دنیا

[molongui_author_box]

وقت کے بدلتے مزاج اور ماضی کے طریقہ ہائے واردات

حضور والا اگر صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے کچھ سیکھنے پر تیار ہیں تو سب سے پہلے یہ جانکاری ضروری ہے کہ وقت اور حالات بہت بدل چکے ہیں۔ سرمایہ دارانہ استحصال نے عوام کے لیے وہ حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ انہوں نے اب مرنا ہی ہے۔ یا تو وہ بھوک اور افلاس کے ہاتھوں مریں یا پھر اپنے حق کی خاطر لڑتے ہوئے مریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے حالات میں عوام ہمیشہ دوسرے آپشن کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ سربکف ہو چکے ہیں۔ مسئلہ آپ کا اور آپ کی حکومت کا ہے کہ آپ نے انھیں روٹیاں دینی ہیں یا گولیاں۔ آپ نے عوام کو دہائیوں سے غصب بنیادی حقوق دینے ہیں یا ریاستی تشدد۔ دونوں آپشن آپ کے لیے کھلے ہیں،لیکن یہ طے شدہ ہے کہ آخری تجزیے میں ماضی کے اوزار عصر حاضر سے ہم آہنگ نہ ہیں۔لہٰذا ناکامی ان کا مقدر ہے۔

بھارتی عام انتخابات: ہندو قوم پرستی کا عفریت چھٹ پائے گا؟

بی جے پی کے تمام تر غلبے کے باوجود لداخ سے میزورام اور منی پور تک مزاحمت کی علامات اب بھی موجود ہیں۔ دیو ہیکل محنت کش طبقہ زیادہ دیر تک بی جے پی کے زہریلے پراپیگنڈہ اور فریب کی یلغار کا شکار بنا نہیں رہ سکتا۔ سرمایہ دارانہ نظام کا بحران اور مسلسل نیو لبرل حملے محنت کشوں کو بغاوت پراکسانے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ تاہم ایک درست پروگرام اور لائحہ عمل کی بنیاد پر ہی نہ صرف ہندوتوا کے فسطائی غلبے کو توڑا جا سکتا ہے بلکہ ایک نئے سماجی ڈھانچے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ جو پورے جنوب ایشیا میں محنت کشوں کیلئے ایک درخشاں مثال ثابت ہو گا۔

17 اپریل: کسانوں کی جدوجہد کا عالمی دن

اس سال ہمارا پوسٹر فطرت کے تمام عناصر کے باہم مربوط ہونے کی عکاسی کرتا ہے، جس میں انسانیت ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ یہ پوسٹر واضح کرتا ہے کہ کس طرح زمین (ماں) کسانوں اور ان کی جدوجہد کی حمایت اور انکے وجود اور حقوق کا دفاع کرتی ہے۔ اس وژن کے مطابق، ہم کسانوں جیسی اجتماعی تحریک کا حصہ بن کر بھی اپنی ماں جیسی زمین کو نذرانہ پیش کر سکتے ہیں۔ ہماری ماں جیسی دھرتی اپنے فطری تاثرات کے علاوہ پہاڑوں کے ساتھ ہمارے آباؤ اجداد اور اجتماعی یادداشت کی علامت ہے۔

ایران اسرائیل تصادم: سامراجی طاقتیں دور رس تناظر سے عاری

بہرحال زیادہ امکان یہی لگ رہا ہے کہ کشیدہ حالات کو ادارہ جاتی مذمتوں اور پرفریب بیان بازیوں میں زائل کرنے اور ایران اسرائیل تصادم کو کم از کم وقتی طور پر دبا دینے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن یہ معاملات جتنے پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں اس کے پیش نظر متعلقہ سامراجی طاقتیں خود بھی کوئی دوررس تناظر بنانے سے عاری نظر آتی ہیں۔ دنیا بھر کے محنت کش عوام کے لئے اس متروک سرمایہ دارانہ نظام میں استحصال اور بربادی ہی مضمر ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔

سندھ نامہ (پہلا حصہ): مارکس اور بھگوان سانگھڑ کی بستی میں

بوڑھا مارکس دھرم میں وشواس نہیں رکھتا تھا لیکن اس تقریب میں موجود ہوتا تو اپنے چیلے،کامریڈ کرمون، کو شاباش ضرور دیتا اور اپنی عادت کے مطابق بھگوان اور مارکسزم کے اس ملاپ پر زور دار قہقہہ لگاتا۔۔۔میں یہ سوچتا ہوا وہاں سے روانہ ہوا کہ کاش ایڈورڈ سعید بھی زندہ اور اس تقریب میں موجود ہوتے اور دیکھتے کہ جس مارکس کو وہ اورینٹل ازم کا طعنہ دیتے ہیں وہ سانگھڑ میں پہنچ کر کیا روپ دھار لیتا ہے۔

