وہ خود بھی ایک سٹوڈیو قائم کرنے کی خواہش مند ہیں اور انکا دعویٰ ہے کہ جس فن میں انہیں مہارت حاصل ہے ایسا کام دنیا میں کوئی اور نہیں کر رہا ہے۔

وہ خود بھی ایک سٹوڈیو قائم کرنے کی خواہش مند ہیں اور انکا دعویٰ ہے کہ جس فن میں انہیں مہارت حاصل ہے ایسا کام دنیا میں کوئی اور نہیں کر رہا ہے۔
قبل ازیں پاکستان بھارت سے ادویات کی درآمد کی اجازت بھی دے چکا ہے۔
”یہ پولیس اہلکاران سول نافرمانی کی تحریک کو کچلنے کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کرنا چاہتے تھے۔“
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ یکم فروری کو میانمار کی فوجی قیادت نے نو منتخب سول حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ فوج نے ایک سال کے اندر انتخابات کروانے کا اعلان کر رکھا ہے اور انتخابات میں مبینہ دھاندلی کو تختہ الٹنے کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ آنگ سان سوچی کی نو منتخب حکمران جماعت کی قیادت کو گرفتار کر لیا گیاتھا۔ فوجی بغاوت کے خلاف گزشتہ ایک ماہ سے میانمار میں مسلسل احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ فوج کی جانب سے ابتدائی طو رپر مظاہرین کو شدید نتائج کی دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں۔
اس نظام کے زخموں سے چور محنت کش طبقہ وقتی طورپر کسی بڑی تحریک میں متحرک نظر نہیں آرہا ہے لیکن مختلف اداروں کے محنت کشوں کی بکھری ہوئی چھوٹی چھوٹی تحریکیں اور طالبعلموں میں پیدا ہونیوالی معمولی سیاسی ہلچل سطح کے نیچے پنپنے والے بغاوت اور انقلاب کے شعلوں کا پتہ دے رہی ہے۔ کوئی ایک واقعہ یا حادثہ اس بغاوت کو مہمیز دیتے ہوئے اس نظام اور حکمرانوں کو ’جبر کے آلے‘ سمیت خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ محنت کش طبقے کے دکھوں کی نجات کا منبع و مرکز محنت کش طبقہ خود ہے، جب وہ انگڑائی لے گا تو ایک نئی صبح تراش لائے گا۔
بھارتی کسانوں کے احتجاج سے یکجہتی کے اظہار کے لیے ایک مظاہرہ کیا جائے
”شہباز گل کو فوری طور پربطور معاون خصوصی وزیراعظم عہدے سے ہٹایا جائے کیونکہ متعدد بار یہ ثابت ہو گیا ہے کہ وہ اس عہدے اور حکومتی ترجمانی کے اہل نہیں ہیں۔“
میں جس مکان میں رہتا ہوں اسے گھر کر دے
مقررین کا کہنا تھا کہ مجموعی طورپر جنوبی ایشیا میں جمہوریت ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جہاں انسانی حقوق کی پامالی، اقلیتوں کا استحصال اور سیاسی و مالی بدعنوانیاں روزانہ کا معمول ہو گئے ہیں۔ جمہوریت صرف الیکشن کرانے کا نام نہیں بلکہ لوگوں کو ان کی پرامن طورپر آواز اٹھانے کا حق دینا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں کے درمیان تجارتی اور عوامی سطحوں پر تعاون کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ 2011ء سے اب تک چلنے والی خانہ جنگی اور سامراجی یلغار کے دوران 5.6 ملین سے زائد افراد شام سے ہجرت کر چکے ہیں اور 6.6 ملین افراد ملک کے اندر بے گھر ہو چکے ہیں۔