نقطہ نظر

عورت کی آزادی ایک آزاد انسانی سماج کی متقاضی!

علیزہ اسلم

سرمایہ داری کے بحران نے معاشی گراوٹ، سیاسی چپقلشوں، قحط، جنگوں اور ماحولیاتی تباہی کو زیادہ بڑے پیمانے پر بڑھایا ہے۔ جبر و تشدد، ناانصافی اور استحصال کو مزید تیز تر کردیا ہے۔ دوسری طرف تیسری دنیا میں خاندانوں کو درپیش معاشی مسائل نے عورت کو گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ جہاں عورتیں پہلے ہی دوہرے استحصال کا شکار تھیں، وہیں ان معاشی مسائل کی زدمیں آکر تہرے استحصال کا شکار ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ گھر سے نکل کر کام کی جگہ تک ایک عورت کو طرح طرح کے مسائل کا سامنا ہے جن میں ذہنی اور جنسی طور پر ہراساں کیا جانا سر فہرست ہے۔

8 مارچ ہر سال محنت کش خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کا آغاز 1908 میں نیویارک کی ایک گارمنٹس فیکٹری کی خواتین کے احتجاج سے ہوا تھا۔ 1910 میں کوپن ہیگن میں ہونے والی دوسری انٹرنیشنل کی کانگریس میں جرمن کمیونسٹ کلارازٹکن نے اس دن کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منانے کی تجویز دی تھی جس کے بعد آج تک اسے خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

اس دن 1908 میں محنت کش خواتین نے اپنے حقوق کے لیے کام بند کر تے ہوئے حکمران طبقے کے سامنے احتجاجی ہڑتال کی اور اپنے مطالبات کو بزور طاقت منوایا۔اس کے باوجود جدید سرمایہ دارانہ دنیا میں بھی آج بھی پدر سری، صنفی تفریق، اجرتوں میں فرق اور جنسی ہراسگی سمیت بے شمار مسائل کا عورت کو سامنا ہے۔تاہم تیسری دنیا میں اس سے بھی بڑھ کر آج ایک صدی کے بعد بھی ماضی کی فرسودہ رسوم و رواج اور روایات نے عورت کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ آج بھی گھریلو تشدد اور خاندان کے جبر کے ساتھ ریاستی قوانین، قصاص ودیت، آدھی شہادت، غیرت کے نام پر قتل، پیسوں کے عوض کسی بھی مرد کے حوالے کرنا، جہیز کے نام پر آگ لگانا اور ایسی ہی کئی روایات تلواربن کر عورت کے سر پہ لٹکتی رہتی ہیں۔

اس وقت جہاں دنیا بھر میں عورت دوہرے استحصال کا شکار ہے تو وہاں بالخصوص تیسری دنیا میں عورت تہرے استحصال کا شکار بنتے ہوئے محض بچے پیدا کرنے والی مشین بن چکی ہے۔ 10 اکتوبر 2024 کو جاری ہونے والی یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق’370 ملین لڑکیوں اور خواتین یا ہر 8 میں سے 1نے 18 سال کی عمر سے پہلے زیادتی یا جنسی حملے کا سامنا کیا ہے۔‘

یہ محض وہ واقعات ہیں جن کا سرکاری طور پر اندراج کیا گیاہے۔ اس کے علاوہ کئی ایسے واقعات ہیں جنہیں عزت و عظمت کے ڈر یا کسی دباؤ کی وجہ سے کبھی درج ہی نہیں کروایا گیا،جبکہ آج ہر 6 گھنٹے میں ایک جنسی زیادتی ہوتی ہے۔ کہیں اجتماعی زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں اور کہیں زیادتی کے بعد تشدد کرکے قتل جیسے واقعات سامنے آتے ہیں۔ حتیٰ کہ 5 سال کی بچیوں، بچوں سے لے کر 60، 70 سال کی خواتین تک بھی آج محفوظ نہیں ہیں۔

