دنیا


ایران پر اسرائیل کے اگلے حملے کا فیصلہ آج امریکی انتخاب میں ہو گا

ایران اپنی سرزمین پر اپنے ایک اتحادی کے اس قتل کا جواب دینے سے ہچکچاتا رہا،یہاں تک کہ اسرائیل نے بیروت میں حسن نصر اللہ کو ایرانی پاسداران انقلاب کے بریگیڈیئر جنرل عباس نیلفر وشان کے ہمراہ قتل کر دیا۔میجر جنرل محمد رضا زاہدی کے بعد یہ پاسداران انقلاب کے دوسرے اعلیٰ افسر تھے، جنہیں اسرائیل نے قتل کیا۔ میجر جنرل محمد رضا زاہدی کو یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے میں ایک آپریشن میں مارا گیاتھا۔ اس واقعے نے تہران کو 13 اپریل کو اسرائیل پر اپنا پہلا جوابی حملہ کرنے پر مجبور کیا۔

ہتھیاروں کے بیوپاری

طرفہ تماشا ہے کہ جنگوں نے پہلے سے خستہ حال عوام کو وسیع پیمانے پر بے روزگاری، ہجرت اور بھوک کی اذیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ دوسری جانب اسلحہ سازی کی ’’صنعت‘‘ فروغ پا کر منافعوں کے انبار لگا رہی ہے۔ گزشتہ کچھ دہائیوں سے پیداوار کی طرز میں بہت کچھ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ سرِفہرست کارخانہ سازی کے رجحان میں بڑا بدلاؤ آیا ہے۔ منافع کے حصول کی نفسیات نے بے صبری کو جنم دیا ہے۔ سرمایہ دار راتوں رات مال بنانے کے چکر میں ہر حد کو پھلانگ جانے کے لیے تیار ہیں۔ چاہے اس کی قیمت اس سیارے کی تباہی اور نسل انسان کی معدومیت ہی کیوں نہ ہو۔

حزب اللہ کا مخمصہ: ایران کو بچائے یا خود کو!

حقیقت یہ ہے کہ لبنانی محاذ کو فعال رکھنے پر تہران کے اصرار کا غزہ کے لوگوں اور خود لبنان کے عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے، جن میں شیعہ بھی شامل ہیں، اور جنہوں نے صیہونی جارحیت کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا اور بھگت رہے ہیں۔ اس کا مقصد حزب اللہ کے تسدیدی کردار کو اس وقت تک فعال رکھنا ہے جب تک کہ ایران کو اس امکان کا سامنا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت ایران کے خلاف بڑے پیمانے پر جنگ چھیڑ دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ نے اب تک اپنے فوجی ہتھیاروں میں سے مضبوط ترین ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا ہے، کیونکہ وہ بنیادی طور پر ایران کے دفاع کے لیے ہیں، نہ کہ لبنان کے دفاع کے لیے اور نہ ہی خود جماعت کے اپنے دفاع کے لئے۔

میں عورت ہوں

پاکستان میں چھاتی کا کینسر خواتین میں پائے جانے والے تمام کینسرکیسز کا ایک تہائی ہے۔ یہ تناسب خطے کے دیگر ممالک کے برابر ہے۔ اس جان لیوا حالت میں مبتلا خواتین کی تعداد مغربی ممالک میں بہت زیادہ ہے۔تاہم یہ جزوی طور پر اعلیٰ تعلیم اور عام آبادی میں بیداری کی وجہ سے ہے اور جزوی طور پر یہ بہتر اسکریننگ اور تشخیص کے طریقوں کی وجہ سے ہے کہ وہ جلد علاج کروا سکتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ خواتین کی جلد تشخیص اور علاج کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں بہت بہتر بقا ء اور طویل مدتی صحت کے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

زخم جو فلسطین ہے

اگر امریکی حکومت اسرائیل کی حمایت کرنا چھوڑ دے تو یہ جنگ آج ہی رک سکتی ہے۔ دشمنیاں اسی لمحے تحلیل ہو سکتی ہیں۔ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا اور فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا جا سکتا ہے۔ حماس اور دیگر فلسطینی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ وہ مذاکرات جو بالآخر جنگ کے بعد ہوں گے، اب بھی ہو سکتے ہیں،جو لاکھوں لوگوں کی تکلیف کو روک سکتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ زیادہ تر لوگ اسے ایک سادہ، دیوانے کی بڑ، ہنسی مذاق کے قابل تجویز خیال کریں گے۔

