نقطہ نظر


گلگت بلتستان: عبوری صوبہ بنانے سے سہولت کار فائدہ اٹھائیں گے، عوام نہیں

گلگت بلتستان پاکستان کا سب سے زیادہ ’ڈی پولیٹی سائزڈ‘ علاقہ ہے۔ سیاست پر پابندیوں کی وجہ سے این جی اوز نے سیاسی جماعتوں کی جگہ لے لی۔ این جی اوز کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کو غیر سیاسی کریں۔

شعبدہ بازی اور انسانی نفسیات سے کھیلتی ’نائٹ مئیر ایلی‘

فلم کو 1930ء کی دہائی کے پس منظر میں شوٹ کیا گیا ہے۔ فلم چونکہ ایک نیو نویر کے انداز میں شوٹ کی گئی ہے تو روشنی اور سایوں کا استعمال نہایت خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ فلم کی ایڈیٹنگ بھی اچھی ہے۔ فلم لمبی نہیں لگتی اور بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔ فلم کی اوریجنل لوکیشز بفلو سٹی اور کچھ کینیڈا میں ہیں اس کے علاوہ سارے سیٹ بہت عمدہ بنائے گئے ہیں۔ میلے کا ماحول روایتی امریکی انداز کا ہے اور 1930ء میں امرا کے گھر اور ہوٹلوں کے انداز سے دوسری عالمی جنگ اور نازی جرمن کے وقت کی عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ڈاکٹر لالیتھ کا دفترانسانی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوے ڈیزائن کیا گیا ہے جو عالیشان ہونے کے ساتھ ساتھ اعصاب پر دہشت طاری کرتا ہے۔ اس کے پوشیدہ دروازے جیسے کئی راز چھپائے ہوئے ہوں۔ دیواروں کا رنگ، الماریوں کی بناوٹ اور نقش و نگار انسانی سوچ کو قابو میں لینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کے سٹین اور ڈاکٹر لالیتھ کے سین اتنے دلچسپ ہے۔ پھر ان دونوں کے مکالمے نہایت مہارت سے لکھے گئے ہیں۔

یہ سڑک آپ کے ابا جی کی نہیں ہے

ڈئیر ایلیٹ! مجھے معلوم ہے کہ آپ کے لاڈلوں کی بے ہودہ اور شرمناک حد تک خطرناک ڈرائیونگ آپ کی بے رحم طبقاتی طاقت کا اظہار ہوتی ہے۔ آپ کے لاڈلے ہمیں اپنی خوفناک حد تک مہنگی گاڑیوں میں بیٹھ کر حد درجہ ڈروانی ڈرائیونگ کے ذریعے یہ بتا تے ہیں کہ جس طرح ڈیڈی نے قانون کو تہس نہس کر کے ہذا من فضل ربیٰ حاصل کیا، کوئی قانون ڈیڈی کا کچھ نہیں بگاڑ سکا، اسی طرح کوئی ’چھلڑ‘، کوئی ٹریفک رُول، کوئی ٹریفک قانون، ٹریفک کی کوئی اخلاقیات لاڈلے بیٹے کا راستہ نہیں روکے گی۔ وہ دائیں سے اوورٹیک کرے یا بائیں سے۔ لال اشارہ توڑے یا پیلا۔ سب طاقت کا اظہار اور دولت کے نشے کا خمار ہوتے ہیں۔

پاکستان دنیا بھر میں طالبان کے مفادات کا چمپئن بننا چاہتا ہے: مائیکل گوگل مین سے گفتگو

صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں ایک ایگزکٹیو حکم کے ذریعے افغان سنٹرل بنک کے 3.5 بلین ڈالر فراہم کرنے کی راہ ہموار کی ہے جو امریکہ کے فیڈرل رزرو میں منجمد تھے۔ لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ رقم کب تک فراہم کی جا سکے گی اور کن مقاصد کے لئے استعمال کی جا سکے گی۔ افغانستان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ فاقے کی حد تک پہنچ رہے ہیں اور طالبان کے پاس انتظار کا مزید وقت نہیں ہے۔

