہا ہے۔ شمالی نصف اور مرکز میں، قابض افواج اگلے مرحلے کی طرف بڑھ گئی ہیں، جو کہ ایک نام نہاد کم شدت والی جنگ ہے۔ درحقیقت وہ سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے اور حماس اور دیگر تنظیموں کے جنگجوؤں کو تلاش کرنے کے لیے ان علاقوں پر مبنی ایک مکمل گرڈ(grid) ترتیب دے رہے ہیں۔ فلسطینی جنگجو ہر وقت گھات میں رہتے ہیں اور جب تک سرنگیں موجود ہیں یہ کسی بھی وقت ابھر سکتے ہیں۔

8 جلدوں پر مبنی بلوچ تاریخ کا انگریزی ترجمہ و تلخیص: ہسٹری آف بلوچ اینڈ بلوچستان

بلوچوں اور ان کی تاریخ سے متعلق،بالخصوص نوآبادیاتی دور میں،مقامی اور غیر ملکی مصنفین کی لکھی گئی کتابوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ بلوچ تاریخ خطے کی ہر دوسری قوم کی طرح وسیع اور قدیم ہے۔ قلات کے نام سے بلوچستان کی اپنی ایک ریاست تھی،جس پر انگریزوں نے 1839ء میں حملہ کیا تھا۔ تب سے قلات،جو کہ موجودہ بلوچستان کے پورے علاقے پر محیط تھا، انگریزوں کے زیر تسلط آگیا۔ یقینایہ سب 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت بدل گیا تھا لیکن آج بلوچستان کا اصل خطہ مکمل طور پر پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔ یہ تین ممالک یعنی پاکستان، ایران اور افغانستان میں پھیلا ہوا ہے۔

’سیروگیسی‘ممتا کا استحصال

سیروگیسی دراصل بچے کی پیدائش کا ایسا عمل ہے، جس میں ایک عورت کسی دوسرے جوڑے کے ایمبریو کو اپنے رحم میں رکھتی ہے،اس کی نشونما کرتی ہے اور اس بچے کو دنیا میں لانے کا سبب بنتی ہے۔زیادہ تر معاملات ایسے ہوتے ہیں جن میں جو والدین کسی بائیولوجیکل نقص کے سبب بچہ پیدا نہیں کر سکتے وہ کسی دوسری عورت کے بطن سے بچہ پیدا کرواتے ہیں۔ جو والدین کسی حیاتیاتی نقص کی وجہ سے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں،ان کے لیے IVF جیسی ٹیکنالوجی متعارف کروائی گئی ہے۔ایسے والدین اپنے ایمبریو یا جینین کو سیروگیٹ یا متبادل ماں کے بطن میں رکھواتے ہیں۔ یہ متبادل ماں بچے کو جنم دیتی ہے،اور بچے کو اس کے بائیولوجیکل ماں باپ کے حوالے کر دیتی ہے۔

اجتماعی مسائل کے انفرادی حل نہیں ہوتے: لاٹری کے ذریعے غربت ختم نہیں کی جا سکتی

چند روز قبل، پروفیسر حضرات کی ایک محفل میں بیٹھا تھا۔ ایک صاحب نے محفل کے دس منٹ یہ کہانی سنانے میں ضائع کئے (جو ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں)کہ کوئی صاحب دنیا کو سنوارنے نکلے، دنیا نہیں سنوری، انہوں نے سوچا،دنیا کو چھوڑو،اپنا ملک سنوارتا ہوں۔ پورا ملک گھوما، ملک نہیں سدھرا۔ بات شہر اور گاوں سے ہوتی ہوئی یہاں پہنچی کہ مذکورہ صاحب نے دنیا کو سنوارنے کی بجائے خود کو سنوارنے کا فیصلہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر ہم خود ٹھیک ہو جائیں تو دنیا ٹھیک ہو جائے گی۔

