فہد بلوچ
ہم اکثر تاریخ کی کتابوں میں مزاحمت کے اعداد و شمار کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں پڑھتے ہیں جو اپنے وقت کی علامت بن گئے اور مزاحمت کے پیمانے کی وجہ سے یادداشتوں میں نقش ہو گئے۔ تاہم کبھی کبھی تاریخ ہمارے ساتھ چلتی ہے۔ کبھی کبھی یہ کسی ایسے شخص کا چہرہ پہن لیتی ہے، جسے آپ نے سڑکوں پر اپنے ساتھ مارچ کرتے ہوئے دیکھا ہو۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے ماہ رنگ بلوچ صرف نصابی کتاب میں ایک نام نہیں ہے۔ وہ ہمارے حال کی نبض ہے۔ 2019سے میں نے بلوچستان کی وجودی جدوجہد کے بالکل وسط میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل عام اور قومی شناخت کو منظم طریقے سے مٹائے جانے کے خلاف ان کے موقف کا مشاہدہ کیا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بلوچستان کی سرحدوں سے بہت آگے جانا پہنچانا نام بن چکی ہیں۔ بی بی سی کی 100بااثر خواتین سے لے کر ٹائم میگزین کی 100نیکسٹ اور اب نوبل امن انعام کی نامزدگی تک ان کی تعریفیں ان کی مزاحمت کا بین الاقوامی اعتراف ہیں،جسے ریاست نے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی۔ تاہم یہ اعزازات درد سے خالی نہیں ہوتے۔ یہ اعتراف اس نقصان کی بھرپائی نہیں کرسکتے۔ ان کا سفر غم اور برداشت، اور انصاف کے لیے انتھک جدوجہد سے عبارت ہے۔
ان کے والد کو زبردستی غائب کر دیا گیا۔ ان کی مسخ شدہ لاش کو وارننگ کے طور پر واپس کیا گیا۔ بعد میں ان کے بھائی کو اغوا کر لیا گیا اور مہینوں تک لاپتہ رکھا گیا۔ یہ واقعات ان کی سرگرمی کے آغاز کا موجب نہیں تھے بلکہ یہ وہ لمحات تھے جنہوں نے پہلے سے جلتی ہوئی آگ کو مزید تیز کر دیاتھا۔ ماہ رنگ ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوئیں جس کی تشکیل نگرانی، تشدد اور لاقانونیت سے ہوئی تھی۔ قبضے کے تحت پیدا ہونے والوں کو ہمت سکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ اس کے وارث ہوتے ہیں۔
وہ بلوچستان یونیورسٹی کے بدنام زمانہ اسکینڈل کے دوران ایک طاقتور آواز بن کر ابھریں، جہاں خواتین کی نجی جگہوں پر خفیہ طور پر نگرانی کے کیمرے نصب کیے گئے تھے۔ یہ صرف خلاف ورزی نہیں تھی بلکہ یہ تسلط کا اعلان تھا۔ ماہ رنگ نے جھکنے کی بجائے عوامی سطح پر براہ راست وائس چانسلر مالک ترین سمیت دیگر کے نام لیے اور ان کا سامنا کیا۔
ریاستی حکام اور ان سے وابستہ افراد کی جانب سے ہراساں کیے جانے، دھمکیوں اور بدسلوکی کے باوجود مہرنگ ڈٹی رہیں۔ ان کا پیغام ہمیشہ واضح رہا ہے کہ خاموشی امن نہیں ہے۔ بے حسی میں انصاف نہیں ہوتا۔ ان کے یہ الفاظ سڑکوں پر اور کمرہ عدالتوں، کلاس رومز اور گھروں میں گونجتے ہیں کہ مزاحمت کوئی انتخاب نہیں، یہ ایک ضرورت ہے۔ ان کی زندگی ہی اس بات کی دلیل ہے کہ جدوجہد تجریدی نہیں، مجسم ہے۔
وہ لاتعداد دھرنوں اور احتجاجوں کی قیادت کر چکی ہیں۔ ان میں نومبر 2023 میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں بالاچ مولا بخش کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف عوامی تحریک بھی شامل ہے۔ یہ احتجاج تربت سے اسلام آباد تک شال اور ڈیرہ غازی خان کے راستے ایک لانگ مارچ میں تبدیل ہوا۔ دارالحکومت میں ان سے جو بات ہوئی وہ بات چیت نہیں بلکہ لاٹھی، گرفتاریاں اور آنسو گیس تھی۔ ماہ رنگ خود بھی گرفتار ہوئیں، لیکن زنجیروں میں بھی انہوں نے لوگوں کو متحرک کیا۔ جب وہ شال واپس آئیں تو ہزاروں لوگ ان کے استقبال کے لیے باہر نکل آئے۔ اب یہ احتجاج رہا بلکہ ایک انتقام بن چکا تھا۔
