نقطہ نظر


’پاکستانی معیشت ریڈ زون میں ہے‘

’’پاکستان اور چین کے قرضوں کا سوال بہت اہم ہے۔ پاکستان کے کل بیرونی قرضے 130ارب ڈالر ہیں، ان میں سے 40ارب ڈالر چین سے لئے گئے ہیں۔ یہ تقریباً کل قرضے کا 30فیصد بنتے ہیں۔ ۔۔ ملٹی لیٹرل ڈونرز کے قرضوں کے میچورٹی کا دورانیہ کم سے کم 15 سال سے شروع ہوتا ہے اور شرح سود بھی 1.5کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ چین کے قرضوں کی میچورٹی کا دورانیہ 9.1سال سے شروع ہوتا ہے اور شرح سود 3.72فیصد۔‘‘ـ

کیا عمران خان کو دوسری اننگ کھیلنے دی جائے گی؟

عمران خان میں کسی قسم کی خوش فہمی نہیں پالنی چاہئے۔ عمران خان کلین شیو جماعت اسلامی ہے۔ تحریک انصاف مزدور دشمن،عورت دشمن سیاسی مظہر ہے۔ اس کا لیکن یہ مطلب بھی نہیں کہ فوج کی حمایت کی جائے۔ خوش قسمتی سے ملک میں بائیں بازو کا کوئی گروہ بھی اس نقطہ نظر سے اختلاف کرتا دکھائی نہیں دیتا۔
دوم، فوج اور تحریک انصاف کی لڑائی ابھی چلے گی۔ اگر کسی موقع پر یہ تضاد حل بھی ہوا تو ملک کو درپیش معاشی و سیاسی بحران حل نہیں ہو گا۔ بائیں بازو کو اپنا کام جاری رکھنا ہو گا۔یہ الگ بات ہے کہ بائیں بازو کے بعض حلقے اس سمت میں گامزن نہیں جس سمت میں انہیں جانا چاہئے۔ اس ضمن میں چند گزارشات یہاں پیش کی گئی تھیں۔

کیا گیلیلیو یا ڈارون کو غلط ماننے سے کوئی فرق پڑتا ہے؟

کسٹوفر کولمبس کے بارے میں ہمیں بچپن میں ہی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ ہندوستان پہنچنا چاہتا تھا لیکن امریکہ کی طرف جا نکلا۔ یہ بات نہیں بتائی جاتی کہ کولمبس نے جو سفر کی منصوبہ بندی کی تھی اس کی بنیاد یہ سائنسی نقطہ تھا کہ زمین گول ہے۔
بات یوں ہے کہ کولمبس سے قبل بھی یورپ کے مہم جو،جنوبی ایشیا اورمشرقی ایشیا کی جانب جانے کی کوشش کر چکے تھے۔ ان کے سفر نامے اس بات کا ثبوت تھے کہ جس سمندری راستے سے وہ ایشیا جانے کی کوشش کر تے ہیں،وہ بہت لمبا ہے۔

عوامی تحریکوں کا کردار صنفی تفریق سے بالا تر ہے!

عالمی سرمایہ دارانہ نظام جو کہ معاشی گراوٹ، سیاسی چپقلشوں، ماحولیاتی بحران، سامراجی جنگوں، ہجرتوں، قحط اور قدرتی آفات کا شکار ہے۔ جہاں اس نظام میں رہتے ہوئے انسانوں کو بے پناہ جبر اور مسائل کا سامنا ہے، وہیں دوسری جانب محنت کش عوام کے اندر اس جبر کے خلاف غم و غصہ بھی موجود ہے۔ جس کے باعث تمام ممالک کے اندر بہت سی چھوٹی بڑی تحریکیں بھی موجود ہیں۔

زندگی کی بقا دیگر سیاروں پر زندگی کی تلاش سے زیادہ ناگزیر

اس نظام میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو سرمایہ داروں کے منافعوں کی ہوس نے زندگی کی بقاء کو یقینی بنانے کی بجائے زندگی کو ایسے خطرات سے دوچار کرنے کا موجب بنادیا ہے جو پہلے کبھی نہیں درپیش تھے۔حکمران طبقہ دیگر سیاروں میں زندگی کے امکانات کو مبالغہ آرائی سے اس لیے پیش کرتا ہے تاکہ اس زمین میں زندگی کو ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے درپیش سنجیدہ خطرات سے توجہ ہٹائی جائے۔خلائی تحقیقات پر سرمایہ کاری کا مقصد کائنات کے رازوں کو جان کر تمام انسانوں کو مستفید کرنا نہیں ،نہ ہی کسی اور سیارے میں انسانوں کو زندہ رکھنے کے لئے منتقل کرنا ہے ،بلکہ منافعوں کے لیے اور تسلط کے لیے اجارہ دایوں کی دوڑ کا حصہ ہے جو خشکی، سمندروں اور فضاؤں کے بعد خلاؤں پر قبضے کے لیے ہے۔

