(مندرجہ ذیل اقتباس، فرانس سے تعلق رکھنے والے معروف فرانسیسی فلسفی اور فورتھ انٹرنیشنل کے رہنما دانیال بن سعید کی خود نوشت ’این امپیشنٹ لائف‘ (An Impatient Life) سے لیا گیا ہے۔ اس اقتباس میں دانیال بن سعید فورتھ انٹرنیشنل کے رہنما ارنسٹ مینڈل بارے اپنے ان مشاہدات کا ذکر کرتے ہیں جو انہوں نے فورتھ انٹرنیشنل کے پیرس میں قائم انٹرنیشنل سیکریٹیریٹ میں ایک ساتھ کام کرتے ہوئے کئے۔ ترجمہ: فاروق سلہریا)
ارنسٹ مینڈل ہمارے لیے ایک اعلیٰ ترین عالم ہی نہیں تھے بلکہ ایک گرو کی طرح تھے، جن سے ہم بہت کچھ سیکھتے۔ وہ ہمارے نظریاتی استاد تھے اور دو نسلوں کے مابین ایک پل کی حیثیت رکھتے تھے۔ ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا لیکن ارنسٹ مینڈل مائیکل پابلو، خوان پوساداز، پیئر لیمبارٹ یا ٹونی کلف کی طرح سخت گیرگرو نہیں بنے۔ ان کے حریفوں نے ’مینڈل ازم‘ کی جو اصطلاح گھڑی تھی، وہ فروغ نہ پا سکی۔ بلجیم میں ایک ٹراٹسکی وادی کارکن کے طور پر، وہ ابراہم لیون سے متاثر ہوئے(ابراہم لیون بلجیم سے تعلق رکھنے والے ٹراٹسکی اسٹ تھے۔ ان کا انتقال نازی کیمپ میں ہوا۔ وہLa Conception Materialiste De Question Juiveکے مصنف تھے۔ یہ کتاب1968میں ای ڈی آئی کے زیر اہتمام پیرس سے شائع ہوئی)۔
17سال کی عمر میں مینڈل کو جلاوطن کر دیا گیا۔1950کی دہائی میں مینڈل نے فیصلہ کیا کہ وہ محض ماضی کی باقیات پر سر نہیں کھپائیں گے بلکہ عہد حاضر کی نئی چیزوں کا مشاہدہ کریں گے۔
مارکسسٹ اکنامک تھوری(جو1960کی دہائی کے اوائل میں شائع ہوئی)، لیٹ کیپیٹلزم (1977) اور لانگ ویوز (1980)جیسی تصانیف میں مینڈل نے عصر حاضر میں ارتکاز سرمایہ (Capital Accumulation) کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی۔ دو عالمی جنگوں کے درمیانی عرصے میں جاں بلب رہنے والی سرمایہ داری دوسری عالمی جنگ کے بعدپھر سے متحرک نظر آئی۔
مینڈل سے روزانہ بنیادوں پر رابطہ علم کے کنوئیں سے ہر روز پیاس بجھانے کا سبب تھا اور یوں مارکسزم کے بنیادی ستونوں سے مستقل واقفیت بڑھتی گئی۔
مینڈل کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ جرمن، انگریزی اور فرانسیسی میں ایک سی مہارت کے ساتھ لکھ سکتے تھے۔ اطالوی زبان کے تڑکے والی گلابی سی ہسپانوی بھی بول لیتے تھے۔ مینڈل کا مگر یہ کہنا تھا کہ انہیں خواب ہمیشہ ان کی مادری زبان فلیمش میں آتے ہیں۔ مینڈل کی تکریم اور اثرورسوخ جرمنی، لاطینی امریکہ اور انگریزی دان دنیا میں واضح تھا۔ ’نیو لیفٹ ریویو‘ کے حساس مدیر پیری اینڈرسن کی نظر میں مینڈل گفتگو کے ماہر تھے۔
(1980کی دہائی میں مینڈل نے کئی ہفتے لگا کر ایک مضمون لکھا۔ اس مضمون کا عنوان تھا:
Delightful Murder: A social history of the crime story (London: Pluto Press, 1984)
اس مضمون کی اشاعت کے بعد پیری اینڈرسن نے مینڈل کو غصے میں لکھا کہ جب مارکسزم پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں، آپ اپنا قیمتی وقت Hercule Poirotپر برباد کر رہے ہیں)۔
اس سب کے باوجود بے شمار موضوعات پر مینڈل کی گرفت ایسے کئی نیم حکیم قسم کے دانشوروں کی نسبت کہیں زیادہ تھی، جو وقتی طور پر شہرت حاصل کر لیتے ہیں۔
