مزید پڑھیں...

لال خان: کچھ یادیں، کچھ باتیں

پراپیگنڈہ اور پارٹی کی تعمیر میں لینن کے طریقہ ہائے کار کو وہ نئی بلندیوں پر لے گئے۔ تنظیم سازی کے عمل کو اعلیٰ ثقافتی معیار سے روشناس کروایا۔ پاکستان جیسے معاشروں میں قومی سوال جیسے پیچیدہ مسائل پر مارکسی نقطہ نظر کو ایک نیا نکھار دیا۔ آج انقلابیوں کی نئی نسل کا فریضہ یہی ہے کہ وہ ان کی جدوجہد کو آگے بڑھائیں اور اس نصب العین تک پہنچائیں جس کے لیے لال خان کی تمام زندگی وقف رہی۔ سچے جذبوں کی قسم‘ آخری فتح ہماری ہو گی۔ انقلاب زندہ باد!

لال خان: افکار تیرے ہونے کی گواہی دینگے!

سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کی ہر غلاظت کا خاتمے اورایک حقیقی انسانی معاشرے کے قیام کے ذریعے ہی ’ڈاکٹر لال خان‘ کی لازوال جدوجہد کو حقیقی خراج پیش کیا سکتا ہے۔

کامریڈ لال خان کی یادیں۔ ۔ ۔

ان کے تمام افعال، میل جول اور غور و فکر ”طبقاتی جدوجہد“ اور اس کے ذریعے انقلابی سوشلزم کی قوتوں کو مضبوط بنانے کیلئے ہوتے تھے۔ ان کی سوچ اور عمل پر ”طبقاتی جدوجہد“ حاوی رہی اور یہی انہوں نے ہمارے لیے ترکہ چھوڑا۔

’ڈیپ سیک‘ کی طرف بڑھتی مصنوعی ذہانت

زیادہ تر قارئین کو اب تک یہ خبر معلوم ہو چکی ہو گی کہ ڈیپ سیک (DeepSeek)، جو کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی ایک چینی کمپنی ہے، نے ایک اے آئی ماڈل ’آر ون‘ (R1) جاری کیا ہے جو صلاحیتوں کے لحاظ سے اوپن اے آئی، اینتھروپک اور میٹا جیسی کمپنیوں کے بہترین ماڈلوں کے ہم پلہ ہے۔ لیکن اسے بہت کم لاگت کیساتھ اور جدید ترین جی پی یو چِپس کے بغیر ٹرین کیا گیا ہے۔ ڈیپ سیک نے اس ماڈل کی تفصیلات بھی عوام کے لیے کھول دی ہیں تاکہ دوسرے لوگ اسے بغیر کسی قیمت کے اپنے کمپیوٹر پر چلا سکیں۔

مالاکنڈ یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی: جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام کی مخلوط تعلیم کے خلاف نئی مہم

دیکھئے مدیر ’جدوجہد‘ فاروق سلہریا کا تجزیہ و تبصرہ بعنوان:’مالاکنڈ یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی: جماعت اسلامی،جمعیت علمائے اسلام کی مخلوط تعلیم کے خلاف نئی مہم‘

پنشن پر شب خون: سرکاری ملازمین کا سرمایہ داری مخالف اتحاد وقت کی اہم ضرورت!

آئی ایم ایف ایک ایسا سامراجی ادارہ ہے جس نے کم و بیش ہر ملک کی معیشت کو اپنے خونی پنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کی کمزور معیشتیں بطور خاص اس کا شکار ہیں۔ یہ ایسا عالمی سود خور ہے کہ عوام دشمن شرائط پر قرض مہیا کرتا ہے اور اس کی واپسی کو یقینی بنانے کے لئے کٹوتیوں اور نجکاری کا باقاعدہ ایک پروگرام ترتیب دیتا ہے۔ جس میں بجٹ خساروں کو کم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ بظاہر یہ پروگرامات معیشتوں کو سہارا دینے کا ذریعہ معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن دراصل یہ ایک مردہ ہوتے نظام کو مصنوعی سانسیں دے کر زندہ رکھنے کی کوشش ہوتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس کی قیمت عوام کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہر قسم کی سبسڈی کا خاتمہ، تیل، بجلی اور گیس کے فلک بوس نرخ، مہنگی ہوتیں اشیائے خورد و نوش، چھانٹیاں، نجکاری اور ہزارہا اقسام کے ٹیکسوں کی بھرمار عوام کا جینا محال کر دیتی ہے۔ وطن عزیز کی گزشتہ سات دہائیوں کی تاریخ یہی المناک داستان بیان کرتی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب محنت کشوں پر معاشی وار نہ کیے جاتے ہوں۔ ان جان لیوا حملوں کی زد میں محکوم ہی آتے ہیں۔ وہ چاہے سرکاری ملازمین ہوں، نجی کارخانوں کے مزدور یا کھیت میں ہل چلاتے کسان و دہقان۔

