نقطہ نظر


ہان کانگ کی تحریروں کا موضوع: درد، کرب اور اندرونی اضطراب

2024ء میں ادب میں نوبل انعام کی جنوبی کوریائی لکھاری ہان کانگ حق دار قرار پائی ہیں،جو اپنے خوابناک اور باغی ناول ’دی ویجیٹیرین‘کے لیے جانی جاتی ہیں۔ اس ناول کی بناء پر ان کے قلم کی مہک بین الاقوامی سطح تک پھیل چکی ہے۔ یہ اپنے ملک کی پہلی مصنفہ ہیں جنہوں نے ادب میں نوبل انعام حاصل کیا ہے۔ ہان کے قلم میں عجیب سحر ہے اور یہ شاعرانہ نثری طرز میں انسانی زندگی کی نزاکت اور حساسیت کو بے نقاب کرنے کا ملکہ رکھتی ہیں۔ ان کے فن پاروں کا بنیادی موضوع درد، کرب اور اندرونی اضطراب ہے جو معاشرتی صدمات کی بناء پر انسانوں کے اندر رچ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ روح کو زخمی کر دیتا ہے۔ ہان ان جذبات کی نہ صرف عکاسی کرتی ہیں بلکہ نہایت جرأت سے ادبی پیرائے میں اسے بیان بھی کرتی ہیں جس بناء پر ادب میں انھیں جدت کار کا درجہ و مقام حاصل ہے۔ ان کے بارے میں ادبی نقادکہتے ہیں کہ انھوں نے کورین لکھاریوں کی ایک نسل کو زیادہ سچ بولنے اور اپنے موضوعات میں زیادہ جرأت مند ہونے کی ترغیب دی ہے۔

’میں بہت حیران ہوں اور باعزت محسوس کر رہی ہوں‘

2024 میں ادب میں نوبل انعام حاصل کرنے والی مصنفہ ہان کانگ نے اپنے بیٹے کے ساتھ جنوبی کوریا میں واقعے اپنی گھر میں رات کا کھانا ختم کیا ہی تھا کہ انھیں فون پر ایک کال موصول ہوئی۔ یہ کال نوبل انعام کی نوید لیے تھی۔ جس کے ذریعے انھیں نوبل انعام کی خوش خبری کے ساتھ یہ بھی بتایا گیاکہ وہ جنوبی کوریا میں پہلی خاتون ہیں جنہیں یہ اعزاز مل رہا ہے۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ جنوبی کوریا کے تمام لکھاریوں کی تحاریر نے مجھے اس قدر متاثر کیا ہے کہ میں اس مقام تک پہنچ سکی ہوں۔ فون پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ کس طرح لکھنے والوں کی اجتماعی کوششوں سے انھیں حوصلہ ملا۔ ان کی تمام کوششیں اور حوصلہ افزائی ان کی ترغیب بنتی رہی۔ ہان کانگ نے اپنے بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول ”دی ویجیٹیریئن“پر اپنے تحریری عمل کے بارے میں بھی بات کی۔

اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں

”سویرا ہونے والا تھا اور ستارے تیزی سے جھلملا رہے تھے۔ ان کے جھرمٹ میں کتاب اپنی روشنی بکھیر رہی تھی۔ میں نے کتاب کا ورق پلٹا تو صفحے کو چھونے کا لمس ایک مخصوص بو، خوشبودار احساس اجاگر کرتے ہوئے یہ سوال چھوڑ گیا کہ کتاب کیا ہے؟ یہ سوال کس قدر تیکھا تھا۔ میں حافظے کی بھول بھلیوں میں ابھی اس کا جواب ٹٹول ہی رہا تھا کہ کانوں میں آواز کا سنہری قطرہ ٹپکا اور اس سے پیدا ہونے والے گونج کہنے لگی کہ کتاب تو ایک بیتے ہوئے لمحے کا نام ہے۔ یہ وقت کا جلترنگ ہے۔ ایک سریلا ساز ہے۔ گہری رات میں مہکتا ہوا روشن چاند ہے۔ یہ خوابوں کا قافلہ اور گزرے وقت کی گزارش ہے۔ بھید وں کی راگنی اور گردشِ رنگِ چمن کو دیکھنے کا درپن ہے۔ کتاب، قدرت کا انمول رتن ہے۔“

