پاکستان


بلوچستان میں سکیورٹی کی ناکامیوں کا ملبہ لیویز پر ڈالنے کا عمل

گزشتہ ہفتے وزیراعلیٰ بلوچستان نے بلوچستان لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کا اعلان کرکے تنازعہ کھڑا کردیاہے ۔ اس اقدام نے صوبے بھر میں خدشات اور بحث کو جنم دیا ہے۔ اس بیانیے کو ہوا دیتے ہوئے، ایک نیوز اینکر نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ لیویز 92 ارب روپے خرچ کر رہی ہے، جو کہ حقیقت میں بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کا مشترکہ بجٹ ہے۔ اس گمراہ کن معلومات نے پہلے سے ہی نازک مسئلے میں مزید الجھنیں بڑھا دی ہیں۔ اس اقدام کے پیچھے صوبے میں سکیورٹی ناکامیوں کے لیے لیویز فورس کو قربانی کا بکرا بنانے جیسا ایک خطرناک رجحان ہے۔

ماہ رنگ بلوچ، نہیں لانگو: روزنامہ جنگ کی شاندار تحقیق

بعض پاکستانی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو ‘ماہ رنگ لانگو’لکھتے ہیں۔ پہلے مجھے سمجھ نہیں آیا کہ اس کا مقصد کیا ہے۔ پھر پاکستان کے سب سے بڑے اخبار ‘جنگ’ نے میری ‘کنفیوژن’ دور کردی ۔ روزنامہ جنگ نے 17 مارچ 2025 کو شکیل انجم نامی ایک ‘دیدہ ور’ کا کالم شائع کیا ۔ کالم کا عنوان تھا:’بی ایل اے میں شامل دہشت گرد بلوچ نہیں لانگو ہیں۔’

”بھگت سنگھ کے نظریہ اور میراث کی پاکستانی نصاب میں جگہ“

بھگت سنگھ اور ان کی میراث کو ہماری نصابی کتب میں شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مزید برآں، ماہرین تعلیم کو بھی اپنے مقامی ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تحقیق کرنے اور مقامی بیانیہ تیار کرنے کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے، چاہے ان کے عقائد کچھ بھی ہوں۔ حکومت کو یادگاری طور پر کم از کم ایک تاریخی نشان کا نام بھگت سنگھ کے نام پر رکھنے کی پہل کرنی چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں کو مقامی انقلابی کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔

بھگت سنگھ: وہ تاریخ جو مٹ نہیں سکتی!

بھارتی حکمران طبقے کی جانب سے بھگت سنگھ کی بالواسطہ کردار کشی یہاں کی نسبت زیادہ افسوسناک ہے۔ یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ کچھ مہینے پہلے درندہ صفت ہندو بنیاد پرست اور بھارتی سرمایہ داروں کے محبوب سیاستدان نریندرا مودی کو بھگت سنگھ کی آپ بیتیوں پر مبنی ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں خصوصی مہمان کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اپنی شہادت کی سات دہائیوں بعد بھی بھگت سنگھ نوجوانوں میں مقبول ہے اور دایاں بازو اسی مقبولیت کو کیش کروانے کی کوشش کررہا ہے۔ دائیں بازو کی طرح کانگریس اور اصلاح پسند بایاں بازو بھی ’’تبدیلی‘‘ کی لفاظی اور سیاسی شعبدے بازی کے لئے بھگت سنگھ کے نام کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن حکمران طبقے کے مختلف حصوں کی یہ بیہودہ چالبازیاں بھگت کے حقیقی نظریاتی ارتقا پر پردہ نہیں ڈال سکتی ہیں۔ موت کے وقت وہ اپنی سیاسی زندگی کے اس نظریاتی نچوڑ اور نتیجے پر چٹان کی طرح قائم تھا کہ برصغیر کے عوام کی نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔

بلوچستان: قومی آزادی کی تحریک یا بیرونی سازش

بلوچستان میں 11 مارچ کو جعفر ایکسپریس کی بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے ہائی جیکنگ کے واقعے نے بلوچستان کے مسئلے کو ایک مرتبہ پھر ملکی اور عالمی میڈیا میں موضوع بحث بنایا ہوا ہے۔اس سے پہلے لاپتہ افراد کی بازیابی جیسے جمہوری مطالبے پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں چلنے والی پرامن سیاسی تحریک نے پاکستان کے محنت کشوں اور مظلوم قوموں سمیت ساری کے دنیا کے محنت کشوں کی توجہ اور بڑی حد تک حمایت حاصل کی تھی۔بلوچ خواتین کی قیادت میں زندہ رہنے جیسے انسانی حق کے لیے چلنے والی تحریک کے جمہوری مطالبات کو ریاست نے تسلیم کرنے کی بجائے جس طرح تشدد اور جبر کی بنیاد پر بے رحمی سے کچلنے کی کوشش کی،اس نے بلوچ مسلح جدوجہد کی جانب نوجوانوں کے رجحان میں اضافہ کیا ہے۔