گرین پاکستان انیشی ایٹو اور کسانوں کے خدشات

سندھ کے قلب میں واقع بھٹ شاہ کے قصبے میں ہزاروں کسانوں نے ایک بڑی زرعی احتجاجی تحریک کا آغاز کیا، جو حالیہ برسوں میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا کسانوں کا احتجاج سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کی جانب سے منظم اور منعقد اس احتجاج میں سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سرائیکی بیلٹ سے تعلق رکھنے والے کسانوں اور ان کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ان کا مشترکہ خوف یہ تھا کہ ان کی زمین، پانی اور مستقبل خطرے میں ہیں۔

بھٹ شاہ: کارپوریٹ فارمنگ اور کینالوں کے خلاف ملک گیر ہاری کانفرنس

٭یہ کانفرنس ماحولیاتی انصاف کا مطالبہ کرتی ہے اور امیر ممالک کی جانب سے فضائی آلودگی پھیلانے کی وجہ سے جو موسمیاتی تبدیلیاں آ رھی ہیں اس سے ہونے والے نقصان کا مداوا کرنے کے کئے کلائمیٹ فنانس ادا کرنے کے وعدہ کو پورا کریں
٭یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ امیروں پر سپر ٹیکس کا فوری نفاذ کیا جائے اور ان ڈائریکٹ ٹیکس کو کم کر کے دس فیصد پر لایا جائے۔

پاکستان میں میڈیا ذرائع کو قید کرنے والی قانون سازیاں

پاکستان میں بھی بھارت، چین، مشرق وسطیٰ اور دیگر پسماندہ خطوں کی طرح میڈیا پر پابندیوں میں مزید سختی آتی جا رہی ہے۔ میڈیا ذرائع پر پابندیاں اور سنسرشپ کوئی آج کے عہد کی بات نہیں ہے۔ میڈیا سے نصاب تک ہر شعبے کو ہمیشہ سے ہی حکمران طبقات کے مفادات کی تکمیل تک کی ہی آزادی میسر رہی ہے۔ اکثریتی عوام کو حکمران طبقات کے مفادات کو تحفظ دینے والے نظام کے حق میں دلیلوں پر مبنی معلومات ہی فراہم کی جاتی رہی ہیں۔ تاہم کہیں نہ کہیں آزادی اظہار کی جدوجہد کی بنیاد پر کچھ گنجائشیں بھی حاصل کی گئیں۔ ساتھ ہی ساتھ کاروباری مقاصد کے لیے ہونے والی میڈیا ذرائع کی ترقی نے میڈیا ذرائع کو اس قدر وسیع کر دیا کہ حکومتوں کے لیے میڈیا کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ماضی کے قوانین ناکافی ہوتے گئے۔یوں میڈیا ذرائع کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان میڈیا ذرائع کو کنٹرول کرنے کے لیے قوانین میں بھی بتدریج تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں۔

کیا جموں کشمیر میں عسکریت پسندی واپس آ رہی ہے؟

عسکریت پسند اور قوم پرست جموں کشمیر میں طویل عرصے سے کام کر رہے ہیں، اور دونوں مختلف وجوہات کی بنیاد پر الگ الگ احتجاج کر رہے ہیں۔ ذرائع نے مجھے بتایا کہ لشکر طیبہ اور جیش محمد پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں موجود ہیں اور دونوں مختلف طرح کی سرگرمیاں کر رہے ہیں۔ لشکر طیبہ نے اپنا سیاسی امیج بنانے کی کوشش شروع کر رکی ہے، جبکہ جیش محمد اپنے جہادی بیانیے پر قائم ہے۔ تاہم دونوں قوم پرست سیاست کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، جو اکثر ان کو مشکلات کا شکار بناتے ہیں۔ 5فروری کا واقعہ اس لیے ان عسکریت پسند گروپوں کے لیے اہم تھا کہ وہ اپنے حلقوں میں خود کو مقبول بنانے کے لیے یہ اشارہ دے سکیں کہ ریاست نے ایک بڑے شو کی منظوری دے دی ہے۔