تاریخ


بھگت سنگھ تو زندہ ہے انقلاب کے نعروں میں

23 مارچ کا دن ان عظیم انقلابیوں اور بہادر شہیدوں کی یاد میں منایا جاتا ہے، جنہوں نے آزادی اور سوشلزم کے پرچم کو سر بلند رکھنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ آج سے تقریباً 94 برس قبل، ظلم و جبر کی تاریک راہوں سے گزر کر سرخ پھریرا لہرانے والے وہ عظیم نوجوان، جن کا رہنما بھگت سنگھ تھا، تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ راج گرو اور سکھ دیو وہ انقلابی ساتھی تھے، جنہوں نے تختہ دار تک بھگت سنگھ کا ساتھ دیا اور اپنے نظریے کا بھرپور دفاع کیا۔

بھگت سنگھ: بہروں کو سنانے کے لئے اونچا بولنا پڑتا ہے

کارکنوں نے ہمیں ان کی سیکولرازم اور آزادی کیلئے جدوجہد کی یاد دلائی اور یہ بتایا کہ کس طرح جناح نے قانون ساز کونسل میں انکا دفاع کیا تھا، جبکہ مذہبی دائیں بازو کی طرف سے چوک کا نام تبدیل کرنے کے خلاف دھمکیاں دی گئیں۔ میڈیا میں ان (مذہبی دائیں بازو)کے زیادہ واضح نظریات رکھنے والوں نے نہ صرف اس اقدام کے خلاف بھگت سنگھ کی شخصیت اور جدوجہد کے خلاف بھی مضامین لکھے۔ ان کے نزدیک وہ ایک ’ہندوستانی‘ دہشت گرد تھے،جنہوں نے ہندو احیاء کیلئے بھی کام کیا، وہ ہم میں سے نہیں تھے اور جناح نے کبھی ان کا دفاع نہیں کیا، بلکہ درحقیقت ان کی جدوجہد کی مذمت کی۔

نوجوان سیاسی کارکنوں کو بھگت سنگھ کا پیغام

آپ کو انتہائی دھیمی رفتار سے آگے بڑھنا ہو گا جس کے لئے ہمت اور مضبوط عزم کی ضرورت ہے۔ مشکلات اور مصیبتیں آپ کو مایوس نہ کریں۔ نہ ہی ناکامی اور غداریوں سے دل برداشتہ ہوا جائے۔ جتنی بھی مشقت کرنی پڑے، آپ کے اندر کا انقلابی مرنا نہیں چاہیے۔ مصائب اور کامیابیوں کے اس امتحان سے گزر کر ہی آپ کامیاب ہو ں گے، اور آپ کی ذاتی فتح ہی انقلاب کا اثاثہ ثابت ہو گی۔

بھگت سنگھ کون تھا؟

1۔ آزادی کے اس ہیرو کے نام پر اس چوک کا نام بھگت سنگھ چوک رکھا جائے۔
2۔ بھگت سنگھ کی جدوجہد کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے۔ پاکستان کی نصابی کتابوں میں بھگت سنگھ سمیت آزادی کے بیشتر غیر مسلم ہیروز کا تذکرہ کم ہی ملتا ہے، بھگت سنگھ مذہبی نوجوان نہیں تھا۔ وہ ایک انقلابی نوجوان تھا۔ مذہبی بنیادوں پراس کی انگریز سامراج کے خلاف برصغیر کی آزادی کی جدوجہد کی مخالفت کرنا درست نہیں ہے۔
3۔ بھگت سنگھ بہادری کی ایک درخشان مثال تھا۔ بھگت سنگھ آزادی کا ہیرو ہے، اور اسے پاکستانی حکومت سرکاری طور پر قومی ہیرو تسلیم کرے۔

یوکرین متھ سیریز…متھ نمبر 2: نئی حکومت نے 2014ء میں روسی زبان پر پابندی لگا دی

ابتدائی طور پر یانوکووچ کے زوال کے بعد پارلیمنٹ نے اس نئے زبان کے قانون کو منسوخ کرنے کی کوشش کی جسے یانوکووچ نے صرف دو سال قبل 2012 میں متعارف کرایا تھا۔ اسے ختم کرنے کا پارلیمنٹ کا مقصد پچھلے قانون کی طرف لوٹنا تھا،جو 1990 کی دہائی کے اوائل میں یوکرین کی آزادی کے بعد سے 1996 کے آئین پر مبنی تھا۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا 1994تا2012 کے لسانی ڈھانچے کی طرف لوٹنا شاید ہی کوئی بنیاد پرست روسی زبان مخالف قدم تھا۔ یہ محض دوسری سمت میں حالیہ بنیاد پرست تبدیلی کو ہٹانے جیساتھا۔ تاہم یہ تبدیلی بھی نہیں ہوئی، کیونکہ اسے نگراں صدر نے ویٹو کر دیا تھا۔ یانوکووچ کا بنیادی طور پر 2012 کا روس نواز قانون 2019 تک قانون ہی رہا۔

