نقطہ نظر


بحران ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں: عالمی صورتحال پر چوتھی انٹرنیشنل کا بیان

سرمایہ دارانہ بحران کو کثیر الجہتی قرار دینے کا مطلب ہے کہ یہ بحرانوں کا سادہ سا پشتارہ نہیں ہے، بلکہ ایک جدلیاتی طور پر مربوط مجموعہ ہے، جس میں ہر دائرہ دوسرے دائرے پر اثر اندازہ ہوتا ہے اور دیگر کے اثرات کو قبول کرتا ہے۔ یوکرین کی جنگ (فلسطین کے تنازعے کے پھوٹنے سے قبل) اور معاشی جمود کے درمیان تعلق نے دنیا کے غریب ترین لوگوں کے لئے خوراک کے حصول کی نازک صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے، جس کی وجہ سے 2014 سے 2023 کے درمیان 250 ملین سے زائد افراد بھوک کا پہلے سے زیادہ نشانہ بنے ہیں۔ جنگوں، موسمیاتی تبدیلی، خوراک کے بحران اور جابرانہ حکومتوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کی نقل مکانی میں اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر جنوب کے ممالک میں، حالانکہ ذرائع ابلاغ زیادہ تر جنوب سے شمال کی جانب نقل مکانی کو نمایاں کرتا دکھائی دیتا ہے۔

’مختلف طاقتوں کا مشترکہ مقصد شام میں آمرانہ استحکام مسلط کرنا ہے‘

ہیئت تحریر الشام(ایچ ٹی ایس) اور ترقی کی حمایت یافتہ شامی نیشنل آرمی (ایس این اے) نے 27نومبر کو شامی حکومت کی افواج کے خلاف ایک فوجی مہم شروع کی، جس میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں ایچ ٹی ایس اور ایس این اے نے حلب اور ادلب کے بیشتر گورنریٹس کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کے بعد دمشق سے 210 کلومیٹر شمال میں واقع شہر حماروسی فضائیہ کی حمایت یافتہ حکومتی افواج کے خلاف شدید فوجی تصادم کے بعد ایچ ٹی ایس اور ایس این اے کے قبضے میں چلا گیا۔ حما کے بعد ایچ ٹی ایس نے حمص کا بھی کنٹرول سنبھال لیا۔

سنسرشپ کے سائے تلے اظہار رائے کی آزادی

میڈیا سنسر شپ کا مطلب ہے میڈیا چینلز کے ذریعے پھیلائے جانے والے مواد پر کنٹرول کرنا خاص طور پر وہ مواد جو ملکی سلامتی ،عوام کے مفاد یا معاشرتی اخلاقیات و اقدار کے لیے خطرہ ہو۔سنسر شپ کے ذریعے حکومت یا دیگر سرکاری اداروں کی جانب سے میڈیا کے مواد کو منظر عام پر آنے سے پہلے چیک اور کنٹرول کیا جاتا ہے تاکہ وہ مواد جو منفی یا خطرناک سمجھا جاتا ہو اسے روکا جا سکے۔

آرٹ کی بحث اور کچھ بنیادی منطقی مغالطے

آرٹ کی حالیہ بحث کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم چاہیں گے کہ ان بنیادی منطقی مغالطوں پر روشنی ڈالیں جن کا استعمال ایسی بحثوں یا مناظروں میں ان عناصر کی جانب سے کیا جاتا ہے جن کے پاس اپنے مخالف فریق کی بات کو رد کرنے کی کوئی معقول دلیل و منطق نہیں ہوتی ہے۔ بہت سے دوست پہلے سے ان وارداتی ”دلائل“ سے واقف ہوں گے۔ لیکن موجودہ بحث میں ان مغالطوں کا استعمال ایسے افراد کی جانب سے کیا گیا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ نہ صرف خود شاعر اور ادیب ہیں بلکہ شعر و ادب کے سمندر میں یوں غوطہ زن ہیں کہ ہر روز نئے موتی تلاش کے لا رہے ہیں۔ یہاں ہماری مراد وہ ترقی پسند اور انقلابی ساتھی ہرگز نہیں جو سنجیدگی سے سیکھنا اور سکھانا چاہتے ہیں لیکن اپنی معصومیت اور بھولے پن میں ان نوسربازوں کے نرغے میں آ جاتے ہیں۔

’مسلح حملوں کو جواز بنا کر سیاسی کارکنوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘

مسلح تنظیموں کے حملوں کے بعد بلوچ سیاست کو ہمیشہ نقصان پہنچا ہے۔ یہ ایسی ریاست ہے جو فورتھ شیڈول میں ڈالنے اور سیاسی کارکنوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے پی ٹی ایم کے کارکنوں پر بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ منسلک ہونے کا الزام عائد کر دیتی ہے۔ بلوچستان میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ ان حملوں کو جواز بنا کر سیاسی کارکنوں کوانتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی بھی مسلسل واضح کرتی رہی ہے کہ ان کا ان مسلح حملوں اوران گروہوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم ابھی ان کو مزید واضح کرنا ہوگا۔بلوچ قوم کی پچھلی پوری صدی کی جدوجہد طبقاتی نابرابری کے ساتھ ساتھ قومی جبر کے خلاف رہی ہے۔

شاعری و ادب پر کچھ نکات

معاشرے کے سلگتے تضادات کی پردہ پوشی یا معذرت خواہی کرنے، ’’آرٹ برائے آرٹ‘‘ اور فرد کو اس کے سماجی حالات سے کاٹ کے مجرد انداز سے دیکھنے والی سوچ بہرحال کوئی بڑا آرٹ تخلیق نہیں کر سکتی۔ یہ آخرکار انسان کو گمراہی، مایوسی اور قنوطیت کی طرف ہی لے جاتی ہے۔ لیکن اس طرف لے جانا اور چلے جانا ہی اگر کسی کا مطمع نظر ہے تو بات شاید یہیں ختم ہو جاتی ہے۔