کیا مینڈل شستہ قسم کے انسان نہ تھے، بہت ہی بلجیئن تھے؟ بلاشبہ، آمرانہ حد تک خود انحصاری اور حماقتوں کے شکار میڈیا اور یونیورسٹی کی نظر میں تو وہ غیر تھے۔ ایک مصیبت یہ بھی تھی کہ انہیں معیشت دان کے خانے میں رکھا جاتا تھا۔ اوپر سے ان کی تربیت جرمن وضع کی تھی۔ یہ دونوں خصوصیات فرانس میں پائی جانے والی عدم سنجیدگی سے میل نہیں کھاتی تھیں۔
ان کے ساتھ کام کے نتیجے میں میرے دل میں ان کی عزت ضرور پیدا ہوئی مگر دل میں کسی قسم کا ا’نس نہیں جاگا۔ ناول نگارپروست کے کردار فرانسواز (Francoise)کی طرح، مینڈل عام طور پر اپنے قریبی لوگوں کی نسبت دورپار والوں کی جانب زیادہ فراخدلی کا مظاہرہ کرتے۔ ان سے مکالمہ کرنا آسان نہیں تھا۔ یا تو وہ اپنے مخاطب سے خودکلامی کے انداز میں بات کرتے چلے جاتے یا اپنے مخاطب سے چبھتے ہوئے سوال کرتے تاکہ ایسی معلومات مل سکیں جس سے مینڈل کا اپنا نقطہ نظر درست ثابت ہوتا ہو۔ یہ تعلق کم ہی دو طرفہ اور مساوات پر مبنی ہوتا۔ اگر اس ضمن میں کوئی استثناء تھی تو اڈری(Udry) تھاجسے بجا طور پر مینڈل اپنا جانشین بھی تصور کرتے تھے اور اپنا قائمقام بھی۔
وہ سراپا روشن فکر انسان تھے۔ انہیں پیداواری قوتوں کی آزادی بخش صلاحیتوں پر اعتماد تھا۔ انہیں سائنس کی طاقت اور ترقی کی تاریخی منطق پر بھروسہ تھا۔ ان میں اس قدر ذہانت تھی کہ انہیں ماحولیاتی تباہی کا ادراک بہت پہلے سے ہو گیا تھا۔
جاسوسی کہانیاں پڑھنے کے علاوہ ٹکٹ جمع کرنے اور جانوروں کی البم بنانا ان کے پسندیدہ مشغلے تھے۔ مینڈل ارادے کے لحاظ سے ہمیشہ پرامید رہتے جبکہ منطق کے لحاظ سے شاذونادر ہی ناامیدی کا شکار ہوتے۔ ان کا خیال تھا کہ مستقل انقلاب مستقل تباہی سے جیت جائے گا اور ان کے ترتیب دئیے تناظر کے مطابق سوشلزم (تقریباً) ہمیشہ بربریت کو شکست دیتا ہوا نظر آتا تھا۔
وہ تاریخی مادیت کا استعمال عمرانی معروض اور پازیٹوازم کے اختلاط کے ساتھ کرتے۔ ایسی جدلیات میری نظر میں بہت رسمی سی تھی۔ ایسی جدلیات میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں زبان و بیان کی شعبدہ بازی ہونے لگتی ہے۔ یہ ایک طرح کا ایسا آلہ ہے جس کی مدد سے حال میں درپیش سیاسی مشکلات سے جان چڑھانے کے لیے عالمگیر تاریخی احساس کا سہارا لیا جائے۔جب ایسے واقعات ہوتے جو مینڈل کے ذہن میں موجود کسی کلئے کی نفی کرتے(مثال کے طور پر نکاراگوا میں انقلاب یا افغان جنگ) تو مینڈل اس مشکل سے نپٹنے کے لیے تاریخی پس منظر کی تفصیلات میں جاتے، کئی طرح کی تھیوریٹیکل احتیاطوں کا سہارا لیتے مگر اصل مسئلے پر بات نہ کرتے۔
نظریے اور عمل میں تفاوت اس لیے بھی تھا کہ مینڈل کی زندگی ایک اقلیت کے طور پر گزری اور وہ لمبا عرصہ مرکزی سیاست کے حاشیوں میں ہی متحرک رہے۔
قصہ مختصر، ان میں کافی حد تک اسی قسم کی کمزوریاں پائی جاتی تھیں، جنکا محبت بھرا شکوہ آدولف یوفے نے ٹراٹسکی سے اس خط میں کیا تھا، جو اس نے خودکشی سے قبل ٹراٹسکی کو لکھا تھا۔
اس کے باوجود مینڈل کوئی عام دانشور نہ تھے۔ وہ روز مرہ کے کاموں میں بھی اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے، بھرپور حصہ لیتے۔ ان کا بہت سارا وقت اور توانائی معمولی نوعیت کی خط و کتابت،مضحکہ خیز مباحث اور فنڈ ریزنگ کی نظر ہوجاتا۔