Month: 2024 جولائی


حکومتی تشدد کے خلاف بنگلہ دیشی طلبہ کی جاندار مزاحمت!

یہ شدید عدم مساوات اور استحصال بنگلہ دیش تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا بھر سرمیاداری کا پیدا کردا ہے اور خاص طور پر نیو لبرل پالیسیوں کے تحت بحران اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔ ڈھاکہ کی سڑکوں سے لے کر کشمیر کے پہاڑوں تک، چین کے کارخانوں سے لے کر جنوبی افریقہ کی کانوں تک دن رات محنت کرنےکے با وجود اربوں محنت کش اور مزدور اپنی زندگی برقرا نہیں رکھ پا رہے ۔ ایک کونے پر دولت کے مسلسل جمع ہوتے ہوئے ذخائر کی وجہ سےاشرفیہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے جبکہ دوسرے کونے پر عوام کو غربت اور بدحالی کی پستیوں کی سمت دھکیلا جا رہا ہے۔

پاکستان: تعلیمی ایمرجنسی پر عملدرآمد کے لئے کتنا بجٹ درکار ہے؟

طلبہ کو اس جمود کے عہد کو توڑنا ہو گا۔ مزاحمت کے علاوہ کوئی بھی راستہ طلباء کے مسائل کے حل کے لیے موافق نہیں ہے۔ مزاحمت کے ذریعے سے ہی وہ اپنے حقوق پر ڈالے گئے ڈاکے کا حساب لے سکتے ہیں۔ طلباء کو طلباء اور عوام دشمن پالیسیوں کو بانگ دل للکارنا ہو گا۔
اس تباہ حال تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیا جائے، سمسٹر سسٹم کا خاتمہ کیا جائے اور طلباء یونین پر عائد کی گئی پابندی کو ختم کیا جائے تاکہ طلباء بااختیار ہو سکیں اور مسائل کا تدارک کر سکیں ورنہ تعلیمی نظام کی نااہلی کی وجہ سے یہ معاشرہ مزید تغفن زدہ ہو گا۔

’آپریشن عزم استحکام: ریاست کنٹرولڈ طالبانائزیشن چاہتی ہے‘

’’ہمیشہ سے ہم نے دیکھا کہ گڈ طالبان بیڈ بن جاتے ہیں اور بیڈ ایک وقت میں گڈ بن جاتے رہے ہیں۔ یہ ریاست کا اپنا بیانیہ ہے۔ اسی طرح افغان طالبان کیلئے جو گڈ ہونگے، وہ پاکستانی ریاست کیلئے بیڈ ہونگے، جو افغان طالبان کیلئے بیڈ ہونگے، وہ ان کیلئے بیڈ ہونگے، جو دونوں کیلئے بیڈ ہونگے، وہ امریکہ کیلئے گڈ ہو جائیں گے۔ یہ جو ڈرامہ چل رہا ہے ، اسے ہمیں سمجھنا چاہیے۔ اسی بنیاد پر عسکریت کا کاروبار چل رہا ہے۔ اب لوگ بھی سمجھ چکے ہیں کہ گڈ اور بیڈ کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘

ستر کی دہائی، بھٹو اور فلمی صنعت

ایک پھلتا پھولتا سنیما کلچر ایک ایسے معاشرے کی نشاندہی کرتا ہے ،جس میں لوگ تفریح کے ذریعے اپنے مسائل، امیدوں اور خواہشات پر غور و فکر کرتے ہیں۔ ایسا پھلتا پھولتا سنیما کلچر پاکستان میں 70ء کی دہائی میں تھا۔ اس دہائی میں وہ سیاسی بیداری اور سماجی ترقی پسند اقدار واضح تھیں جن کی شروعات 1968 کی عالمی تحریک سے ہوئی تھی۔ اس دہائی میں تاریخ کی سب سے زیادہ فلمیں ریلیز ہوئیں اور پہلی بار سرکاری سطح پر ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں فلمی صنعت کو باقاعدہ پذیرائی ملی۔ یہ دہائی پاکستان میں نئے ٹیلنٹ کی دولت لے کر آئی۔ سنگیتا اور شمیم آرا جیسی خاتون ہدایتکاروں نے فلمی صنعت کے تنوع کو وسیع کیا۔ اردو کے جرائد‘مصور’، ‘شمع’، ‘ممتاز’ اور‘دھنک’ نے فلموں کے متعلق پڑھنے کا مواد فلم بینوں تک پہنچایا۔

