مسعود قمر
(اپنی دوست رفعت ناہید کے نام)
اپنے سیکسوفون پہ
تم کبھی بھی گیت گا سکتے ہو
اس ندی پہ
جس کے پانی کے چھینٹے
ہم، ایک دوسرے پہ پھینکتے تھے
تم گیت گانا
اس مسنگ پرسن کے لئے
جس کے منہ، ناک، کانوں
اور
آنکھوں میں پہلے ریت بھری گئی
اور
پھر گولی مار دی گئی
جیسے
سپاہی مشق کے دوران
ریت بھری بوریوں میں
بندوق کی گولیاں خالی کرتے ہیں
تم
گیت گانا ان چونٹیوں پہ
جو روٹی کو گھسیٹ گھسیٹ کر
پورے دن کے
بھوکے بچے کے پاس لے کر آئیں
تم ایک گیت
گاؤں پہ اترتی اس شام پہ گانا
جب
گاؤں کی چکی کی کو کو
اور
آم کے پیڑوں
میں چھپی
کوئل کی کو کو
ایک ہی غزل کامطلع بن کر جھٹپٹا تخلیق کرتی ہے
تم
میری خاطر
ایک گیت
اس اداس کتاب کے لیے بھی گانا
جس میں
لکھنے والوں کی خودکشیاں
اور
قتل کی رودادیں
انھی کے خون سے لکھی گئی ہیں