دنیا

کثیر قطبی دنیا بنانے کے لیے متحرک متعدد ’غنڈے‘

کویتا کرشنن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عوامی سطح پر غصے کا اظہار کیوں کیا اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ ڈیل کرنے سے انکار کیوں کیا؟یہ یاد رکھنے کا وقت ہے کہ یوکرین کے لیے کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ کثیر قطبی عالمی نظام کے رئیل اسٹ وکیل جان میئرشائمرسے بہتر کون جانتا ہے، جنہوں نے امریکہ کی قیادت میں مغرب پر روس کو جنگ پر اکسانے کا مسلسل الزام لگایا ہے۔

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے انٹرویو کے ایک ہفتہ بعد میئر شائمر نے ایک میڈیا انٹرویو میں وضاحت کی تھی کہ مسٹر پیوٹن کے ساتھ کسی بھی امن معاہدے کے لیے یوکرین کو صرف کچھ علاقے یا نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن کی تنظیم سے لگائی امیدوں کو ترک کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، بلکہ یہ یوکرین کی جمہوریت کو قربان کرنے سے کم پر نہیں ہوگا۔ انہوں نے ایک انٹرویو لینے والے کو بتایا کہ پیوٹن ’کیف میں ایک روس نواز حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں، ایک ایسی حکومت جوماسکو کے مفادات سے ہم آہنگ ہو۔۔۔‘

انہوں نے کہا کہ ایک لبرل جمہوریت کا حامل یوکرین، ’روس کے نقطہ نظر سے۔۔۔ ایک وجودی خطرہ تھا۔‘

انٹرویو لینے والے نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ سامراجیت نہیں ہے کہ یوکرینیوں کو یہبتایا جائے کہ وہ لبرل جمہوریت نہیں ہو سکتے؟ میئرشائمر نے جواب دیا کہ ’یہ سامراجیت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عظیم طاقت کی سیاست ہے۔جب آپ یوکرین جیسا ملک ہوتے ہیں اور آپ روس جیسی عظیم طاقت کے ساتھ رہتے ہیں، تو آپ کو روسیوں کی سوچ پر دھیان دینا ہوگا، کیونکہ اگر آپ چھڑی لے کر ان کی آنکھوں میں چبھائیں گے تو وہ جوابی کارروائی کریں گے۔‘

جمہوریت حقیقت پسندانہ نہیں

میئرشائمر نے کہا کہ کثیر قطبی دنیا میں جمہوریت محض حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔ ’ایک مثالی دنیا میں اگر یوکرینی اپنا سیاسی نظام منتخب کرنے اور اپنی خارجہ پالیسی خود منتخب کرنے کے لیے آزاد ہوں تو یہ بہت اچھا ہوگا۔ تاہم حقیقی دنیا میں یہ ممکن نہیں ہے۔‘

آج ٹرمپ پیوٹن کو وہ حکومتی تبدیلی فراہم کرنے کے لیے بے تاب ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ وہ زیلنسکی کو ’4فیصد اپروول ریٹنگ‘ کے ساتھ ایک ’آمر‘ قرار دیتے ہیں۔ وہ ایک سے زیادہ بار یہ تجویز کر چکے ہیں کہ امن صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب زیلنسکی استعفیٰ دیں۔

پیوٹن اور ٹرمپ کیسا یوکرین چاہتے ہیں؟ اس سوال کے جواب کے لیے دوسری اقوام کو دیکھیں جو ’روس جیسی عظیم طاقت کے اگلے دروازے پر رہتی ہیں‘ تو جواب واضح ہے۔ بیلاروس اور قازقستان میں جمہوریت کے لیے ہونے والے مظاہروں کو روسی فوج کی مدد سے بے دردی سے کچل دیا گیا ہے۔ بیلاروس کے صدر الیگزینڈرلوکاشینکو نے اعلان کیا کہ ’یوکرین جیسی جمہوریتسے بہتر ہے کہ بیلاروس جیسی آمریت ہو۔‘یہ واضح ہے کہ یوکرینی اس سے متفق نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ سابق امریکی صدر جوبائیڈن نے زیلنسکی کو کھڑے رہنے اور لڑنے کے لیے اکسانے سے کہیں زیادہ بھاگنے پر مجبور کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی تھی۔ انہیں امید تھی کہ اس سے پیوٹن کو راضی کر لیا جائے گا اور ایک طویل جنگ کو روکا جاسکے گا۔

جنوری2022میں بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ ’معمولی حملے‘ کی صورت میں نیٹو تقسیم ہو جائے گا، اور زیلنسکی کو ’بڑی طاقتوں کو یہ باور کروانا تھا کہ نہ تو یہ حملہ معمولی ہے اور نہ کوئی قوم چھوٹی ہے۔‘

بائیڈن نے کیف سے امریکی سفارتخانہ خالی کر دیا تھا اور روس کے حملے سے چند دن پہلے کہا تھا کہ ’صدر زیلنسکی کے لیے یوکرین چھوڑنا ایک دانشمندانہ انتخاب ہوگا۔‘ حملے کے بعد زیلنسکی کو دوبارہ امریکہ کو بتانا پڑا کہ وہ ہتھیاروں اور گولہ بارود چاہتے ہیں، بھاگنے کی سواری کے طلب گار نہیں ہیں۔

