دنیا

[molongui_author_box]

انتہائی دائیں بازو کا ابھار اور اس کیساتھ کیسے لڑا جائے

2022ء کے آخر اور 2023ء میں دائیں اور انتہائی دائیں بازو نے خاص طور پر یورپ میں نئی انتخابی فتوحات حاصل کی ہیں۔ سویڈن میں ماڈریٹ پارٹی (دائیں بازو) اور سویڈن ڈیموکریٹس (انتہائی دائیں بازو) نے سوشل ڈیموکریسی کے بعد دوسرے اور تیسرے نمبر پر آ کر حکومتی اتحاد بنایا۔ فن لینڈ میں نیشنل کولیشن (دائیں بازو) نے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی جس کی حمایت پارٹی آف فنز (انتہائی دائیں بازو) نے کی اور دو دیگر قوتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔

حکمرانی کا بحران

گہرے بحران کے حالات میں بر سر اقتدار آنے والی بورژوا اور مفاہمت پسند سیاسی قیادتیں کٹوتیوں کی انتہائی جارحانہ پالیسیاں لاگو کرتی ہیں جن سے محنت کش عوام کا معیار زندگی ناقابل برداشت سطح تک گر جاتا ہے۔ اس سے روایتی بورژوا پارٹیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہیں، نئے رجحانات کی تشکیل اوران کے اقتدار کے تیر رفتار تجربے ہو رہے ہیں، حکومتیں گر رہی ہیں اور نئے سیاسی عوامل ابھر رہے ہیں۔

فلسطین: عالمی صورتحال کا کلیدی پہلو

سامراجی طاقتیں اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں۔ امریکہ اس حمایت میں پیش پیش ہے اور ساتھ ہی اس فسطائی نیتن یاہو پر کنٹرول ر کھنے کی کوشش بھی کر رہا ہے جس نے غزہ پر بمباری جاری رکھتے ہوئے جنوبی لبنان پر بھی حملہ کیا ہے اور بحران کو باقی ماندہ مشرق وسطیٰ تک پھیلاتا جا رہا ہے۔حالیہ تنازعے سے قبل ہی اسرائیل میں عدالتی اصلاحات کے سوال پر ایک گہری تقسیم پائی جا رہی تھی اور مسلح تصادم ختم ہونے پر نیتن یاہو کے اقتدار میں رہنے کا امکان کم ہی ہے۔

کلونیل ازم: 120 سالہ انگریز دور میں 31 قحط پڑے، 2 ہزار سال میں 17

گو کلونیل ازم سے قبل ہندوستان میں کوئی جمہوریت نہ تھی، لیکن جان لیوا قحط کم ہی پڑے۔ مغلیہ دور میں شائد ہی قحط پڑا ہوجس نے لاکھوں تو کیا ہزاروں لوگوں کی جان لے لی ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اکبر سے لے کر اورنگزیب تک، مغلیہ عہد میں غذائی اجناس کی برآمد پر پابندی تھی، قیمتوں پر نظر رکھی جاتی تھی جبکہ خشک سالی کے ادوار میں مفت خوراک بانٹی جاتی تھی جس کے لئے غلہ ذخیرہ کیا جاتا تھا۔ اورنگرزیب کے عہد میں خشک سالی نے لگ بھگ دو سال کے لئے سلطنت کو گھیر لیا۔ اورنگزیب نے سرکاری خزانے کے منہ کھول دئے۔ غریبوں کو تو مفت خوراک فراہم کی گئی(یہ اس حکمران کا ذکر ہے جسے بعض افراد کی جانب سے مغلیہ سلطنت کے زوال کا سبب بھی قرار دیا جا تاہے)۔

آسکرز میں سیاست

ٹھیک ہے، یقینا اس سب کا بنیادی مقصد پیسہ ہے۔ امریکی فلمیں عالمی فلمی منڈی اور آسکرز پر حاوی ہیں۔ اکیڈمی آف موشن پکچر آرٹس اینڈ سائنسز کی جانب سے پیش کیے جانے والے ایوارڈز صنعت میں مالی اور فنکارانہ کامیابی کے عروج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اکیلے ’باربی‘نے ایک ایسی صنعت میں تقریباً 1.5 ارب ڈالر کمائے، جو سینکڑوں ارب ڈالر کماتی ہے۔ پھر یہ فیشن کے بارے میں بھی ہے،جب خواتین ریڈ کارپٹ پر اپنے شاندار گاؤن دکھاتی ہیں اورجب مرد اپنے ایک جیسے ٹیکسیڈوزمیں پینگوئن کی طرح پریڈ کرتے ہیں۔ تاہم رواں سال پہلے سے زیادہ یہ تقریب نہ صرف ایک شاندار تماشا تھی، بلکہ خاص طور پر ایک سیاسی تقریب بھی تھی۔

