دنیا بھر میں قومی آزادی کی تحریکیں عموماً طاقتور مقامی تحریکوں اور ان سے ابھرنے والی مضبوط سیاسی قیادت کے گرد مرکوز ہوتی ہیں۔ نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے یہ تحریکیں طویل مزاحمت میں شامل ہوتی ہیں، جو اکثر مسلح جنگ کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور ایک طاقتور نوآبادیاتی مشینری کے خلاف برسر پیکار ہوتی ہیں۔ ایسی تحریکوں میں نوآبادیاتی یا سامراجی غلبے کے خلاف ردعمل میں عوامی مزاحمت کا اظہار ہوتا ہے، جہاں محکوم لوگ نوآبادیاتی نظام کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور ایسے جذبات کو فروغ دیتے ہیں جو اس نظام کو چیلنج کرتے ہیں۔
تاریخ
شہادت سے پہلے کرنل ابو طاہر کا جیل کی کال کوٹھڑی سے خاندان کے نام خط
میں نے اس ملک کی تعمیر کے لیے اپنا خون دیا ہے اور اب میں اپنی جان دوں گا۔ اس کو روشن کرنے دیں اور اس سے ہمارے لوگوں کی روحوں میں نئی طاقت پیدا کریں۔ اس سے بڑا انعام میرے لیے کیا ہو سکتا ہے۔
5 جولائی کا شب خون، ایک تاریخی تناظر میں
کہتے ہیں تاخیر سے مرتب ہونیوالی تاریخ زیادہ مستند ہوتی ہے۔ کیونکہ حکمران طبقے کے حاشیہ بردار اور بکاؤ و ضمیر فروش دانشور حقائق چھپا کر اور اصل حالات و واقعات کو مسخ کر کے قلم زن کرتے ہیں تاکہ حکمران اشرافیہ اور ان کے نظام کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ لیکن خوشبو اور سچ صدا چھپ نہیں سکتے۔ لہٰذا ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ماضی کے چھپائے اور مسخ کیے گئے حقائق اور واقعات اپنی اصل اور حقیقی شکل میں منظر عام پر آ جاتے ہیں۔
ستر کی دہائی، بھٹو اور فلمی صنعت
ایک پھلتا پھولتا سنیما کلچر ایک ایسے معاشرے کی نشاندہی کرتا ہے ،جس میں لوگ تفریح کے ذریعے اپنے مسائل، امیدوں اور خواہشات پر غور و فکر کرتے ہیں۔ ایسا پھلتا پھولتا سنیما کلچر پاکستان میں 70ء کی دہائی میں تھا۔ اس دہائی میں وہ سیاسی بیداری اور سماجی ترقی پسند اقدار واضح تھیں جن کی شروعات 1968 کی عالمی تحریک سے ہوئی تھی۔ اس دہائی میں تاریخ کی سب سے زیادہ فلمیں ریلیز ہوئیں اور پہلی بار سرکاری سطح پر ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں فلمی صنعت کو باقاعدہ پذیرائی ملی۔ یہ دہائی پاکستان میں نئے ٹیلنٹ کی دولت لے کر آئی۔ سنگیتا اور شمیم آرا جیسی خاتون ہدایتکاروں نے فلمی صنعت کے تنوع کو وسیع کیا۔ اردو کے جرائد‘مصور’، ‘شمع’، ‘ممتاز’ اور‘دھنک’ نے فلموں کے متعلق پڑھنے کا مواد فلم بینوں تک پہنچایا۔
جموں کشمیر: ’قرارداد الحاق پاکستان‘ ایک حقیقت یا افسانہ؟
19 جولائی کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت اور پاکستان نواز جماعتیں ’یوم الحاق پاکستان‘ کے طور مناتی ہیں۔ اس دن اس خطے میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ مسلم کانفرنس اور سردار ابراہیم کے حامی خود کو اس قرار داد کا محرک قرار دیتے ہیں۔ وہ اس بات کو فخر سے جتلاتے ہیں کہ وہ بائی چوائس پاکستانی ہیں، اورانہوں نے پاکستان بننے سے قبل پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ سابق صدورسردار ابراہیم، سردار عبدالقیوم اور ان کے چاہنے والوں کا دعویٰ رہا ہے کہ 19 جولا ئی 1947 کو مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل نے سردار ابراہیم کے سری نگر میں واقع گھر میں الحاق پاکستان کی قرار داد منظور کی اور 24 اکتوبر 1947 کی حکومت کی بنیاد اسی قرارداد کو ہی قرار دیا جاتا رہا ہے۔