اس منصوبے کی وسیع سرحد

یوکرین واحد ملک نہیں ہے جہاں ٹرمپ اور پیوٹن اپنی مرضی کی حکومت چاہتے ہیں۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور ٹرمپ کے معاون ایلون مسک نے جرمنوں پر زور دیا ہے کہ وہ انتہائی دائیں بازو کی تارکین وطن مخالف اے ایف ڈی کو ووٹ دیں۔ وینس نے میونخ میں یورپی یونین کو بتایا کہ ٹرمپ یورپی لوگوں کو ان کے ’داخلی خطرے‘ یعنی تارکین وطن اور لبرل ڈیموکریٹک قیادت سے آزاد کرنا چاہتے ہیں، جو انہیں (تارکین وطن کو) یورپ میں داخل ہونے دیتے ہیں۔

گزشتہ ایک دہائی سے ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان اپنے ملک کو ایک ’غیر لبرل جمہوریت‘ بنانا اور یورپی یونین کو ایک غیر لبرل منصوبے میں تبدیل کرنا اپنا مقصد قرار دے رہے ہیں۔ تب سے پیوٹن بھی اس منصوبے کے لیے ہر ممکن زور لگا رہے ہیں۔ وینس نے واضح کیا کہ ’علاقے کے نئی چوہدری‘ٹرمپ بھی ایک ایسی یورپی یونین ہو جو عالمی انسانی حقوق اور جمہوری معیارات کی بجائے مسیحی اقدار کے ساتھ منسلک ہو۔ ایک ایسی یورپی یونین ہوجہاں ’ہم جنس پرستوں کے پروپیگنڈے‘ پر پابندی لگانے والے پیوٹن طرز کے قوانین منظور کرنے پر کسی قسم کی مذمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اوربان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پیوٹن اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف یاہو کے خلاف جاری کیے گئے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے وارنٹ کا احترام کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں پیوٹن کو ووٹ دیا۔ ٹرمپ غزہ اور یوکرین کو رئیل اسٹیٹ جائیدادوں کے ان ٹکڑوں کی طرح سمجھتے ہیں جنہیں نسل کشی کرنے والے بدمعاشوں کے ذریعے خالی کروایا جانا مقصود ہے۔ ٹرمپ نے غزہ میں نسلی تطہیر کو اپنے نام سے برانڈ کیا اوراے آئی کے ذریعے ایک فحش تصویر بنواکر جاری کر دی۔ انہوں نے اوول آفس میں ہونے والی امن بات چیت کو رئیلٹی ٹی وی شو میں تبدیل کر دیا، جہاں دنیا کا سب سے طاقتور آدمی اپنے حواریوں اور میڈیا کے ہمراہ ایک حملے کی زد میں اور مقبوضہ قوم کے منتخب رہنما پر دھونس جما رہا تھا۔

قومی غنڈے ایک ’کثیر قطبی دنیا‘ بنانے کے لیے مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں، وہ ایک ایسی دنیا بنانا چاہتے ہیں، جو تمام غنڈوں اور متعصبوں کے لیے محفوظ ہو۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم یہ تصور کرنا چھوڑ دیں کہ یہ غنڈے کھیل کے میدان کو محفوظ بناتے ہیں، اور یہ کہ ’کثیر قطبی‘ غیر مغربی ظالم حکمران ’اپنے اندرونی کردار سے قطع نظر‘ چھوٹی برائی ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کثیر قطبی دنیا کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ پیوٹن نے ہمیشہ اصرار کیا ہے کہ ’دو مغرب‘ہیں، اور یہ کہ ان کا جھگڑا عالمگیر جمہوری اصولوں اور قواعد کے مغرب سے ہے،جبکہ ایک غیر لبرل امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کثیر قطبی دنیا میں خوش آمدیدکہیں گے۔

کبھی نہ ہونے سے تاخیر سے ہونا بہتر ہے

یہ ایک غیر لبرل بین الاقوامی منصوبے کا بڑھتا ہوا رجحان ہے، جو آج جمہوریت،عوام، امن اور کرہ ارض کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے(جس کی قیادت ٹرمپ، پیوٹن، نیتن یاہو،شی جن پنگ،نریندر مودی، اوربان اور یورپی فاشسٹ کر رہے ہیں)۔

اس بات پر اصرار کرنا اخلاقی دیوالیہ پن اور خود کش حماقت ہے کہ اس نئے غیر لبرل انٹرنیشنل کا عروج صرف مغرب بمقابلہ باقی دنیا’معمول کا بزنس‘ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے مودی کے صرف ہندوؤں پر مبنی بھارت کے منصوبے کی اصطلاحات پر جھگڑا کرنا ہے۔

غیر لبرل انٹرنیشنل کا سرے سے مقابلہ نہ کرنے اور یونیورسل ہیومن رائٹس اور جمہوری یکجہتی کا دفاع نہ کرنے سے بہتر ہے کہ دیر سے ہی سہی لیکن ایسا ہر صورت کیا جائے۔ جمہوریت کا دفاع کرنے والے بھارتیوں کے لیے ایک اچھی شروعات ہوگی کہ وہ یوکرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں، جو پیوٹن اور ٹرمپ کے مظالم سے اپنا دفاع کر رہے ہیں۔

(بشکریہ: دی ہندو، ترجمہ: حارث قدیر)

Kavita Krishnan
+ posts

کویتا کرشنن کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ لیننسٹ) کے پولٹ بیورو کی رکن رہی ہیں۔ ان کا شمار جنوبی ایشیا کی اہم مارکسی دانشوروں میں ہوتا ہے۔