نقطہ نظر


پاکستان دنیا بھر میں طالبان کے مفادات کا چمپئن بننا چاہتا ہے: مائیکل گوگل مین سے گفتگو

صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں ایک ایگزکٹیو حکم کے ذریعے افغان سنٹرل بنک کے 3.5 بلین ڈالر فراہم کرنے کی راہ ہموار کی ہے جو امریکہ کے فیڈرل رزرو میں منجمد تھے۔ لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ رقم کب تک فراہم کی جا سکے گی اور کن مقاصد کے لئے استعمال کی جا سکے گی۔ افغانستان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ فاقے کی حد تک پہنچ رہے ہیں اور طالبان کے پاس انتظار کا مزید وقت نہیں ہے۔

پابندی حجاب پر نہیں ہندتوا پر ہونی چاہئے

۱۔ ریاست کو یہ حق نہیں کہ وہ ڈریس کوڈ مسلط کرے۔ ریاست ایران، سعودی عرب اور ترکی کی ہو یا فرانس یا بھارت کی۔
۲۔ ہم حجاب یا برقعے کے قائل نہیں لیکن ہم اس حق کا دفاع کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ خواتین خود کریں کہ انہیں کیا پہننا ہے۔ جس طرح عورت کو برقعہ پہننے کا حق ہے اسی طرح اسے جینز یا سکرٹ پہننے یا سر پر دوپٹہ نہ لینے کا حق بھی حاصل ہے۔ بعض لبرل حضرات جو برقعے پر پابندی کے حامی ہیں وہ ان مولویوں سے ہرگز مختلف نہیں جو مسکان خان کے حق لباس پر تو جہاد کرتے نظر آتے ہیں مگر سر ینگر کی عروسہ پرویز کو سر پر دوپٹہ نہ لینے کی وجہ سے سر قلم کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
۳۔ ہم بطور سوشلسٹ ایک ایسے سازگار ماحول کاقیام چاہتے ہیں جہاں عورت ہر طرح کے لباس میں محفوظ اور محترم محسوس کرے۔

فیشن، سٹائل، لالچ اور سازشوں سے بھرا ’ہاؤس آف گوچی‘

1992ء میں جب منموہن سنگھ جی نے انڈیا کو عالمی منڈی کے لئے کھولا تو دنیا بھر سے برانڈز انڈیا آئے اور پھر بالی وڈ میں رچ بس گئے۔ آج کے دور میں ہماری نوجوان نسل میں تو کوئی ہی ہو گا جسے گوچی کا نہ پتا ہو۔ فلم کا نام ہی انکو متاثر کرے گا اور میرے خیال میں یہ ایک قابل دید فلم ہے۔ اسطرح کی کوئی بھی فلم مکمل حقیقت پر مبنی تو نہیں ہوتی مگر ہم حقیقت کا اندازہ ضررور لگا سکتے ہیں۔

ایرانی فلم ’قہرمان‘ کا ہیرو عام آدمی، ولن سوشل میڈیا

فلم کا مرکزی کردار رحیم (عامر جدیدی) نے نبھایا ہے جو قرضہ واپس نہ کر پانے پر قید کاٹ رہا ہے اور فلم کے آغاز میں ہی دو دن کی ضمانت پر جیل سے باہر آتا ہے۔ رحیم طلاق یافتہ ہے اور ایک 12-11 سالہ بیٹے کا باپ۔ بیٹا اس کی عدم موجودگی میں اس کی بہن کے پاس رہتا ہے۔ رحیم کی ایک دوست خرشندہ (سحر گلدوست) جس کے ساتھ وہ شادی کرنا چاہتا ہے ایک بے باک عورت ہے جو اس کی مدد کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔

”یہ وہ پاکستان نہیں جسے میں جانتی ہوں“: ڈاکٹرانیتا واعظ سے گفتگو

آخر میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ اکثر لوگ مجھے بتاتے ہیں کہ وہ میری کتاب کے ذریعے پہلی بار ا ن تحریکوں اور کوششوں سے واقف ہوئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ ا دنیٰ سی کوشش قیامِ امن اور کسی حد تک شدت پسندی کے تدارک میں معاون ثابت ہو گی۔

’طالبان خان کی جگہ طالبان کے سہولت کار کو ووٹ ملنا بھی تشویشناک ہے‘

واضح طور پر یہ پی ٹی آئی مخالف ووٹ تھا۔ مہنگائی، بیروزگاری اور بدانتظامی سے عوام تنگ آ چکے ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے خلاف اپنا فیصلہ دیا ہے۔ یہ نتائج اسٹیبلشمنٹ اور سلیکٹروں کیلئے بھی ایک واضح پیغام ہیں کہ بس اب بہت ہو چکا ہے۔

خیبر پختونخواہ: ’پی ٹی آئی والے خود کہہ رہے ہیں کہ وہ مرکزی حکومت کی وجہ سے ہارے‘

گزشتہ بلدیاتی انتخابات 2015ء میں ہوئے تھے، ان میں بھی یہ مسئلہ تھا کہ ضلعی ناظم کے پاس اختیارات بہت کم تھے۔ اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ بیرومیٹر کی طرح ان الیکشن سے مستقبل کے عام انتخابات کا ٹرینڈ معلوم ہو جاتا ہے۔ تاہم بلدیاتی انتخابات کا جو مقصد ہوتا ہے کہ صوبے سے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کئے جائیں، وہ نہیں ہو رہا ہے۔ سیاسی سرگرمی ہو گئی ہے، لیکن جب یہ منتخب نمائندے حلف لیں گے تو ان کے پاس کام کرنے کے اختیارات بہت کم ہونگے۔

ٹی وی نے ہمیں زنانہ اور مردانہ ڈبوں میں تقسیم کر دیا ہے: اصغر ندیم سید

معاشرے میں پھیلی تنگ نظری اور تعصب کی ذمہ داری نہ تو تعلیم پر ہے نہ شاعر پر۔ یہ حکومت پر ہے کہ اس کا قانون، اس کی پارلیمنٹ، اس کا انصاف کا نظام اور اس کا انتظامی ڈھانچہ بے حد کمزور ہے اور یہ یر غمال ہو چکا ہے۔ انتہاپسند جماعتوں اور تنظیموں نے فوج اور اس کے اداروں کو کب کا یرغمال بنا دیا ہے۔ حکومت تو خود فوج کے گھٹنوں میں رہتی ہے۔