فاروق سلہریا
کچھ مصنوعات کو عالمگیریت (گلوبلائزیشن) کی علامت سمجھا جاتا ہے: کافی (Coffee)، گارمنٹس، آئی فونز اور کمپیوٹرز۔ان مصنوعات کی پیداوار اور فروخت کے مختلف مراحل میں دنیا کا ہر خطہ شامل ہوتا ہے۔ اسی طرح جن کمپنیوں کوعالمگیریت کی کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے ان میں سے ایک آئی فونز اور کمپیوٹر مصنوعات بنانے والی کمپنی ’ایپل‘ہے۔ اس کمپنی کو دنیا کے بڑے برانڈز میں شمار کیا جاتا ہے۔
ایپل کی ”کامیابیوں“ کے پیچھے مزدوروں کا کس طرح کا بد ترین استحصال ہوتا ہے‘ آئیے ذرا اس کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھتے ہیں:
2010ء میں چینی شہر شین ژین (Shenzhen)میں ایپل کی مصنوعات بنانے والے 18 مزدوروں نے خود کشی کی کوشش کی۔ ان مزدوروں نے خود کشی کا ایک سا طریقہ اپنایا: چھت سے چھلانگ۔ 14 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ مزدوربراہ راست ایپل کے ملازم نہیں تھے بلکہ شین ژین میں ایپل کی مصنوعات تیار کرنے والے یہ مزدور تائیوان کی کمپنی فوکس کون (FoxCon) کے ملازم تھے۔
ذرا سرمایہ داری کی برکتیں اور چینی ”کمیونسٹوں“ کی منافقتیں بھی دیکھیں۔ ویسے چین اور تائیوان دشمن ہیں مگر فوکس کون چین میں سب سے بڑی آجر (Employer) ہے۔ شین ژین میں قائم لونگ ہوآ (Longhua) نامی پلانٹ پر چار لاکھ سے زائد چینی مزدور کام کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ فوکس کون کے مجموعی ملازمین کی تعداد تیرہ لاکھ ہے۔ وال مارٹ اور میکڈونلڈز کے بعد وہ دنیا کی سب سے بڑی آجر ہے۔ اس کے ملازموں کی تعداد اسٹونیا کی آبادی کے برابر ہے۔
جب مذکورہ بالا خودکشیوں کی وجہ سے سرمایہ دارانہ میڈیا میں بھی تھوڑا شور مچا (جب تک انسانی المیہ جنم نہ لے سرمایہ دار میڈیا کو انسانی استحصال نظر نہیں آتا) تو فوکس کون کے سی ای اُو ٹیری گو (Terry Gou) نے فیکٹری میں جال لگوا دئیے تاکہ چھت سے کودنے والے مزدور خود کشی نہ کر سکیں۔ اس موقع پراردو کا مشہور شعر یاد آتا ہے:
مگس کو باغ میں جانے نہ دو
ناحق خون پروانے کا ہو گا
ایپل کے مالک سٹیو جاب جب 2011 ء میں فوت ہوئے تو کارپوریٹ میڈیا کے آنسو ہی تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ لبرل حضرات آج بھی اسٹیو جاب کے اقوالِ زریں اپنے فیس بُک پر پوسٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اسٹیو جاب کا ان خود کشیوں بارے رویہ ٹیری گو سے بھی زیادہ سفاکانہ تھا۔ جاب کے بقول اگر ساڑھے چار لاکھ لوگوں میں سے اٹھارہ نے خود کشی کر لی ہے تو پھر بھی اوسطاً یہ تعداد امریکہ میں ہونے والی خود کشیوں سے کم ہے۔
ٹیری گو ہو یا سٹیو جاب‘ کسی سرمایہ دارکو یہ نظر نہیں آئے گا کہ مزدور بارہ بارہ گھنٹے کام کر رہے تھے۔ اس گولاگ نما فیکٹری میں کام کرنے والی ایک چینی لڑکی، جو آئی فونز کی اسکرین پر ایک خاص طرح کی پالش لگاتی ہے، کے بقول روز اس کے ہاتھ سے 1700 آئی فونز گزرتے ہیں۔ گویا ایک منٹ میں اسے تین سیٹ پالش کرنے ہیں۔
فیکٹری میں کام کرنے والی ایک اور محنت کش لڑکی نے بتایا کہ اُس نے کبھی چلتا ہوا آئی فون ہاتھ میں نہیں پکڑا ہے۔ یعنی ان محنت کشوں کو اتنی کم اجرت دی جاتی ہے کہ لاکھوں آئی فون اپنے ہاتھوں سے بنانے کے باوجود وہ اسے خرید نہیں سکتے ہیں۔
صرف کام کا دباؤ ہی نہیں۔ ساتھی مزدوروں سے بات کرنے یا ٹائلٹ جانے کی اجازت مانگنے پربھی فورمین بے عزتی کرتے ہیں۔
بجائے حالاتِ کار بہتر بنانے کے‘خود کشیاں روکنے کے لئے کچھ دیگر اقدامات کئے گئے ہیں۔
جب شفٹ بدلتی ہے تو نئی شفٹ پر آنے والے مزدوروں کے لئے لازمی قرار دیا گیا کہ وہ ایک جگہ اکٹھے ہو کر نعرہ لگائیں گے کہ وہ خوش ہیں اور نئے بھرتی ہونے والے مزدوروں کے جاب کنٹریکٹ میں یہ شق شامل کر دی گئی کہ وہ خود کشی نہیں کریں گے! کنٹریکٹ کے مطابق طے کیا گیا کہ خود کشی کرنے والے مزدوروں کے خاندان کو کمپنی کی طرف سے کوئی مدد یا پنشن نہیں ملے گی۔
اس کے باوجود 2012ء میں 150 مزدور چھت پر جمع ہوئے۔ انہوں نے اپنے مطالبات نہ ماننے کی صورت میں اجتماعی خود کشی کی دھمکی دی۔ مطالبات مان لئے گئے۔ 2016ء میں ایک مرتبہ پھر سات آٹھ مزدور چھت پر جمع ہوئے۔ مطالبات نہ مانے جانے کی صورت میں انہوں نے اجتماعی خود کشی کی دھمکی دی۔ مطالبات ایک مرتبہ پھر مان لئے گئے۔ گویا مزدوروں کی موت اورزندگی کے مابین تنخواہ میں معمولی سے اضافے کی صورت میں ملنے والے چند روپے کا فاصلہ ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ 2010ء میں ایپل نے پندرہ ملین آئی پیڈ فروخت کئے۔ اس کا منافع 14 ارب ڈالر تھا۔ جو پاکستان کے اس وقت کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کے دو گنا سے بھی زیادہ بنتا ہے۔
تو یہ ہے کامیاب عالمگیریت اور ابھرتے ہوئے”کمیونسٹ“ چین کی بھیانک کہانی۔ بالزک نے سچ کہا تھا: ہر بڑی جائیداد کے پیچھے لوٹ مار کی ایک کہانی پوشیدہ ہوتی ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