کمیونسٹ پارٹیوں کا اقتدار: نیپال پسماندگی کے باوجود سیاسی مباحث کا مرکز

نیپال میں اس وقت ایک بار پھر بائیں بازو کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ اس حکومت میں 4بڑی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ یہ نئی حکومت 25فروری کو وزیراعظم پرچندا کی جانب سے کانگریس سے علیحدگی کے اعلان کے بعد قائم ہوئی ہے۔ نئی بائیں بازو کی اتحادی حکومت میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف نیپال یونائیٹڈ مارکسسٹ لینن اسٹ (سی پی این یو ایم ایل) ہے، دوسری بڑی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف نیپال ماؤسٹ سنٹر(سی پی ایم ایم سی) ہے، وزیراعظم پرچندا کا تعلق اسی جماعت سے ہے۔ تیسریبڑی سیاسی جماعت آر ایس پی ہے، جو پہلے کانگریس کے ساتھ شامل تھی، اب اس نئے اتحاد میں شامل ہے۔ چوتھی بڑی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف نیپال یونیفائیڈ سوشلسٹ (سی پی این یو ایس) ہے، جس کی قیادت سابق وزیراعظم مدن کمار نیپل کر رہے ہیں۔

بربریت سے بچنے کے لیے عوامی اثر و رسوخ والی پارٹیاں اور انٹر نیشنل تعمیر کرنا ہو گی!

سرمایہ دارانہ بحران کی حرکیات ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ بربریت اور انسانیت کی معدومیت، جہاں موجودہ حکمران طبقہ ہمیں لے جا رہا ہے، کی جانب اس تیز رفتار پیش رفت کو روکنے کا واحد امکان عالمی سوشلسٹ انقلاب کی فتح ہے۔ عوام اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں۔ دنیا کے تمام خطوں میں سال بہ سال بغاوتیں اور انقلابات برپا ہو رہے ہیں۔ لیکن اب تک کہیں بھی کوئی ایسی انقلابی تنظیم سامنے نہیں آئی ہے جس کے پاس وہ تعداد، اثر و رسوخ، صلاحیت اور ارادہ ہو کہ ان تحریکوں کی قیادت کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کر سکے۔ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

نوجوانوں کو ترجیح دینا ہو گی!

سرمایہ داری کا بحران نوجوانوں کو خاص طور پر متاثر کرتا ہے۔ دنیا بھر میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح عام آبادی سے کہیں زیادہ اور اکثر دگنی ہے۔ وہ غیر یقینی روزگار اور عدم استحکام سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ کٹوتیوں کی پالیسیوں سے عوام کی تعلیم تک رسائی محدود ہوتی ہے اور تعلیم کا معیار بھی گرتا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے نوجوانوں کا تناسب بڑھ رہا ہے جو نہ پڑھتے ہیں اور نہ ہی کام کرتے ہیں۔ بورژوا ریاستوں کا جبرانہیں مجرم بنا کر پیش کرتا ہے، سزائیں دیتا ہے اور اکثر قتل کر دیتا ہے۔ سرمایہ داری نوجوانوں کو کچھ نہیں د ے رہی۔ انہیں مواقع، زندگی کے مقصد، امید اور مستقبل سے محروم کر دیا گیا ہے۔

صنف: حقوق پر حملے اور ردِعمل

ہمارے لیے یہ بہت اہم ہے کہ محنت کش خواتین، حقوقِ نسواں اور دوسری صنفوں کے حقوق کی جدوجہد میں مداخلت کر یں تاکہ ان تحریکوں کو آگے بڑھایا جا سکے اور اپنی قوتوں کی تعمیر کو بھی مستحکم کیا جا سکے۔ ایک ریڈیکل نوجوان ہراول دستہ ان تحریکوں کا حصہ ہے جو اس نظام کے اداروں اور جماعتوں پر یقین نہیں رکھتا اور انقلابی نظریات کو جذب کرنے کے لیے تیار ہے۔

’کوپ 28‘ اور ”ماحول دوست سرمایہ داری“ کا فریب

2023ء میں عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے اور کرہ ارض کا اوسط درجہ حرارت صنعتی عہد سے قبل کی سطح سے تقریباً 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تک پہنچ گیا۔ 2023ء کے دوران اوسط عالمی درجہ حرارت پچھلے 100,000 سالوں میں کسی بھی وقت سے زیادہ تھا۔