ایک ڈاکٹر جو انسانی زندگیوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے، لیکن خود وہی ڈاکٹر کسی وحشی درندے کے ہاتھوں اس نظام کے مردہ ہونے کا ثبوت بن جاتی ہے۔ ڈاکٹر مومیتہ اپنی ڈیوٹی کے دوران جنسی زیادتی کا شکار ہوئی اور زیادتی کے بعد اس حد تک تشدد کیا گیا کہ اس کے چشمے کا شیشہ تک آنکھ میں دھنسا ہوا تھا اور جسم پر ایسے ایسے تشدد کے نشانات ملے جو ناقابل بیان ہیں۔

اس سماج میں پولیس کو لوگوں کی جان و مال کامحافظ سمجھا جاتا ہے، لیکن دوسری طرف پولیس انسپکٹر ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا ہے۔ آخر جو محافظ ہیں ان سے ایک خاتون محفوظ نہیں رہ سکتی تو اس نظام کے اندر کیسے کوئی عورت ایک آزاد انسانی زندگی گزار سکتی ہے؟ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والی طالبات، دفاتر، سکولوں یا دیگر جگہ کام کرنے والی محنت کش خواتین، گھر میں کام کرنی والی عورتیں اور حتیٰ کہ 5 سال کے بچے بچیاں تک بھی یہاں محفوظ نہیں ہیں۔آئے روز گھریلو تشدداور جہیز نہ ملنے پر جلا دینے جیسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں اور یہ تمام اس نظام کی دین ہیں۔ سماجی اور معاشی مسائل کی وجہ سے گھر میں روٹی، پانی اور بجلی کی عدم دستیابی کی اذیت کو جھیلنے کے ساتھ ساتھ ایک ماں بے رحمی سے جسمانی تشدد کا سامنا بھی کرتی ہے۔

دوسری طرف ہمیں بہت محدود پیمانے پر ہی سہی لیکن عورت اس نظام کے خلاف لڑتے ہوئے بھی نظر آتی ہے۔ آج سے تقریباً تین دہائیاں قبل جب جنرل ضیاء نے شریعت کے نفاذ کے نام پر خواتین کے متعلق بدترین غیر انسانی قوانین متعارف کروائے تو تب یہ جرأت مند خواتین اس پدرشاہانہ سوچ اور اپنے خلاف ہونے والے ظلم اور زیادتی کے خلاف احتجاج میں سڑکوں پر نکل آئیں۔ 1983 میں جب ضیاء کی آمریت کا سیاہ دور تھا،جس میں مردوں کو بھی ان کے حقوق نہیں دیے جا رہے تھے۔ اس دور میں یہ خواتین گھر وں سے نکلیں اور اس سیاہ دور کے کالے قانون کے خلاف دلیری سے احتجاجی مارچ میں شامل ہوئیں۔ ڈاکٹر مومیتہ کا ریپ کیس ہو، ایران میں ملائیت ہو یا افغانستان میں انتہا پسندی، خواتین نے ان تمام مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہمیشہ احتجاجوں اور دھرنوں کے ذریعے حکمران طبقے کو یہ باورکروایا ہے کہ ان کو ایسے کیڑے مکوڑوں کی طرح کچلا نہیں جاسکتا۔وہ بلوچستان کے مسنگ پرسن کی بازیابی کی تحریک ہو، جموں کشمیر میں آٹے، بجلی کے حصول کی تحریک ہو، بنگلہ دیش میں کوٹا سسٹم کے خلاف تحریک ہو،یا فلسطین کے حق میں احتجاج ہوں،خواتین نے ہر تحریک، ہر احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔

اس نظام کے اندر رہتے ہوئے بیشتر مواقع پرخواتین نے اپنے مطالبات منوائے، حاصلات حاصل کیں لیکن یہ نظام ہی اپنے اندر اتنا کھوکھلا ہوچکا ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے سے قاصر ہے۔ اسی وجہ سے اس نظام کے اندر رہتے ہوئے بہتر زندگی کا تصور کرنا ایک خواب ہے،جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاں دنیا کی کل آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے وہیں محنت کش طبقے کا بھی نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔

عورت کی نجات اور حقوق نسواں کے لیے جدوجہد میں بھی ہمیں مختلف رجحانات نظر آتے ہیں۔ بیشتر این جی اوزاور لبرل نظریات کے نمائندگان بھی حقوق نسواں اور پدرسری معاشرے کے خلاف جدوجہد میں متحرک نظر آتے ہیں اور مارکس وادی بھی اس جدوجہد کو منظم کر رہے ہیں۔ اول الذکر مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے خاتمے کے لیے اس نظام کے اندر اصلاحات کی گنجائشیں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔تاہم ان مسائل کو گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو نجی ملکیت اور اس کی بنیاد پر طبقات میں تقسیم ہوا معاشرہ ان مسائل کا اصل موجب ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام طبقاتی معاشرے کی جدید ترین شکل ہے اور اس نظام نے عورت کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے عورت کی حیثیت کو محض نجی ملکیت سے باہر نکال کر اب ایک منڈی کی شے بنا دیا ہے۔ یوں عورت کی آزادی اس کو کاروبار مقاصد کے لیے جسمانی یا روحانی طور پر استعمال کیے جانے کو ہی قرار دیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں عورت کو گھروں سے نکال کر سستی لیبر اور اشتہاروں میں اس کا استعمال کر نے کے ایک پرزے کے طور پر منافعوں کے لیے استعمال کرنے اور دوہرے استحصال کا شکار بنانے کو اس نظام نے عورت کی آزادی قرار دیا ہے۔ دوسری جانب مارکس وادی یہ سمجھتے ہیں کہ پدرشاہی نظام کا خاتمہ اور عورت کو معاشرے میں ایک برابر کے انسان کا درجہ اسی وقت مل سکتا ہے جب عورت کو معاشی آزادی میسر ہو اور تمام رجعتی قوانین کی بیخ کنی کی جائے۔ عورت کی غلامی کی وجہ محض مردوں کی پدرشاہانہ ذہنیت نہیں ہے، بلکہ اس ذہنیت اور مردانہ بالادستی کی سوچ کوپروان چڑھانے والی مادی وجوہات ہیں۔ یوں پدرشاہانہ ذہنیت کا خاتمہ تب ہی ممکن ہے کہ جب وہ مادی حالات تبدیل کر دیے جائیں گے، جن کی بنیاد پر وہ ذہنیت پروان چڑھتی ہے۔

لیون ٹراٹسکی نے لکھا تھاکہ ’کسی بھی سماج کا بنیادی یونٹ ماں ہے، جب تک ماں نہیں آزاد ہوگی سماج آزاد نہیں ہو سکتا۔‘ دراصل ماں ہی وہ واحد نقطہ ہے جہاں معیشت اور ثقافت کے تمام تانے بانے ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیں۔ اس لیے ماں کی آزادی کو سماج کی آزادی سے جوڑا گیا ہے۔ ماں کی آزادی کا سب سے پہلے تعلق گھریلو مشقت سے نجات ہے۔سال میں 365 دن اور 24گھنٹے بنا کسی چھٹی اور اجرت کے ایک عورت (ماں) کام کرتی ہے، اور اگر زندگی کے حالات کو بدلنا ہے تو اسے عورت کی نظر سے دیکھنا سیکھنا پڑے گا۔

خواتین کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی تحریک یا انقلاب مکمل نہیں ہو سکتا۔ عورت کی نجات تب ہی ممکن ہے جب عورت اور مرد بنا کسی جنسی /صنفی تفریق کے مشترکہ طبقاتی جدوجہد کریں اور اس مشترکہ جدوجہد کے ذریعے تمام سماجی، اخلاقی، معاشی اور تاریخی بندھنوں کو توڑ کر نئے انسانی بندھن تعمیر کرنے کی جدوجہدکریں۔ ایک غیر طبقاتی سماج کے قیام کی جدوجہد، جس سماج میں ایک عورت آزاد انسان کی حیثیت سے زندگی گزار پائے گی،حقیقت میں وہی ایک آزاد انسانی سماج ہوگا۔

Alizah Aslam
+ posts