پابندی حجاب پر نہیں ہندتوا پر ہونی چاہئے

۱۔ ریاست کو یہ حق نہیں کہ وہ ڈریس کوڈ مسلط کرے۔ ریاست ایران، سعودی عرب اور ترکی کی ہو یا فرانس یا بھارت کی۔
۲۔ ہم حجاب یا برقعے کے قائل نہیں لیکن ہم اس حق کا دفاع کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ خواتین خود کریں کہ انہیں کیا پہننا ہے۔ جس طرح عورت کو برقعہ پہننے کا حق ہے اسی طرح اسے جینز یا سکرٹ پہننے یا سر پر دوپٹہ نہ لینے کا حق بھی حاصل ہے۔ بعض لبرل حضرات جو برقعے پر پابندی کے حامی ہیں وہ ان مولویوں سے ہرگز مختلف نہیں جو مسکان خان کے حق لباس پر تو جہاد کرتے نظر آتے ہیں مگر سر ینگر کی عروسہ پرویز کو سر پر دوپٹہ نہ لینے کی وجہ سے سر قلم کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
۳۔ ہم بطور سوشلسٹ ایک ایسے سازگار ماحول کاقیام چاہتے ہیں جہاں عورت ہر طرح کے لباس میں محفوظ اور محترم محسوس کرے۔

فیشن، سٹائل، لالچ اور سازشوں سے بھرا ’ہاؤس آف گوچی‘

1992ء میں جب منموہن سنگھ جی نے انڈیا کو عالمی منڈی کے لئے کھولا تو دنیا بھر سے برانڈز انڈیا آئے اور پھر بالی وڈ میں رچ بس گئے۔ آج کے دور میں ہماری نوجوان نسل میں تو کوئی ہی ہو گا جسے گوچی کا نہ پتا ہو۔ فلم کا نام ہی انکو متاثر کرے گا اور میرے خیال میں یہ ایک قابل دید فلم ہے۔ اسطرح کی کوئی بھی فلم مکمل حقیقت پر مبنی تو نہیں ہوتی مگر ہم حقیقت کا اندازہ ضررور لگا سکتے ہیں۔

ایرانی فلم ’قہرمان‘ کا ہیرو عام آدمی، ولن سوشل میڈیا

فلم کا مرکزی کردار رحیم (عامر جدیدی) نے نبھایا ہے جو قرضہ واپس نہ کر پانے پر قید کاٹ رہا ہے اور فلم کے آغاز میں ہی دو دن کی ضمانت پر جیل سے باہر آتا ہے۔ رحیم طلاق یافتہ ہے اور ایک 12-11 سالہ بیٹے کا باپ۔ بیٹا اس کی عدم موجودگی میں اس کی بہن کے پاس رہتا ہے۔ رحیم کی ایک دوست خرشندہ (سحر گلدوست) جس کے ساتھ وہ شادی کرنا چاہتا ہے ایک بے باک عورت ہے جو اس کی مدد کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔

”یہ وہ پاکستان نہیں جسے میں جانتی ہوں“: ڈاکٹرانیتا واعظ سے گفتگو

آخر میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ اکثر لوگ مجھے بتاتے ہیں کہ وہ میری کتاب کے ذریعے پہلی بار ا ن تحریکوں اور کوششوں سے واقف ہوئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ ا دنیٰ سی کوشش قیامِ امن اور کسی حد تک شدت پسندی کے تدارک میں معاون ثابت ہو گی۔

’طالبان خان کی جگہ طالبان کے سہولت کار کو ووٹ ملنا بھی تشویشناک ہے‘

واضح طور پر یہ پی ٹی آئی مخالف ووٹ تھا۔ مہنگائی، بیروزگاری اور بدانتظامی سے عوام تنگ آ چکے ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے خلاف اپنا فیصلہ دیا ہے۔ یہ نتائج اسٹیبلشمنٹ اور سلیکٹروں کیلئے بھی ایک واضح پیغام ہیں کہ بس اب بہت ہو چکا ہے۔