کرامت علی: ’امن کا پاکستانی پیامبر، جو میرے دادا کی راکھ واہگہ پار لے گیا‘
ب 2019 کے اوائل میں کرتار پور ویزا فری کوریڈور کا سنگ بنیاد رکھنے والے انڈیا کے ایک وفد کے حصہ کے طور پر پاکستان جانے کا ارادہ کر رہی تھی،تو میں نے کرامت صاحب کو فون کر کے پوچھاکہ کیا میں ان کیلئے دہلی سے کچھ لا سکتی ہوں۔ انہوں نے اپنے دوست کے لیے ہومیو پیتھک دوائیاں مانگیں۔ یہ ایک ایسی دوا تھی جس نے کرامت صاحب کے لیے حیرت انگیز کام کیا تھا، اور کراچی میں دستیاب نہیں تھی۔
جب بھٹو کی پولیس نے مزدوروں پر گولی چلائی، کراچی 13 دن بند رہا
”ہماری تحریک صرف تنخواہ میں اضافے کے لئے نہیں تھی۔ہم مزدور کے لئے احترام چاہتے تھے۔ کراچی 1972 میں مزدوروں کا شہر تھا، یہ ایک الگ قسم کی طاقت تھی، یکجہتی تھی جس نے حکومت کو سننے پر مجبور کیا۔کراچی کو دوبارہ مزدوروں کا شہر بنانے کی ضرورت ہے۔“
کرامت علی: یادوں کا نہ رکنے والا سلسلہ
کرامت علی کے رخصت ہونے سے پاکستان اور ساؤتھ ایشیا کے محنت کش طبقات ایک بہترین استاد، محقق، ٹریڈ یونین کے ممتاز رہنما، مارکسی نظریات پر عبور رکھنے والے دانشور اور آگے بڑھ کر جدوجہد کرنے والے سے محروم ہو گئے ہیں۔ وہ ایک بہت اچھے شفیق اور نفیس انسان تھے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ وہ مارکسزم کو عوامی سطح تک لے جانے میں تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے۔
الوداع کامریڈ کرامت علی!
نہ مارکسزم ختم ہو گا، نہ تاریخ ختم ہو گی… سماج کو سمجھنے کے لئے مارکسزم کا علم ہی سب سے زیادہ موزوں اوزار ہے۔ ہر استحصال زدہ انسان کو گلوبلائزیشن، سامراجی نظام اور دنیا بھر میں لاگو سرمایہ دارانہ پالیسوں کو سمجھنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے مارکسزم کے اوزار کو بروئے کار لانا ہو گا۔ پاکستان بھر کے مزدوروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر جدوجہد کرنا ہو گی۔ بھارت، سری لنکا، پاکستان اور جنوب ایشیا بھر کے محنت کشوں کی تنظیموں اور ٹریڈ یونینوں کو مل کر جدوجہد کا لائحہ عمل بنانا ہو گا۔ جنوب ایشیا بطور خاص بھارت اور پاکستان کو ایک دوسرے کے خلاف جنگی جنون کے خاتمے اور دوستی اور امن کی طرف بڑھنا ہو گا۔ مذکورہ بالا سوچ کا مبلغ اور زندگی بھر مزدوروں کے حقوق کے لئے بے تکان جدوجہد کرنے والا کرامت علی، جسے اس کے ساتھی اور عام محنت کش چاچا کرامت کے محبت بھرے نام سے جانتے تھے، اپنی طبعی عمر گزار چل بسا!
دینا ناتھ کا کنواں
دینا ناتھ کی لاہور میں اور بھی کئی عمارتیں تھیں۔ کہنیالال نے دینا ناتھ کی دو حویلیوں کے علاوہ ان کے بنوائے ہوئے شوالے کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ جن میں سے ایک شوالہ کوتوالی کے پاس بنوایا گیا تھا ،جبکہ دوسرا مسجد وزیر خان کے قریب کہیں واقع تھا۔ نیز نقوش ‘لاہور نمبر’ میں دینا ناتھ کے ایک وسیع باغ کا بھی ذکر ہے۔ لیکن اب یا تو صرف ان کا بنوایا یہ کنواں موجود ہے یا فقط ان کی ایک حویلی کے کچھ آثار باقی ہیں۔