فاروق سلہریا
مولانا سلام۔
امید ہے آپ کی نظر سے بھی یہ خبر گزری ہو گی کہ منگل کی صبح دراز قدحوروں کے متلاشی طالبان نے کابل کے ایک میٹرنٹی وارڈ پر حملہ کر دیا۔ دو ننھے فرشتے، جن کی عمر یں تین گھنٹے چار گھنٹے سی زیادہ نہ تھیں، گولیوں سے بھون دئیے گئے۔ نومولود بچوں کے خون سے یہ ہولی ماؤں کی آنکھوں کے سامنے کھیلی گئی۔
مولانا! خبروں میں اس بات پر توجہ نہیں دی گئی کہ یہ میٹرنٹی وارڈ ہزارہ برادری کے محلے میں واقع تھا۔ مولانا ہم نے سنا ہے طالبان بھی آپ کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ آپ بہت پر اثر وعظ کرتے ہیں۔ آپ کے واعظ سے متاثر ہو کر بڑے بڑے جوئے باز کرکٹر جوئے اور کرکٹ سے توبہ تائب ہو کر چالیس روزہ لگانے کے لئے نکل جاتے ہیں اور ماڈلنگ کرنے والی لڑکیاں حجاب پہننا شروع کر دیتی ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ کسی دن کسی ویڈیو کلپ میں اپنے ان ہم فرقہ افغان بھائیوں کو بھی کچھ پند و نصائح کر دیجئے۔ ان کو اتنا ہی سمجھا دیجئے کہ میٹرنٹی وارڈ، جنازوں، ہسپتالوں اور گوردرواروں پر حملہ نہیں کرتے۔
مولانا! آپ کو معلوم ہے کہ منگل کے روز جس ہسپتال پر حملہ کیا گیا وہ یورپ کے ان ڈاکٹروں نے بنایا تھا جنہیں ہم اہلِ ایمان کافر کہتے اور سمجھتے ہیں۔ کابل میں پچھلے بیس سال میں سعودی عرب، ایران اور خلیجی ریاستوں نے بڑے بڑے مدرسے تو ضرور بنائے ہیں مگر بچوں کے ہسپتال یا یورپ اور جاپان کے کافروں نے بنائے یا بھارت کے ہندووں نے۔ مولانا! شائد یہ بھی ایک وجہ ہے کہ یہاں کے لوگ اتنی نفرت امریکہ سے نہیں کرتے، جس نے افغانستان پر قبضہ کر رکھا ہے، جتنی وہ اپنے دو مسلمان پڑوسیوں سے کرتے ہیں۔
ہسپتال بنانے سے یاد آیا۔ مولانا!! ہم نے سنا ہے بڑے بڑے ارب اور کھرب پتی آپ کی تبلیغی جماعت میں شامل ہیں۔ ان سے کہئے کہ کابل میں کوئی ہسپتال ہی بنا دیں۔ ممکن ہے تبلیغی بھائیوں کے پیسوں سے بنے ہسپتال پر طالبان حملہ نہ کریں۔ ہم کم سے کم ایامِ بیماری تو بلا خوف کاٹ سکیں۔
مولانا! خط لکھنے کا مقصد یہ بھی تھا کہ آپ سے ایک دو شرعی مسائل پر بھی رہنمائی حاصل کرنا تھی۔ ایک تو یہ پوچھنا تھا کہ کیا نومولود بچوں پر گولیاں چلانے والے مجاہدین بھی جنت میں اتنی ہی دراز قد حوروں کے حق دار ٹہریں گے جتنی طویل قامت حوریں ارکانِ تبلیغی جماعت کو پیش کی جائیں گی؟
مولانا! یہ بھی جاننا تھا کہ منگل کو ہمارے شہر میں جو ہوا، اس بربریت کے بعد بھی کوئی عذاب واجب ہے کہ نہیں؟
مولانا! آخر میں ایک ذاتی سی درخواست ہے۔ آپ کی اسلام آباد میں طاقت کے ایوانوں تک رسائی ہے۔ کچھ ان ایوانو ں کے مکینوں کو بھی وعظ کیجئے۔ انہیں سمجھائیے کہ بہت ہو چکا۔ اگر تذویراتی گہرائی کے لئے نو مولود بچوں کا خون کروانا پڑ رہا ہو تو اسے تذویراتی گہرائی نہیں، تذویراتی پستی کہتے ہیں۔
آپ کے آئندہ ویڈیو کلپ کا انتظار رہے گا جس میں آپ گڑ گڑا کر طالبان سے التجا کریں گے کہ جنت کمانے کے لئے امریکی اڈوں کا رخ کریں، زچہ بچہ وارڈ اور جناز گاہوں کا نہیں۔
والسلام۔
ایک افغان شہری
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