یوکرائن جنگ کے دو سال

2022ء میں شروع ہونے والی یوکرائن جنگ سامراجی کشیدگی کا مرکز (Epicenter) تھی۔ دو سال بعد آج یہ لڑائی تعطل کا شکار ہو چکی ہے۔ یوکرائنی دارالحکومت کیؤ پر قبضہ کرنے اور وہاں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کے ابتدائی منصوبے میں ناکامی کے بعد پیوٹن روس کی سرحد سے متصل یوکرائن کے 20 فیصد علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔ یوکرائن کی مزاحمت، جو روسی پیش قدمی روکنے میں کامیاب رہی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ اب کمزور پڑ رہی ہے اور زیلنسکی حکومت کی جانب سے بہت زیادہ تشہیر کردہ جوابی حملے میں بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

سامراجی بالا دستی کا تنازعہ

موجودہ عالمی صورتحال کا اہم خاصہ سامراجی تناؤ اور تنازعات کی بڑھتی ہوئی شدت ہے۔ جس سے بڑی طاقتوں کے مابین ٹکراؤ، علاقائی جنگوں اور تابع اور نیم نو آبادیاتی اقوام کے خلاف کے سامراجی جارحیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت (سپر پاور) امریکہ کی کمزوری، چین کا معاشی اور عسکری قوت کے طور پر ابھار اور2008ء کے بحران کے بعد قدر زائد کی حصہ داری پر عالمی تنازعہ ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا تھا۔

نسل انسان کو تباہی کے دہانے پر لے جاتا عالمی سرمایہ داری کا بحران

ہر گزرتے دن کے ساتھ بحران مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ 1930ء کی دہائی کے ‘گریٹ ڈپریشن’ کے بعد2008ء کا بحران سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا بحران ہے جو اب تک مسلسل جاری ہے۔ معیشت، سیاست، ماحولیات، صحت، نظریات اور عالمی غلبے کے بحرانات یکجا ہو کر ایک دوسرے کی شدت میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ بحران کی جڑ شرح منافع کی گراوٹ کا رجحان ہے۔ اس لیے سرمایہ داری کے پاس استحصال، جبر اور بربادی کو بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اس بحران کا کوئی حل ممکن ہی نہیں ہے۔

’پنک ٹیکس‘ صنفی جبر کا ایک رخ

ایک خاتون،جو سرکاری ٹیچر ہیں،جب ان سے اس بارے میں بات کی گئی تو انکا کہنا تھا کہ وہ اس ٹیکس کا نام پہلی بار سن رہی ہیں،لیکن انہوں نے ہمیشہ اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ بچیوں کی اشیا ء بچوں کی نسبت مہنگی ہیں۔اس لیے وہ اپنی بیٹی کے لیے بھی ویسی اشیا ء لیتی ہیں جو وہ بیٹے کے لیے خریدتی ہیں،جن میں زیادہ تر کپڑے شرٹس،جینز، کھلونے اور دیگر بچوں کی اشیا ء شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو اس بارے میں مکمل آگاہی ہونی چاہیے۔اس پہ سیمینارز کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔

کٹھنائیوں سے برسرپیکار عورت

پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام اور معاشی ابتری،روپے کی قدر میں گراوٹ نے اس خطے کے گھرانوں کو مزید برباد کر دیا ہے۔ اس بربادی میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی تعداد پھر خواتین کی ہے۔ خواتین پر گھر سنبھالنے کی ذمہ داری کے ساتھ بچوں کی دیکھ بھال،سودا سلف لانے سے لے کر کسی بیماری کی صورت میں ہسپتالوں میں مشکل حالات سے گزرنابھی معمول کی بات ہے۔پسماندگی اور رجعت میں خواتین کو اکیلے ہی بقا کی جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ کہنے کو تو یہ باتیں آسان لگتی ہیں لیکن جب کسی عورت کو ان مشکلات سے گزرنا پڑھتا ہے تو باقی زندگی کی ہر ایک خواہش،ہر ایک خوشی چھن جاتی ہے۔