اپنی ہر تقریر میں انہوں نے ریاست کی طرف سے ڈھائے جانے والے تشدد کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے پورے وضاحت کے ساتھ للکاراہے۔ ان کی بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائے سی) کی قیادت کا کلائمیکس گوادر میں ’بلوچ راجی مچی‘ کے انعقاد پر ہوا، یہ قصبہ سی پیک کے وعدوں نے نگل لیا ہے اور ریاستی نظر اندازی سے کھوکھلا ہو چکا ہے۔ یہاں جو قومی اجتماع ہونا تھا وہ ریاستی درندگی کا منظر بن گیا۔ ایک درجن سے زائد ہلاک، 50 سے زائد زخمی، اور اہم منتظمین بشمول سمیع دین، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، اور شاہی سناعت اللہ گرفتار ہوئے۔ ایک روزہ تقریب طویل دھرنے میں بدل گئی۔ ماہ رنگ اپنے موقف پر ڈٹی رہیں اور حکام کو ایک معاہدہ کرنے پر مجبور کیا،لیکن متوقع طور پر یہ معاہدہ بھی ٹوٹ گیا۔ یہ سلسلہ اب ایک ریت ہی بن چکی ہے۔
راجی مچی کے بعد بھی ان کا عزم مزید گہرا ہوگیا۔ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں لاوارث لاشیں ملنے پر انہوں نے دوبارہ ریاست کا سامنا کیا۔ یہ صرف لاشیں نہیں تھیں۔ یہ نام تھے، زندگیاں اور کہانیاں تھیں، جنہیں خاموش کر دیا گیا تھا۔ اپنے لاپتہ پیاروں کو تلاشنے والے اہل خانہ کے لیے دروازے بند کر دیے گئے۔ لہٰذا ایک نیا احتجاج شروع ہوا۔ یہ احتجاج بغاوت کے عمل کے طور پرنہیں بلکہ بنیادی انسانی وقار کی درخواست، جاننے، غم کرنے اور دفن کرنے کا حق لینے کی درخواست کے دور پر تھا۔
ریاست نے اپنی معمول کی مزید اغواء کرنے کی روایت کے ساتھ ہی جواب دیا۔ بی وائے سی کے رکن بیبرگ بلوچ اور ان کے بھائی کو حراست میں لے لیا گیا۔ ماہ رنگ نے ایک اور احتجاج کی قیادت کی لیکن اس بار پولی نے گولی چلا دی۔ ایک نوجوان سمیت مزید تین جانیں چلی گئیں۔ دھرنے پر آدھی رات کو چھاپہ مارا گیا۔ ماہ رنگ بلوچ کو احتجاج کے مقام سے اس وقت اٹھایا گیا، جب لوگ کھانا کھا رہے تھے۔
ان کی گرفتاری نے انہیں خاموش نہیں کیا۔ اس عمل نے ان کے پیغام کو مزید بڑھا دیا۔ ان کے الفاظ تحریک کی داستان بن چکے ہیں۔ جیل سے ایک خط میں انہوں نے لکھا کہ:
”کبھی مت بھولیں: حقیقی طاقت صرف جسمانی نہیں ہے، یہ ذہنی اور نظریاتی ہے۔ اپنے آپ کو ذہنی اور نظریاتی طور پر مضبوط بنائیں، ایک دوسرے کا سہارا بنیں، خود کو کبھی ٹوٹنے نہ دیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں، آپ کی بہن کمزور نہیں ہے۔ کمزوری وہ چیز نہیں ہے جو ہمیں ورثے میں ملی ہے۔“
ایک حکومتی وفد نے جیل میں ان سے ملاقات کی۔ انہوں نے اس بات کی ضمانت مانگی کہ وہ تحریک سے الگ ہو جائیں گی۔ انہوں نے خاموشی سے نہیں بلکہ واضح طور پر انکار کر دیا۔ یہ بغاوت کوئی تماشا نہیں ہے۔ یہ بغاوت مٹائے جانے، خاموشی اور آہستہ آہستہ لوگوں کو موت کی طرف دھکیلے جانے کے خلاف بقاء کی تحریک ہے۔
آج ماہ رنگ بلوچ ایک رہنما سے بڑھ کر کھڑی ہے۔ وہ ایک رجحان ہے۔ ایک وژن ہے اور جمود کے لیے ایک خطرہ ہے۔ ماہ رنگ بلوچ کی نظر بندی نے ان کے اثرورسوخ کو کم نہیں کیا بلکہ اسے مزید بڑھا دیا ہے۔ جیسا کہ ان کی بہن نے جیل میں ان سے ملاقات کے بعد کہا کہ ان کا جذبہ اب بھی اتنا بلند تھا کہ دوسروں کو ہمت دے سکے۔
ماہ رنگ اب صرف ایک عورت نہیں رہی، وہ ایک اجتماعی آواز ہے۔
(بشکریہ: ’نیکیڈ پنچ‘، ترجمہ: حارث قدیر)