اے نظام کہن کے فرزندو
شاعری
ہے قلم ہاتھ میں کسی جنگجو کی جھلک رکھتا ہوں
دل میں آگ لیے لہروں کی تڑپ رکھتا ہوں
داستان دل دو نیم
اک حسیں گاؤں تھا کنار آب
بچوں کی سرکار
بڑوں کا راج تو صدیوں سے ہے زمانے میں
اپنی جنگ رہے گی
جب تک چند لٹیرے اس دھرتی کو گھیرے ہیں
اے مرے بے درد شہر
دل سلگ اٹھتا ہے اپنے بام و در کو دیکھ کر
ردائے زخم ہر گل پیرہن پہنے ہوئے ہے
جسے دیکھو وہی چپ کا کفن پہنے ہوئے ہے
اے میرے سارے لوگو
اب مرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
ہارٹ اٹیک
درد اتنا تھا کہ اس رات دل وحشی نے
دھرتی کی سلگتی چھاتی سے بے چین شرارے پوچھتے ہیں
تم لوگ جنہیں اپنا نہ سکے وہ خون کے دھارے پوچھتے ہیں