1975ء میں انہوں نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن کے طور پر شمولیت اختیار کی، بعد ازاں پارٹی صدر بھی منتخب ہوئے۔ یوسف مستی خان نے ضیا آمریت کے خلاف 6 فروری 1981ء کو تشکیل دی گئی تحریک برائے بحالی جمہوریت کے نام سے کثیر الجماعتی اتحاد میں شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں پاکستانی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی اورپی این پی کراچی کے صدر بن گئے۔
Day: ستمبر 29، 2022
یوکرین جنگ میں حصہ نہیں لیں گے: 2 لاکھ روسی ملک سے فرار
’وہ لوگ جو حکومت کے خلاف ہیں، جو جنگ میں جانے کیلئے تیار نہیں، میرا مطلب ہے وہ لڑنے کیلئے تیار ہیں اگر سچائی کی جنگ ہو، منصفانہ جنگ ہو۔ جب آپ اپنے گھر کا دفاع کر رہے ہوں تو یہ مناسب ہے کہ آپ جائیں اور آپ ڈرتے نہیں ہیں۔ تاہم جب آپ احمقانہ جنگ میں لڑنے جاتے ہیں، اپنے بھائی کو مارنے کیلئے، تو یہ ایک ایسی جنگ ہے، جس میں کوئی چیز نہیں ہے اور اسی وجہ سے لوگ جا رہے ہیں۔“
ایران: آمریت کی حمایت 12 فیصد تک محدود
ابتدائی نعرے، جو عام طور پر اخلاقی پولیس کے خلاف لگائے جا رہے تھے، بڑے پیمانے پر سیاسی نعروں سے بہت تیزی سے تقویت پا گئے، جیسے کہ ”آمر مردہ باد“، ”اسلامی جمہوریہ مردہ باد“، ”کوئی شاہ نہیں، کوئی سپریم گائیڈ نہیں“، ”عورت زندگی، آزادی“، یا ”روٹی، کام، آزادی“۔ اس تحریک کو شروع سے ہی بہت زیادہ سیاسی بنایا گیا تھا اور اب یہ خالصتاً احتجاجی تحریک نہیں رہی۔
ایک نغمہ جو ہم سب پر قرض ہے!
اپنے اس پیغام کو’انسانیت کا پرانا نغمہ‘ قرار دیتے ہوئے وہ کہہ رہی ہیں کہ غربت، ماحولیاتی آلودگی اور طبقاتی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کا وقت آ گیا ہے۔