سری لنکا: ”عوامی بغاوت کے 2 سال بعد مارکس وادی صدر بن گیا“

نئے سری لنکن صدرکا انتخابی منشور غریبوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے موجودہ فریم ورک کے اندر کچھ تبدیلیوں کی تجویز پیش کرتا ہے۔ تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے مقداری اور ساختی اہداف پر نظر ثانی سے انکار کرنے پر معاہدہ توڑنے جیسے اقدام کا کوئی امکان نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے معاہدے کے اندر رہتے ہوئے اس منشورپر عملدرآمد ممکن نظر نہیں آتا۔ وعدے اور اعلانات نہ صرف مبہم ہیں بلکہ ان کو پورا کرنے کیلئے کوئی ٹائم فریم بھی نہیں دیا گیا۔ کئی دہائیوں سے شاؤنزم اور بالادستی میں ڈوبی سنہالہ قوم میں انتخابی بنیادیں ان آئینی تبدیلیوں کی راہ میں بھی رکاوٹ ہونگی، جن کا وعدہ کیا گیا ہے۔

’پنجابی مزدوروں کے قتل سے متعلق متضاد دعوے، سچ کہیں درمیان میں ہی ہے‘

’’مسلح کارروائیوں میں پنجابی مزدوروں کے قتل کے حوالے سے ان متضاد دعوؤں میں میرے خیال میں سچ کہیں درمیان میں ہی پایا جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان میں پنجابی اور عام لوگ مارے گئے ہیں۔ میرے خیال میں اس کی تردید کرنا ایک بددیانتی ہوگی۔ تاہم پھر سارے مرنے والے لوگوں کو عام لوگ قرار دے کر اس کو بطور ایک بیانیہ فروغ دینا بھی شاید ایک درست بات نہیں ہے۔ جن کو یہ مسلح تنظیمیں اپنا دشمن تصور کرتی ہیں، وہ بھی ان کو دشمن تصور کرتے ہیں اور ایسا ہی سلوک ان کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے۔ دونوں طرف متضاد دعوے ہیں، لیکن دونوں طرف عام لوگ بھی مارے گئے ہیں۔۔۔۔بجائے اس کے کہ ہم اس معاملے میں پھنسے رہیں، اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس معاملے سے بچ سکتے ہیں، اگر ہاں تو پھر کیسے؟ میرے خیال میں بچا جا سکتا ہے۔ ایک پر امن، جمہوری، ترقی پسند اور عوام دوست ریاست کا قیام کیا بہت مشکل ہے؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے، دنیا میں لوگوں نے ایسا کیا ہوا ہے۔‘‘

سیکولرازم کیا ہے اور سیکولر سیاست و ریاست کیوں ضروری ہے؟

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی حقوق تحریک کی کامیابی نے جہاں ریاست کی مادی قوت کو شکست دی ،وہاں سامراجی تسلط اور سرمایہ دارنہ استحصال کے جواز مہیا کرنے والے نظریات کو بھی شکست سے دوچار کیا۔محنت کش عوام اور نوجوانوں میں سماج کو ترقی دینے اور آگے بڑھانے والے نظریات کو سیکھنے کی پیاس میں بھی اضافہ ہوا ہے۔قومی آزادی، سیکولرازم اور سوشلزم کے نظریات اور اصطلاحات پر بحث میں اضافہ ہوا ہے۔نوجوانوں اور محنت کشوں کے ترقی پسند نظریات اور رحجانات کی جانب جھکاؤ نے مقتدر قوتوں کو خوفزدہ کر دیا ہے۔سیکولر سیاست پر یقین رکھنے والے سوشلسٹ اور نیشنل اسٹ رحجانات کے خلاف ریاست کے آلہ کاروں کے ذریعے کفر و الحاد کے فتوے اور مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔

