پاکستان

[molongui_author_box]

دریاؤں کا عالمی دن اور کراچی کا ملیر دریا

ہر سال14مارچ دنیا میں دریاؤں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دریاؤں اورندیوں کی زندہ حیثیت تسلیم کی گئی ہے اور ان کے حفاظت کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ندیوں کی بدولت دریاؤں کا جنم ہوتا ہے اور اگر ندیاں باقی نہ رہیں تو دریا بھی ختم ہو جائیں گے۔ آج دنیا ندیوں اور دریاؤں کو زندہ حیثیت سے نظام کائنات کا اہم ستون تسلیم کر چکی ہے۔ مگر افسوس کہ آج کراچی کو آکسیجن مہیا کرنے والے ملیر کو زندگی کی علامت دینے والی ملیر ندی کو سرکار کی سرپرستی میں موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔

نواز شریف کا وزیر اعظم نہ بننا عمران خان کے لئے بد شگونی ہے

نوے میں وزیر اعظم بننے کے بعد، نواز شریف نے سچ مچ اپنے لئے ایک سماجی بنیاد حاصل کر لی،گو وہ 1993 کا انتخاب ہار گئے۔ ایک اور مماثلت۔نواز شریف کونکالا تو گیا مگر وہ دو مرتبہ پھر وزیر اعظم ہاوس میں واپس آ گئے۔ ان کے بارے میں مشہور ہوا کہ وہ وزیر اعظم ہاوس میں آتے تو فوج کے ساتھ دوستی کر کے ہیں،جاتے لڑائی کر کے ہیں۔ فوج نے اس کا حل یہ نکالا کہ اب وزیر اعظم کی کرسی پر ان کے بھائی کو بٹھا دیا ہے۔

سکولوں کے دورے امیج بلڈنگ کی افسوسناک کوشش ہیں

پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنتے ہی مریم نواز شریف نے اپنی امیج بلڈنگ کے لئے وہی گھسے پٹے طریقے آزمانے شروع کئے ہیں جو اکثر حکمران،بالخصوص شریف فیملی والے، اقتدار سنبھالتے ہی کچھ دن آزماتے ہیں۔ ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے کہ مریم نواز کچھ سکولوں کے دورے کرتی ہیں اور بچوں سے کچھ سوال جواب کرتی ہیں۔

شہباز حکومت آخری سانس لیتی ہوئی جمہوریت کا ماتم ہے

اسی سوچ کے تحت شہباز شریف نے اپنا پہلا دور وزارت گزارا۔ اس کا صلہ انہیں دوسری باری کی صورت میں ملا۔ شریف خاندان نے ممکن ہے گذشتہ دو سالوں کا فائدہ اٹھا کر اپنے کاروباری معاملات بھی درست کر لئے ہوں مگر یہ طے ہے کہ پنجاب کا تخت بھی ایک مرتبہ پھر ان کے زیر پایہ ہے۔ خاندان بھر کے افراد جن مقدمات کا سامنا کر رہے تھے، وہ بھی ختم ہو گئے۔ پیپلز پارٹی بھی ایک عرصے سے سندھ میں اپنی حکومت بچانے کے لئے فوج کی ہر بات پر لبیک بولتی ہے۔

اچھرہ، الیکشن اور عظیم تجزیہ نگار

ووٹ مولوی کی مقبولیت کا بھی پیمانہ نہیں۔ ووٹ پی ٹی آئی کو ملے یا مسلم لیگ کو، یہ ملتا بہرحال مولوی اور فوجی کو ہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کا معاملہ ذرا ٹیڑھا ہے۔ دونوں کا ریکارڈ یہ ہے کہ مولوی کے پاؤں پڑے رہتے ہیں، اس کی ہر بات مانتے ہیں مگر مولوی ان دونوں کو دائرہ اسلام سے خارج ہی سمجھتا ہے۔ قصہ مختصر، مولوی فوجی کی طرح سب سے طاقتور سیاسی جماعت بھی ہے اور سب سے مقبول بھی۔