لال خان: کچھ یادیں، کچھ باتیں

پراپیگنڈہ اور پارٹی کی تعمیر میں لینن کے طریقہ ہائے کار کو وہ نئی بلندیوں پر لے گئے۔ تنظیم سازی کے عمل کو اعلیٰ ثقافتی معیار سے روشناس کروایا۔ پاکستان جیسے معاشروں میں قومی سوال جیسے پیچیدہ مسائل پر مارکسی نقطہ نظر کو ایک نیا نکھار دیا۔ آج انقلابیوں کی نئی نسل کا فریضہ یہی ہے کہ وہ ان کی جدوجہد کو آگے بڑھائیں اور اس نصب العین تک پہنچائیں جس کے لیے لال خان کی تمام زندگی وقف رہی۔ سچے جذبوں کی قسم‘ آخری فتح ہماری ہو گی۔ انقلاب زندہ باد!

لال خان: افکار تیرے ہونے کی گواہی دینگے!

سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کی ہر غلاظت کا خاتمے اورایک حقیقی انسانی معاشرے کے قیام کے ذریعے ہی ’ڈاکٹر لال خان‘ کی لازوال جدوجہد کو حقیقی خراج پیش کیا سکتا ہے۔

مقبول بٹ کا یوم شہادت: 11 فروری کو دنیا بھر میں اجتماعات کیوں منعقد ہوتے ہیں؟

مقبول بٹ شہید جموں کشمیر کی جدوجہد آزادی کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے دنیا بھر کی تحریکوں کا بغور تجزیہ کر رہے تھے۔ اس وقت لاطینی امریکہ سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں آزادی اور انقلاب کی جدوجہد کا معروف طریقہ گوریلا جدوجہد کو سمجھا جاتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ مقبول بٹ نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ محاذ رائے شمار کا انڈر گراؤنڈ عسکری فرنٹ ’نیشنل لبریشن فرنٹ‘ (این ایل ایف) کے نام سے قائم کیا اور عسکری جدوجہد کو منظم کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ اس دوران وہ دو بار سیز فائر لائن عبور کر کے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر گئے۔ جون 1966میں مقبول بٹ شہید دیگر ساتھیوں کے ہمراہ سیز فائر لائن عبور کر کے کپواڑہ میں گئے۔ وادی میں ایک سی آئی ڈی انسپکٹر کے اغواء اور قتل کے الزام میں انہیں گرفتار کیا گیا اور دو سال بعدانہیں پھانسی کی سزا دی گئی۔

عبداللہ بٹ کی جدوجہد جاری رہے گی

عبداللہ بٹ راوی ریان فیکٹری میں ملازم رہے ہیں۔ یہ فیکٹری اس وقت سرکاری فیکٹری تھی۔ عبداللہ بٹ وہاں ٹریڈ یونین رہنما تھے اور غلام دستگیر محبوب کے ساتھ کم کرتے تھے۔فیکٹری کی نجکاری کے خلاف تحریک کے دوران عبداللہ بٹ کے ساتھ ہمیں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ عبداللہ بٹ کے تین بیٹے ہیں۔ ان کے بیٹے حیدر علی بٹ حقوق خلق پارٹی کے نائب صدر اور پراگریسیو ڈیموکریٹک لائرز فورم کے مرکزی رہنما ہیں۔ وہ پچھلے عرصہ میں ملک بھر میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے چلنے والی مقبول طلبہ تحریک کے بھی مرکزی رہنما تھے۔ ان کے دوسرے بیٹے علی شیر بٹ پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو کے رہنما ہیں۔

تم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اداس بہت ہے

عمانوئیل سرفراز کے دل نے گذشتہ روز مزید دھڑکنے سے انکار کر دیا۔پاکستانی معیار کے مطابق بھی،جہاں اوسط عمر ستر بہتر تک پہنچ چکی ہے، دل نے اپنا فرض منصبی بیس تیس سال پہلے ہی سر انجام دینا بند کر دیا۔ عمانوئیل سرفراز کا دل دھڑکنے پر آ مادہ بھی رہتا تو زیادہ فرق نہیں پڑنا تھا۔ اس کے گردے بھی ناکام ہو چکے تھے۔