جموں کشمیر میں جنسی استحصال کے خلاف بغاوت

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتی اور ہراسانی کے معاملات میں اضافہ اس نوآبادیاتی نظام کی ناکامیوں کا واضح اظہار ہے۔ ان واقعات نے خواتین کے خلاف تشدد کو جواز فراہم کرتے نظام کی سفاکیت سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ وہ ادارے جن کا مقصد عوام کو سہولت اور تحفظ فراہم کرنا ہے،انہی کے ہاتھوں اب عام شہریوں کی عزتیں تک محفوظ نہیں ہیں۔

پاکستانی معیشت: بحران کا استحکام!

پاکستانی سرمایہ داری ایک ایسی تاریخی تاخیرزدگی اور متروکیت کا شکار ہے کہ اس میں جزوی بہتری و بحالی ایک نئے بحران کا پیش خیمہ ہی بنتی ہے۔ بظاہر ’’ترقی‘‘ کے ادوار میں بھی محنت کشوں کے روز و شب تلخ اور تاریک ہی رہتے ہیں۔ اس تلخی اور اذیت کی صرف صورتیں بدلتی رہتی ہیں اور شدت کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کا اقتدار واضح کرتا ہے کہ ترقی یافتہ ترین سرمایہ دارانہ معاشرے بھی کیسی ابتری اور انتشار کا شکار ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ کا اقتدار ناگزیر طور پر پوری دنیا کو ایک نئے ہیجان میں مبتلا کرے گا۔ جس کے سامنے پاکستان جیسی معیشتوں کے جعلی استحکام کی حیثیت تنکوں سے زیادہ نہیں ہے۔

کامریڈ لال خان کی یادیں۔ ۔ ۔

ان کے تمام افعال، میل جول اور غور و فکر ”طبقاتی جدوجہد“ اور اس کے ذریعے انقلابی سوشلزم کی قوتوں کو مضبوط بنانے کیلئے ہوتے تھے۔ ان کی سوچ اور عمل پر ”طبقاتی جدوجہد“ حاوی رہی اور یہی انہوں نے ہمارے لیے ترکہ چھوڑا۔

پنشن پر شب خون: سرکاری ملازمین کا سرمایہ داری مخالف اتحاد وقت کی اہم ضرورت!

آئی ایم ایف ایک ایسا سامراجی ادارہ ہے جس نے کم و بیش ہر ملک کی معیشت کو اپنے خونی پنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کی کمزور معیشتیں بطور خاص اس کا شکار ہیں۔ یہ ایسا عالمی سود خور ہے کہ عوام دشمن شرائط پر قرض مہیا کرتا ہے اور اس کی واپسی کو یقینی بنانے کے لئے کٹوتیوں اور نجکاری کا باقاعدہ ایک پروگرام ترتیب دیتا ہے۔ جس میں بجٹ خساروں کو کم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ بظاہر یہ پروگرامات معیشتوں کو سہارا دینے کا ذریعہ معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن دراصل یہ ایک مردہ ہوتے نظام کو مصنوعی سانسیں دے کر زندہ رکھنے کی کوشش ہوتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس کی قیمت عوام کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہر قسم کی سبسڈی کا خاتمہ، تیل، بجلی اور گیس کے فلک بوس نرخ، مہنگی ہوتیں اشیائے خورد و نوش، چھانٹیاں، نجکاری اور ہزارہا اقسام کے ٹیکسوں کی بھرمار عوام کا جینا محال کر دیتی ہے۔ وطن عزیز کی گزشتہ سات دہائیوں کی تاریخ یہی المناک داستان بیان کرتی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب محنت کشوں پر معاشی وار نہ کیے جاتے ہوں۔ ان جان لیوا حملوں کی زد میں محکوم ہی آتے ہیں۔ وہ چاہے سرکاری ملازمین ہوں، نجی کارخانوں کے مزدور یا کھیت میں ہل چلاتے کسان و دہقان۔