سوشلسٹ صحافت اور سرمایہ دار میڈیا کا فرق

پاکستان میں کرکٹ بہت شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ خاص کر جب ورلڈ کپ یا کوئی بڑی سیریز کھیلی جا رہی ہو تو لگ بھگ پورا ملک ٹیلی ویژن اسکرین سے چپکا ہو تا ہے۔ آپ میچ دیکھنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ٹیلی ویژن چینل آپ کو میچ دکھا رہا ہے۔ حقیقت میں چینل کے نظر میں آپ ایک جنس (commodity)ہیں جسے چینل اشتہاری کمپنیوں کے ہاتھ بیچ رہا ہوتا ہے۔ کرکٹ میچ ہو یا کوئی ڈرامہ،چینل کے لئے یہ میچ یا ڈرامہ ایک بہانہ ہوتا ہے۔اس بہانے وہ آپ کو اپنے پاس بلاتا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں،کہ آپ چینل کی آڈینس ہیں۔ اصل میں چینل کی آڈینس اشتہار دینے والی کمپنیاں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لگ بھگ ہر بال کے بیچ، ہر اُوور کے بیچ، اشتہار چل رہا ہوتا ہے۔

سرخ جھنڈا اور جموں کشمیر کی عوامی حقوق تحریک

گزشتہ روز بڑے بھائیوں کے آشرباد سے چلنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر چلنے والی ایک وڈیو نظر سے گزری۔ ویڈیو میں جموں کشمیر میں موجود حریت پسندوں اور انقلابیوں کو انتشاری ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ وڈیو میں راولاکوٹ سے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ایک رہنما کا ایک کلپ بھی شامل کیا گیا تھا،جس میں جناب سرخ جھنڈے اور نظریات سے بیزاری کا اظہار کر ہے تھے۔

کیا پاکستانی سوشلسٹ ہمیشہ کے لئے ناکام ہیں؟

دریں اثنا،گذشتہ دس پندرہ سال میں بائیں بازو نے کسی حد تک اپنے وجود کا احساس دلایا ہے۔ نہ صرف ملک بھرکی یونیورسٹیوں میں طلبہ سیاست میں بائیں بازو کے گروہ متحرک ہیں، بعض کارکن ملک بھر میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ٹریڈ یونین تحریک میں کوئی بڑا ابھار دیکھنے میں نہیں آیا لیکن کئی چھوٹی چھوٹی لڑائیاں بائیں بازو کی قیادت میں لڑی گئی ہیں۔علی وزیر کی شکل میں بایاں بازو وفاقی پارلیمنٹ تک بھی پہنچا۔ بائیں بازو کے نظریات میں پہلے کی نسبت نوجوان طبقے کی دلچسپی بڑھی ہے۔ دانشور طبقے میں بھی ایسے افراد نظر آتے ہیں جو مارکس وادی نظریات سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔

بھنسالی کی ہیرا منڈی میں لاہور کا ’ماتم‘

بھارتی ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کی نیٹ فلکس سیریز ‘ ہیرا منڈی: دی ڈائمنڈ مارکیٹ’  کی تعریف اور تنقید دونوں جاری ہیں۔
اس فلم کی کہانی،اس کے کرداروں کی پرفارمنس، اس کی موسیقی،سکرین پلے کی تکنیک کے حوالے سے اس کی خوبیاں اور خامیاں، یہ سب اس مضمون کا موضوع نہیں ہے۔میں یہاں تقسیم سے پہلے والے اس لاہور کے بارے میں بات کروں گا، جوہندووں،سکھوں،مسلمانوں،انگریزوں،اینگلو انڈین نسل اور پارسیوں کے دلوں میں دھڑکتا تھا۔
 ”ہیرا منڈی“ میں جو شہر دکھایا گیا ہے وہ کس کا شہر ہے؟ اس کو کس کی نظر سے دکھایا گیا ہے؟سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ فلم نے شہر کو ایک نئے انداز میں پیش کیا ہے۔

خود غرضی، نرگسیت اپنی ذات سے نفرت کا اظہار ہوتے ہیں: ایرک فرام

خود غرضی خود سے محبت کرنے کا نام نہیں۔ دراصل خود غرضی اور خود سے محبت ایک دوسرے کا متضاد ہیں۔ خود غرضی لالچ کی ایک قسم ہے۔ ہر قسم کے لالچ کی طرح، خود غرضی کا پیٹ بھی نہیں بھرتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خود غرضی کے نتیجے میں کبھی بھی اطمینان نہیں ملتا۔