امریکی تاریخ میں اس جیسی کوئی مثال نہیں ہے

امریکی جنرل مارک ملی، جو 2019 سے 2023 تک جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئر مین رہے، نے اپنی مدت ملازمت کے اختتام کے قریب، واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے باب ووڈورڈ سے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی سلامتی اور سالمیت کے لیے ایک بنیادی خطرہ ہیں۔جنرل نے ووڈورڈ کو بھی بتایا کہ”کوئی بھی شخص اس ملک کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ خطرناک نہیں رہا۔ اب مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ وہ مکمل طور پر فاشسٹ ہیں۔ وہ اس ملک کے لیے سب سے خوفناک شخص ہے۔“

فورتھ انٹرنیشنل: ’فلسطین میں جارحیت پورے مشرق وسطیٰ پر سامراجی حملہ ہے‘

دنیا میں کسی بھی دوسری جگہ کی نسبت،فلسطین میں استحصال زدہ اور مظلوموں کی کامیاب جدوجہد ایک منصفانہ دنیا کا زیادہ کامیاب راستہ بن سکتی ہے۔ ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ صرف ایک آزاد، جمہوری، سیکولر اور مساوات پر مبنی فلسطین،خطے کی آبادیوں کو ایک منصفانہ اور پرامن حل فراہم کر سکتا ہے، جہاں ہر کوئی رہ سکتا ہو، چاہے اس کا کوئی بھی مذہب ہو،اور جب تک وہ اس غیر نوآبادیاتی ڈھانچے کو قبول کرے۔
ایسا فلسطین تب ہی ممکن ہے جب طاقت کا توازن اس طرح سے بدلے گا کہ فلسطین کا حل ٹکڑوں میں بٹی ریاست تک محدود نہ ہو۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب سامراجیوں، خاص طور پر امریکہ کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر لوگ متحرک ہوں،خاص طور پر اس خطے میں ایک عوامی تحریک جنم لے۔

اسرائیل نے اپنی دھاک بٹھانے کے لئے لبنان، ایران تک جنگ پھیلائی

اشقر کا خیال ہے کہ ایرانی محاذ پر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔آج مشرق وسطیٰ کا سیاسی منظر نامہ ایسا ہے جہاں تمام رنگوں کی اسلام پسند تحریکوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ ان تحریکوں کی پسپائی کے ساتھ ایک سیاسی خلا ہے جسے سیاسی طاقت کی ایک نئی شکل سے پُر کرنے کی ضرورت ہے جو کہ 2019 کے سوڈانی انقلاب کی ’بہت متاثر کن نوجوان سویلین قیادت‘ جیسی ہو سکتی ہے جس نے سابق صدر عمرالبشیر کی حکومت کو بے دخل کر دیا تھا۔

جموں کشمیر: ہندوتوا کی 5 سالہ انجینئرنگ کو شکست لیکن مرکز کی آمریت برقرار

جموں کشمیر میں انتخابات کے نتائج نے جہاں بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈے کو تو شکست سے دوچار کر دیا ہے۔ تاہم جمہوری، معاشی اور سیاسی آزادیوں کے حصول کی منزل ابھی طویل اور مسلسل جدوجہد کی متقاضی ہے۔ خصوصی حیثیت اور ریاستی تشخص کی بحالی اگر ہوتی ہے تو ایک ترقی پسند عمل ضرور ہوگا لیکن وہ جمہوری، معاشی اور سیاسی آزادیوں کی ضامن کسی صورت نہیں ہو سکتی۔ بی جے پی کی پالیسیوں کے نتیجے میں جموں اور وادی کے مابین علاقائی تقسیم اب مذہبی تقسیم کی صورت میں مزید گہری اور پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔

مشرق وسطیٰ میں نیا کہرام: صورتحال اور امکانات

یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے اس لبرل آرڈر کا مکروہ چہرہ ہے جسے سوویت یونین کے انہدام کے بعد انسانیت کو ترقی، استحکام اور خوشحالی کے بامِ عروج تک پہنچانا تھا۔ دنیا آج ماضی کے کسی دور سے کہیں زیادہ عدم استحکام، انتشار اور خونریزی سے دوچار ہے۔ یہ استحصال، جبر اور انسان دشمنی پر مبنی‘ ایک تاریخی طور پر متروک سماجی نظام کے ناگزیر مضمرات ہیں۔ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ نسل انسان کو بربریت کی طرف دھکیلتا جاتا ہے۔