شیام: اے سٹار فارگاٹن

شیام روشن خیال اور وسیع النظر انسان تھے۔ انگریزی اور اردو ادب کا وسیع مطالعہ تھا۔سعادت حسن منٹو ان کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ اشاعت سے پہلے منٹو اپنی کہانیاں شیام کو پڑھاتے۔دیگر قریبی دوستوں میں اداکار اوم پرکاش بھی شامل تھے۔اوم پرکاش سے لاہور میں دوستی ہوئی۔ اوم پرکاش نے ہی پہلی دفعہ فلم میں کام لینے میں مدد دی۔فلم پنجابی زبان میں تھی،نام تھا ’گوانڈھی‘ (پڑوسی،1942) جو لاہور میں بنی۔

جموں کشمیر: ’قرارداد الحاق پاکستان‘ ایک حقیقت یا افسانہ؟

19 جولائی کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت اور پاکستان نواز جماعتیں ’یوم الحاق پاکستان‘ کے طور مناتی ہیں۔ اس دن اس خطے میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ مسلم کانفرنس اور سردار ابراہیم کے حامی خود کو اس قرار داد کا محرک قرار دیتے ہیں۔ وہ اس بات کو فخر سے جتلاتے ہیں کہ وہ بائی چوائس پاکستانی ہیں، اورانہوں نے پاکستان بننے سے قبل پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ سابق صدورسردار ابراہیم، سردار عبدالقیوم اور ان کے چاہنے والوں کا دعویٰ رہا ہے کہ 19 جولا ئی 1947 کو مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل نے سردار ابراہیم کے سری نگر میں واقع گھر میں الحاق پاکستان کی قرار داد منظور کی اور 24 اکتوبر 1947 کی حکومت کی بنیاد اسی قرارداد کو ہی قرار دیا جاتا رہا ہے۔

@RoznamaJ: ہمیں ٹوئٹر پر فالو کریں

اس لئے ’روزنامہ جدوجہد‘ صرف ایک اخبار نہیں، ایک تحریک ہے جس کا مقصد ہے متبادل میڈیا کی تعمیر تا کہ عوام دشمن، عورت دشمن، امن دشمن، ماحولیات دشمن اور رجعتی قوتوں کے بیانئے کو بے نقاب کر کے ایک ایسے پاکستان کا وژن پیش کیا جا سکے جو جمہوری، سوشلسٹ، ماحول دوست، فیمن اسٹ اور سیکولر ہو۔

ہمیں فیس بک پر فالو کریں

’روزنامہ جدوجہد‘ پاکستان کا واحد ابلاغیاتی ادارہ ہے جو بلا ناغہ ترقی پسند، محنت کش اور سوشلسٹ نقطہ نظر کے ساتھ ایسی خبریں، تجزئے اور اطلاعات فراہم کرتا ہے جو مین اسٹریم سرمایہ دارمیڈیا سے یا تو غائب ہوتی ہیں یا اس انداز سے پیش کی جاتی ہیں کہ عوام کو گمراہ کیا جا سکے۔

افسانچہ: چھوٹا/بڑا

خیر تو وہ گھر والے ٹھیک ٹھیک رہتے تھے۔ تب تک جب تک وہ ایک دوسرے کو انسان سمجھتے تھے۔ بڑا پیارا ماحول رہتا تھا۔ سب ایک دوسرے کی خوشی ڈھونڈتے، ایک دوسرے کا دکھ دور کرتے، ایک دوسرے سے محبت کرتے ایک دوسرے کا احساس کرتے۔ان میں کوئی بڑا،چھوٹا،مرد اور عورت نہیں تھا سب انسان تھے۔