آرمی چیف کی تعیناتی کے وقت بھی محدود پیمانے پر مخصوص مذہبی مہم چلائی گئی تھی اور پاکستان میں سب سے طاقتور سمجھی جانیوالی شخصیت کو بھی میلاد اور نعت خوانی اپنے گھر میں منعقد کروانے کی خبریں میڈیا پرچلوانا پڑیں۔

آرمی چیف کی تعیناتی کے وقت بھی محدود پیمانے پر مخصوص مذہبی مہم چلائی گئی تھی اور پاکستان میں سب سے طاقتور سمجھی جانیوالی شخصیت کو بھی میلاد اور نعت خوانی اپنے گھر میں منعقد کروانے کی خبریں میڈیا پرچلوانا پڑیں۔
پاکستان کے حکمران طبقات ویکسین کو منافع کمانے کی ایک جنس سے زیادہ اہمیت دینے سے گریزاں ہیں۔ ویکسین دنیا بھر میں ہر انسان کی بنیادی ضرورت اور حق ہے۔ اس وقت تک دنیا میں موجود دولت کا تمام تر ارتکاز، تمام تر ترقی اور ایجادات انسانیت کا مشترکہ ورثا ہیں۔ ویکسین کی ہر سطح پر مفت فراہمی یقینی بنانے کیلئے ہنگامی اقدامات کرتے ہوئے نسل انسانی کو اس موذی وبا کے خلاف مدافعت کی صلاحیت پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
آج ہندوستان اور پاکستان کو ایک خونی سامراجی لکیر ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔ لیکن دونوں طرف محنت کشوں اور نوجوانوں کے مسائل مشترک ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اُن مسائل کا حل بھی مشترک ہے۔ یہ حل یقینا بھگت سنگھ کے سوشلسٹ انقلاب کے خواب پر ہی مبنی ہو سکتا ہے جس سے آج بھی دنیا بھر کے حکمران خوفزدہ ہیں۔
”حکومت نے محنت کشوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے۔ 50 لاکھ گھروں کے دعویداروں نے غریب مزدوروں کے اربوں روپے کے چندے سے تعمیر ہونیوالی سکیموں پر ڈاکہ مار کر اسے نیا پاکستان ہاﺅسنگ سکیم قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں پہلے سے امید تھی کہ یہ حکمران 50 لاکھ تو دور چند مکانات بھی نہیں تعمیر کر کے دے سکتے، الٹا یہ محنت کشوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالیں گے اور یہی سب وہ کر رہے ہیں۔ ذلفی بخاری جیسے چند پیداگیر افراد نے مزدوروں کے خون پسینے سے جمع شدہ رقم لوٹنے کےلئے یہ منصوبہ بنایا ہے۔ محنت کشوں کے مکانات اور فلیٹس بھی اپنے من پسند افراد کو الاٹ کر دیئے ہیں اور میڈیا پر نیا پاکستان ہاﺅسنگ پراجیکٹ کی تشہیر بھی کر دی ہے۔ لیکن اس منصوبہ میں حکمرانوں کو کامیاب نہیں ہونے دینگے، یہ فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو تمام یونینوں اور محنت کشوں کو مجتمع کرتے ہوئے اس ڈاکہ زنی پر احتجاج کیا جائے گا اور متاثرہ محنت کشوں کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑا جائیگا۔“
سعودی حکومت کے اس اقدام کو نسلی تعصب اور نفرت پر مبنی پالیسی قرار دیا جارہا ہے۔
اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن مالی بحران کو جواز بنا کر جامعات کو پرائیویٹائز کرنے کی سازش کا الزام بھی عائد کر چکے ہیں۔
اپنے ملک کے مجبور لوگوں کی بات کرنا غداری نہیں۔اسی طرح دفاعی بجٹ پر سوال اٹھانا کوئی غداری نہیں۔
اپنے خیالات اور نظریات کی وجہ سے انہیں متعدد قانونی چیلجز کا سامنا کرنا پڑا، ریاستی جبر کے علاوہ انتہاء پسندوں کی جانب سے متعدد الزامات اور دھمکیوں کا سامنا بھی کیا۔
لینن نے کہا کہ گرائمر کی غلطی بڑا مسئلہ نہیں ہے بڑا مسئلہ سیاسی طور پہ غلط ہونا ہے ۔
اس پس منظر میں لوگ یہ بھی سوال کررہے ہیں کہ یہ تینوں طاقتیں جتنا سرمایہ ایک نیا جنگی محاز کھولنے میں لگارہی ہیں کیا اسے ماحولیاتی تبدیلوں سے نبردآزما ہونے اور عالمی پیمانے پر انسانی بھوک وافلاس جیسے مسائل حل کرنے کے لئے استعمال نہیں کیاجاسکتا؟