فاروق سلہریا
ڈئیر الباکستانی!
چند روز قبل چند پنجابی مسافروں کو بس سے اتار کر گولی مار دی گئی۔ اس واقعہ کے بعد ایک مرتبہ پھر آپ اپنے لاکھوں ہم خیال بہن بھائیوں کی طرح مجھ سے مطالبہ کر نے لگے کہ میں اس واقعہ کی مذمت کروں۔
میں جن دنوں اسلام آباد میں پریس کلب کے باہر سردی میں دھرنا دئیے بیٹھی تھی، تب بھی غریدہ فاروقی جیسے لوگوں کو میرے پاس بھیجا گیا جو آ کر مطالبہ کر رہے تھے کہ میں بلوچ سرمچاروں کی مذمت کروں۔
اُن دنوں عالمی میڈیا میں غزہ کا موضوع سرخیوں میں تھا۔ بد قسمتی سے اب تک ہے۔مجھے یاد ہے جوں ہی کسی فلسطینی کو بی بی سی یا سی این این سمیت کسی مغربی نیوز چینل میں بات کے لئے مدعو کیا جاتا تو پہلا سوال ہوتا کہ کیا آپ 7 اکتوبر کے روز اسرائیل پر حماس کے حملے کی مذمت کرتے ہیں۔
جتنے انٹرویو میں نے دیکھے، ان میں فلسطینی نمائندوں نے حماس کے اقدام کی مخالفت کی مگر ساتھ ہی یہ بھی پوچھا کہ کیا کسی دن یا کبھی بی بی سی، سی این این نے اسرائیل کے جاری جینوسائڈ کی مذمت کی؟
یہی سوال میں بھی آپ جیسے ہر الباکستانی سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ اگر پورے بلوچستان کی مہرنگ بلوچ بھی پنجابی مسافروں اور مزدوروں کی بلوچ مسلح گروہوں کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کی مذمت کر دیں تو بھی کیا آپ بلوچستان میں جاری نا انصافی، جبری گمشدگیوں اور فوجی آپریشنوں کے خلاف بولیں گے؟
پیارے الباکستانی بھائی! فلسطین میں مسئلہ حماس یا حماس کا نہیں ہے۔ فلسطین مین مسئلہ اسرائیل کا کلونیل قبضہ، اسرائیل کا نا قابل بیان ظلم اور اس کی سامراج کی جانب سے سر پرستی ہے۔
بلوچستان میں بھی مسئلہ یہاں کے مصلح گروہ نہیں ہیں۔ مسئلہ بلوچستان میں جاری مسلسل جبر کا ہے۔جبری گمشدگیاں اس کا ایک اظہار ہیں۔
اگر ہم بلوچ عورتوں کی بجائے اسلام آباد پریس کلب کے باہر آپ جیسے’محب وطن‘ لوگوں نے دھرنا دیا ہوتا تو شائد آج صورت حال مختلف ہوتی۔ اتفاق سے بلوچستان کا مسئلہ بھی اتنا ہی پرانا ہے جتنا فلسطین کا سوال۔ طاقت کے نشے میں صیہونیت نے کوئی سبق سیکھا ہے نہ آپ کی الباکستانیت نے۔
نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک طرف غزہ اور بلوچستان میں ایک سے ایک نیا المیہ جنم لیتا ہے تو دوسری جانب نہ صیہونیت چین سے جی پا رہی ہے نہ الباکستانیت۔ کبھی طاقت کا نشہ اترا تو اس موازنے پر غور کیجئے گا۔
ایک آخری بات! جتنا غصہ آپ کو بلوچ مصلح گروہوں پر آتا ہے اتنا تحریک طالبان پاکستان پر کیوں نہیں آتا؟ ان سے تو ہر چار مہینے کے بعد،ان کے گلے میں ہار ڈال کر مذاکرات شروع کر دئیے جاتے ہیں۔ بلوچ مصلح گروہوں سے مذاکرات سے پرہیز کیوں برتا جاتا ہے؟
ولسلام۔
مخلص،
مہرنگ بلوچ
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