’ہم جہالت ختم نہیں کر سکتے، بہتر ہے آپ اس لاعلمی پر معافی مانگ لیں‘

اس ریاست نے ایک بار پھر یہ واضح کیا ہے کہ لوگوں کے جان، مال اور عزت کے تحفظ کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کا حوصلہ اس ریاست کے ناتواں کندھوں میں نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں لوگ کچھ بھی لکھنے اور بولنے سے قبل یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کہیں ان کی بات ریاست کے مقدس اداروں کی طبیعت پر گراں نہ گزر جائے، وہیں انہیں یہ بھی خود ہی سوچنا ہوگا کہ ان کی کہی یا لکھی گئی بات کسی ہجوم کی طبیعت پر بھی گراں نہ گزر جائے۔

ملک ریاض بطور چاہت فتح علی خان

اس اشرافیہ کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس کے پاس خود سے بھی زیادہ رجعتی،جعلی،سوچ دشمن درمیانہ طبقہ موجود ہے جو بڑے فخر سے بحریہ میں رہتا ہے اور ہاوس وارمنگ کے موقع پر دوستوں رشتے داروں کو دعوت پر بلائے تو پڑوس والے بلاک کی سیر بھی کراتا ہے جہاں ملک ریاض نے ایفل ٹاور بنا رکھا ہے۔

الیکشن 2024ء: بغاوت لیکن کس کے خلاف؟

پاکستان کے معاشی مسائل کو اگر دو لفظوں میں سمویا جائے تو وہ ہیں: داخلی و خارجی قرضوں کی دلدل اور ملکی وسائل پر حکمران اشرافیہ کا مکمل کنٹرول۔ جس ملک میں قرضوں کا سود ادا کرنے کیلئے مزید قرضے لینا پڑیں اور اصل قرضوں کے حجم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہوں، وہاں اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے اسی طریقہ کار کے تحت اصلاح احوال کی کوئی بھی کوشش کیونکر کامیاب ہو سکتی ہے؟

سوشلسٹ نظریات کا دفاع اور موقع پرستوں کی تنقید

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بجلی کی پیداواری قیمت پر فراہمی، آٹے پر سبسڈی فراہم کر کے قیمت گلگت بلتستان کے برابر مقرر کرنے اور حکمران اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کے لیے گزشتہ 9 ماہ سے جاری تحریک مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے پانچ فروری کے بعد ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت نے 4 فروری کو رات گئے مذاکرات کرتے ہوئے عوامی مطالبات میں ردوبدل اور حکمران اشرافیہ سے سمجھوتا کیا تو 5 فروری کو محنت کش عوام نے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر آ کر نہ صرف حکمرانوں کو پیغام دیا بلکہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت کو بھی ٹارگٹڈ سبسڈی نامنطور کے نعروں کے ذریعے یہ باور کروایا کہ عوامی مطالبات پر کسی قسم کا سمجھوتا قبول نہیں کیا جائے گا۔

الیکشن کمپئین، نتائج اور آگے کا لائحہ عمل

پی پی 160 میں حقوق خلق پارٹی نے ایک شاندار انتخابی مہم چلائی جس کو علاقے اور قومی میڈیا پر سراہا گیا۔ لیکن اس بھرپور کیمپین کے نتیجے میں ہمیں صرف 1573 ووٹ ملے جو ہماری محنت کی عکاسی نہیں کرتی۔ آخری دنوں میں ووٹوں کی خرید و فروخت، انتظامیہ کی طرف سے پولنگ ڈے پر دھاندلی، انٹرنیٹ کی بندش اور ہماری الیکشن ڈے کی کمزوری کی وجہ سے بھی ہمارا ووٹ ضائع ہوا۔ لیکن پھر بھی کیمپین کی توانائی اور ووٹوں میں فرق کا حقیقت پر مبنی گہرا سیاسی اور نظریاتی جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے پیش نظر ہم باائیں بازو کو آگے بڑھا سکیں۔