پی آئی اے کی مینجمنٹ محنت کشوں کو دیں، تمام خسارے ختم کرینگے: رمضان لغاری

’پی آئی اے کی مینجمنٹ محنت کشو ں کے حوالے کی جائے۔ حکومت ہمیں ایک روپیہ بھی نہ دے، صرف ’اوپن سکائی‘ پالیسی کو محدود کر کے عالمی معیار کے مطابق کیا جائے۔ پی آئی اے کا عملہ تمام خسارے بھی پورے کرے گا اور چند ہی سالوں میں پی آئی اے کو منافع بخش ادارے میں تبدیل کرے گا۔ 1992تک پی آئی اے عروج پر تھی،حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے خساروں میں گئی۔ آج پی آئی اے کو بے توقیر کر کے حکمران قومی اثاثے کو اونے پونے داموں خریدنا چاہتے ہیں۔ محنت کش اس کے خلاف لڑیں گے اور قومی ادارے کے خلاف ہونے والے سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔‘

ہان کانگ کی تحریروں کا موضوع: درد، کرب اور اندرونی اضطراب

2024ء میں ادب میں نوبل انعام کی جنوبی کوریائی لکھاری ہان کانگ حق دار قرار پائی ہیں،جو اپنے خوابناک اور باغی ناول ’دی ویجیٹیرین‘کے لیے جانی جاتی ہیں۔ اس ناول کی بناء پر ان کے قلم کی مہک بین الاقوامی سطح تک پھیل چکی ہے۔ یہ اپنے ملک کی پہلی مصنفہ ہیں جنہوں نے ادب میں نوبل انعام حاصل کیا ہے۔ ہان کے قلم میں عجیب سحر ہے اور یہ شاعرانہ نثری طرز میں انسانی زندگی کی نزاکت اور حساسیت کو بے نقاب کرنے کا ملکہ رکھتی ہیں۔ ان کے فن پاروں کا بنیادی موضوع درد، کرب اور اندرونی اضطراب ہے جو معاشرتی صدمات کی بناء پر انسانوں کے اندر رچ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ روح کو زخمی کر دیتا ہے۔ ہان ان جذبات کی نہ صرف عکاسی کرتی ہیں بلکہ نہایت جرأت سے ادبی پیرائے میں اسے بیان بھی کرتی ہیں جس بناء پر ادب میں انھیں جدت کار کا درجہ و مقام حاصل ہے۔ ان کے بارے میں ادبی نقادکہتے ہیں کہ انھوں نے کورین لکھاریوں کی ایک نسل کو زیادہ سچ بولنے اور اپنے موضوعات میں زیادہ جرأت مند ہونے کی ترغیب دی ہے۔

’میں بہت حیران ہوں اور باعزت محسوس کر رہی ہوں‘

2024 میں ادب میں نوبل انعام حاصل کرنے والی مصنفہ ہان کانگ نے اپنے بیٹے کے ساتھ جنوبی کوریا میں واقعے اپنی گھر میں رات کا کھانا ختم کیا ہی تھا کہ انھیں فون پر ایک کال موصول ہوئی۔ یہ کال نوبل انعام کی نوید لیے تھی۔ جس کے ذریعے انھیں نوبل انعام کی خوش خبری کے ساتھ یہ بھی بتایا گیاکہ وہ جنوبی کوریا میں پہلی خاتون ہیں جنہیں یہ اعزاز مل رہا ہے۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ جنوبی کوریا کے تمام لکھاریوں کی تحاریر نے مجھے اس قدر متاثر کیا ہے کہ میں اس مقام تک پہنچ سکی ہوں۔ فون پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ کس طرح لکھنے والوں کی اجتماعی کوششوں سے انھیں حوصلہ ملا۔ ان کی تمام کوششیں اور حوصلہ افزائی ان کی ترغیب بنتی رہی۔ ہان کانگ نے اپنے بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول ”دی ویجیٹیریئن“پر اپنے تحریری عمل کے بارے میں بھی بات کی۔

اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں

”سویرا ہونے والا تھا اور ستارے تیزی سے جھلملا رہے تھے۔ ان کے جھرمٹ میں کتاب اپنی روشنی بکھیر رہی تھی۔ میں نے کتاب کا ورق پلٹا تو صفحے کو چھونے کا لمس ایک مخصوص بو، خوشبودار احساس اجاگر کرتے ہوئے یہ سوال چھوڑ گیا کہ کتاب کیا ہے؟ یہ سوال کس قدر تیکھا تھا۔ میں حافظے کی بھول بھلیوں میں ابھی اس کا جواب ٹٹول ہی رہا تھا کہ کانوں میں آواز کا سنہری قطرہ ٹپکا اور اس سے پیدا ہونے والے گونج کہنے لگی کہ کتاب تو ایک بیتے ہوئے لمحے کا نام ہے۔ یہ وقت کا جلترنگ ہے۔ ایک سریلا ساز ہے۔ گہری رات میں مہکتا ہوا روشن چاند ہے۔ یہ خوابوں کا قافلہ اور گزرے وقت کی گزارش ہے۔ بھید وں کی راگنی اور گردشِ رنگِ چمن کو دیکھنے کا درپن ہے۔ کتاب، قدرت کا انمول رتن ہے۔“