’آزاد فلسطین‘ پوری دنیا کے لوگوں کا نعرہ بن چکا ہے: لیلیٰ خالد

میں کہوں گی کہ ہم ان تمام لوگوں کے مشکور ہیں،جنہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اور جو کچھ فلسطین میں ہو رہا ہے اس کے حوالے سے اس رویے کا اظہار کیا ہے۔ دنیا کے لوگ اب اس جدوجہد کے بنیادی مسائل کو سمجھتے ہیں،کہ اس جنگ میں اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے، اور ہم فلسطینی یہ نہیں بھولیں گے۔
میں نے ٹی وی پر اور کامریڈوں کی بھیجی گئی ویڈیوز میں دیکھا ہے کہ میلبورن اور سڈنی میں زبردست مظاہرے ہوئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو اس کی وجوہات کا احساس ہونے لگا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔
وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج فائر بندی کرے اور غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے سے انخلاء کرے۔
یہ وہی ہے جو میں دنیا کے لوگوں، خاص طور پر نئی نسل سے کہہ رہی ہوں: انصاف کیلئے لڑتے رہیں۔
فلسطین کاز ایک انسانی کاز ہے۔ اب ہم صرف غزہ کی پٹی کا نہیں بلکہ انسانیت کا دفاع کر رہے ہیں۔
ہم سامراجیوں بالخصوص امریکی سامراج کے خلاف خطے میں ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ وہی جنگیں شروع کرتے ہیں اور وہ ہر طرح سے اور نئے ہتھیاروں سے اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں،لیکن وہ فلسطینی بچوں کیلئے کچھ نہیں دے رہے ہیں۔

تحریک انصاف کو 10 سالہ کارکردگی پر نہیں بلکہ دیگر وجوہات پر ووٹ ملا: ڈاکٹر نورین نصیر

”تحریک انصاف کو 10سال کے دوران خیبرپختونخوا میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ نہیں ملا۔ بی آر ٹی کے علاوہ ان کی کوئی کارکردگی ووٹ ملنے والی نہیں تھی۔ پبلک یونیورسٹیاں پرائیویٹ یونیورسٹیوں سے بھی مہنگی ہو گئی ہیں اور بحران کا شکار ہیں۔ تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں انہوں نے کوئی کام نہیں کیا۔ ماحولیات کا تو بیڑا ہی غرق کیا گیا۔ انہیں ہمدردی کا ووٹ ملا، پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے کی گئی مہنگائی، نوجوانوں کو متاثر کرنے والے بظاہر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اور غلامی سے آزادی کے نعرے کی وجہ سے نوجوانوں اور خواتین کا ووٹ ملا۔ پورے پاکستان میں متبادل سیاست کیلئے ایک بہت بڑا خلاء ہے۔ نوجوان اکثریت میں ہیں انہیں قائل کرنے والے قومی سطح کے متبادل کی ضرورت ہے۔“

خیبرپختونخوا: مخلوط لیکن ہائبرڈ حکومت کے امکانات زیادہ ہیں: عرفان اشرف

”اس وقت خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جنگی صورتحال ہے۔ لوگ اتنے مایوس ہیں کہ انہیں کوئی استعارہ چاہیے، جو ریاست کے خلاف ان کے غم و غصے کا مرکز و محور بن سکے۔ ریاست نے عمران خان کو وہ استعارہ بنا دیا ہے۔ اس لئے لوگ اگر ووٹ دینے جاتے بھی ہیں تو عمران خان فیکٹر کی وجہ سے ووٹ دینے جائیں گے۔ جس طرح سٹیٹس کو قوتیں ریاست کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہی ہیں، ووٹر ان کے خلاف نظر آرہا ہے۔ بہر حال اگلا سیٹ اپ مخلوط قسم کا ہو گا۔ ایک کور کمانڈر ہی صوبہ چلائے گا۔ افغانستان کے حوالے سے پالیسیوں پر فوج اپنا اثرورسوخ جمائے رکھے گی۔“

’لوگوں کو زیادہ امیدیں تھیں، گندم کی قیمتیں کم ہونے سے تحریک ماند پڑ گئی‘

’’عوام کو گلگت بلتستان کی تحریک سے بہت زیادہ امیدیں تھیں، لیکن تحریک بتدریج کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ گلگت میں دھرنا تو جاری ہے لیکن اب اس میں تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ گندم کی قیمتوں میں کمی کے نوٹیفکیشن سمیت دیگر اقدامات کی وجہ سے حکومت دھرنے کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ کچھ لوگ مذاکرات کر کے تحریک ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ دھرنے میں شریک لوگ 15رکنی چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کر چکے ہیں۔“