ماحولیات


سموگ: سرمایہ داری کا ایک اور ’’تحفہ‘‘

مختصر یہ کہ یہ سماج آج سرمایہ داری کے تحت کسی بہتری اور آسودگی کیساتھ نہیں چل سکتا۔ ایک مسئلہ بالفرض حل بھی ہوتا ہے تو اس سے کہیں بڑا مسئلہ سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ اگر یہ معاشرہ انہی خطوط پر آگے بڑھتا رہا تو نسل انسان کی ہزاروں سالوں کی تہذیب کا اگلا پڑاؤ تباہی ہے۔ یوں سرمایہ داری کا انقلابی خاتمہ انسانیت کے وجود کی بنیادی شرط بن چکا ہے۔

پگھلتا سیارہ

ہر سال بڑھتا ہوا درجہ حرارت کسی ایک ملک یا خطے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ اس سیارے پر موجود انسانی نسل کی بقا کو لاحق بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ موسم اور موسی واقعات شدید ہوتے جا رہے ہیں۔حالیہ دنوں میں جنوبی امریکہ میں شدید بارشوں کی وجہ سے 90 لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ دبئی اور اس کے ہمسایہ ممالک میں شدید بارشوں سے سیلاب آ گئے۔ موسمی حالات کی وجہ سے صرف برازیل میں ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ جنوبی افریقہ کو شدید خشک سالی کا سامنا ہے۔ لوگ اپنی روزمرہ زندگی کے لیے پانی کو ترس گئے ہیں۔ سعودی عرب اور عمان جیسے گرم علاقوں سے زیادہ گرمی جنوب ایشیا کے ملکوں میں پڑ رہی ہے۔ دہلی کا درجہ حرارت دبئی سے بڑھ رہا ہے۔

انسان اور ماحول کے درمیان تعلق اور پیچیدگیاں

انسان ایک سماجی جانوار ہے اور زمین پر موجود باقی نسلوں کی طرح ہی ایک نسل ہے اور فطرت کے قوانین کے مطابق ہی ارتقائی عمل کا حصہ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ انسان جو فطرت کا ہی ایک مادی اظہار ہے اور اس فطرت کے ایک جزو زمین کے اجتماعی حالات (ماحول) کے مابین براہ راست تعلق میں ہے ،یعنی اس پرانحصار بھی کرتاہے اور اس میں گنجائش بھی نکال رہا ہے۔ آخر ہم براہ راست صرف اس کا ہی ماحول کے ساتھ تعلق کیوں بیان کر رہے ہیں ۔یہ تمام وہ سوالات ہیں جو فطرت اور اس کے ماحول کا براہ راست انسان کے ساتھ تعلق اور ان کے تعلق میں موجود پیچیدگیوں کی گتھی کو سلجھائیں گے۔ آئیں ہم ایک سفر پر چلیں جہاں ہم تجربہ اور مشاہدہ کی مثالوں کے نتیجہ میں ان تمام تر سوالات کا حل دیکھنے کی کوشش کر سکیں۔

سرمایہ داری کی ماحولیاتی تباہی: سانس لینا بھی مضرِ صحت ہے!

تیل اور گیس سے وابستہ اجارہ داریوں کو اشتراکی تحویل میں لئے بغیر فاسل فیولز کو ”فیز آؤٹ“ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح بینکنگ اور فنانس، توانائی کے حصول، صنعتی پیداوار اور سروسز کے کلیدی شعبوں کو اجتماعی ملکیت اور محنت کشوں کے کنٹرول میں دئیے بغیر ”گرین انرجی“ کے استعمال کو عام نہیں کیا جا سکتا۔ سمندر اور زراعت سے خوراک کے حصول اور پراسیسنگ کے دیوہیکل نظام کو بھی تبھی انسانی صحت اور ماحولیاتی تحفظ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے جب اس میں سے گھر کے باورچی خانے کی طرح منافع کا عنصر نکال دیا جائے۔ لاکھوں کروڑوں گاڑیوں پر مبنی بے ہنگم نجی ٹرانسپورٹ کی جگہ آرام دہ اور سستی پبلک ٹرانسپورٹ لے گی تو شہر بھی اجلے، کھلے اور صاف دکھائی دیں گے۔ انہی سوشلسٹ بنیادوں پر انسان ایک مکمل بربادی سے بچ کے فطرت کو اپنے تابع کر سکتا ہے۔ اور سوشلزم کا انسان جب فطرت کو اپنے تابع کرے گا تو اسے بگاڑنے اور مسخ کرنے کی بجائے اور بھی زیادہ خوبصورت بنائے گا اور انسانیت ایسی فضا میں سانس لے سکے گی جس میں دم نہیں گھٹے گا بلکہ رگ و پے میں نئی زندگی دوڑ جائے گی۔