جاہل رہنا انسان کا جمہوری حق سہی مگر جہالت نقطہ نظر نہیں ہوتا

اس سال کے آغاز میں اتفاق سے،لاہور میں ایک ایسے اجلاس میں جانے کا اتفاق ہوا جس کا موضوع تھا کاپی رائٹس۔ کاپی رائٹس دنیا کی ایک بڑی صنعت ہے۔ اپنی ڈاکٹریٹ پر تحقیق کے دوران، بالخصوص ڈبلیو ٹی او کے حوالے سے نئی قانون سازی کے پس منظر میں راقم نے بھی اس موضوع سے جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کی کیونکہ میری تحقیق کا موضوع گلوبلائزیشن کے عہد میں میڈیا سامراج کا جائزہ لینا تھا۔

’2000ء کے بعد پاکستان میں 16 ہزار 600 دہشت گردانہ حملے ہوئے‘ 

میں پنجاب یونیورسٹی میں بائیں بازو کا طالب علم کارکن تھا، جہاں میں اپلائیڈ سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ میں طلبہ یونین کا صدر منتخب ہوا۔ میں مذہبی جنونیوں کے خلاف کئی لڑائیوں میں مدد اور قیادت کرتا رہا ہوں۔ 1977 کے آخر میں میرے ایک مضمون میں پیپلز پارٹی کی دائیں بازو کی قیادت اور فوجی جنرل کے درمیان ہونے والی سازش کو بے نقاب کرنے کے بعد ملک چھوڑنا پڑا۔ میں نے 8 سال جلاوطنی میں گزارے اور پھر ایک شہری کے طور پر ہالینڈ میں رہنے کا اختیار ہونے کے باوجود پاکستان واپس آ گیا۔ میں 1997 سے 2019 تک لیبر پارٹی پاکستان اور بعد میں عوامی ورکرز پارٹی کا جنرل سیکرٹری رہا۔ میں نے AWP چھوڑ کر ایک نئی سیاسی جماعت حقوق خلق پارٹی بنائی، اور میں اس کا صدر ہوں۔ میں پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کا جنرل سیکرٹری بھی ہوں۔ یہ پاکستان کی واحد تنظیم ہے جو La Via Campesinaسے منسلک ہے۔ میں ایشیا یورپ پیپلز فورم ایشیا ٹیم کا سربراہ بھی ہوں، اور کئی دیگر علاقائی اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز میں شامل ہوں۔

حسینہ کے فرار کی توقع کسی کو نہیں تھی: نوین مرشد

’’لوگوں نے یہ شیخ مجیب کو مسترد نہیں کیا۔ نوجوان نسل تو انہیں زیادہ جانتی بھی نہیں ہے۔ یہ شیخ حسینہ کے اعمال کا رد عمل ہے۔ انہوں نے اپنے اقتدار کیلئے جس طرح شیخ مجیب کو لوگوں پر مسلط کیا، یہ سب اس کا رد عمل ہے۔ ہر جگہ ان کے نشان تھے، ہر کوئی کہتا تھا کہ یہ مجیب کا بنگلہ دیش ہے۔ وہ کہتی تھیں کہ میرے باپ کا ملک ہے، میرے باپ نے ملک آزاد کروایا۔ انہوں نے اپنے باپ کو اتنا بیچا کے لوگ تنگ آگئے۔‘‘

’حسینہ فرار نہ ہوتیں تو ان کی لنچنگ ہو جاتی، لوگ سری لنکا ڈھاکہ میں دہرانا چاہتے تھے‘

(ہنستے ہوئے)بنگلہ دیش کی فوج عبوری حکومتیں بنانے کی مہارت رکھتی ہے۔ اچھے انداز میں بھی۔برے انداز میں بھی۔ مارشل لا تو نہیں لگا۔ عبوری حکومت بنے گی۔ادہر طلبہ کل (منگل کے روز) پریس کانفرنس کریں گے۔ ابھی تک افواہ یہ ہے کہ طلبہ نے فوجی سر براہ سے ملنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ صدر سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس سب سے قطع نظر، طلبہ حزب اختلاف کے 31 نکات پر عمل درآمد کی بات کرتے آئے ہیں۔ اس منشور کا مقصد یہ ہے کہ ریاست کو جمہوری بنایا جائے۔ جبر کا خاتمہ ہو۔مختلف طرح کی اصلاحات ہوں۔طلبہ اس ملک کو آگے لے کر جا سکتے ہیں۔ ہو گا کیا،یہ ابھی دیکھنا ہو گا۔