صائمہ بتول
سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے انسانی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔ سماج میں بڑھتی ہوئی غربت، بے روزگاری اور مہنگائی سے ہر انسان متاثر ہو رہا ہے خواہ وہ مرد ہے یا عورت۔ لیکن اس معروض میں جہاں ایک طرف انسان چاند پہ قدم رکھ چکا ہے وہیں پہ دوسری طرف عہد وحشت کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔ محنت کش طبقے کے مردوں کی نسبت خواتین پہ جبر زیادہ ہے۔ موجودہ دور میں عورت جن مصائب و الام سے گزر رہی ہے اور جو ناروا سلوک عورت کے ساتھ ہو رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ انسانی معاشرہ مختلف ارتقائی ادوار سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہے جس میں ابتدائی انسانی معاشروں میں عہد وحشت و بربریت، پھر طبقاتی سماجوں میں غلام داری، جاگیرداری اور پھر سرمایہ دارانہ نظام رائج ہوا۔
موجودہ وقت میں جہاں ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس سرمایہ داروں کو بڑے فائدے دے رہی ہے وہیں پہ بلیک میلنگ مافیاز جن کو طاقت ور افراد اور یہاں تک کہ حکومتی آشیر آباد حاصل ہوتی ہے وہ یونیورسٹی اور کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیوں کو کبھی تصویروں کے ذریعے اور کبھی ویڈیوز کے ذریعے بلیک میک کر کے حکومتی وزیروں اور مشیروں کے پاس بھیجتے ہیں اور بے دردی سے ان کا جنسی استحصال کرنے کے بعد یا تو انھیں مار دیتے ہیں یا ان کے ذریعے اپنے گھناؤنے مقاصد پورے کرتے ہیں۔
ہمارے خطے کی عورت ایک ایسی زندگی گزارنے پہ مجبور ہے جہاں پہ اسے نہ تو ذہنی سکون میسر ہے نہ جسمانی آسائش۔ نوکری پیشہ خواتین کی زندگی ہر وقت داؤ پر لگی رہتی ہے۔ ہر دن انھیں جسمانی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت کم خواتین ہیں جو اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کر رہی ہیں مگر ان کے لیے وہ کاروبار بھی گالی بنا دیا جاتا ہے۔ راہ چلتے لوگ ان کو جسمانی طور پہ ہراساں کرتے ہیں۔ گویا عورت کا معاشی طور پہ خود کفیل ہونا بہت بڑا جرم ہو۔ کم عمری کی شادی کا رواج آج بھی اس خطے میں عام ہے۔ معاشی طور پہ مجبور والدین بیٹی کو خود کفیل بنانے کی بجائے اس کا بوجھ سر سے اتار دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ زچگی کے دوران مرنے والی خواتین کی تعداد ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ غربت کے ہاتھوں مجبور عورتیں بچے کی پیدائش کے دوسرے دن ہی اٹھ کے کام پر چلی جاتی ہیں۔ بیشتر عورتیں غذائی قلت کا شکار ہیں۔ معذور بچوں کی پیدائش پہلے کی نسبت زیادہ ہو رہی ہے۔ محنت کش خواتین کے لیے زچگی کے دوران صحت کا خیال رکھنا ایک دیوانے کا خواب بن چکا ہے۔ دیہی علاقوں میں آج بھی عورتیں پانی سے بھرے ہوئے گھڑے سر پہ رکھ کے ڈھوتی ہیں اور لکڑیاں جمع کرنے کے لیے جنگلوں کا رخ کرتی ہیں۔ ان حالات میں اگر کوئی عورت اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہے تو اسے سر راہ گالیوں سے نوازا جاتا ہے۔ پسماندہ ممالک میں عورت کا جینا مشکل ہو چکا ہے۔ معاشی جکڑ بندیوں نے عورت کے استحصال میں اضافہ ہی کیا ہے۔ عورت کو سرمایہ داری نے کموڈیٹی بنا دیا ہے۔ معصوم بچیوں کے ساتھ ریپ کے کیسوں میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کے سیاسی ڈھانچے میں خواتین کو دیکھا جائے تو ہمیں وہاں صرف با اثر طبقے کی عورت ہی نظر آتی ہے۔ پاکستان میں سوائے امیر طبقے کی خواتین کے کسی کو بھی چین کی زندگی نصیب نہیں۔
غریب محنت کش طبقے کے مرد و خواتین ظلم و جبر کا شکار ہیں۔ سماج کا اصل تضاد طبقاتی ہے۔ 8 مارچ محنت کش خواتین کے عالمی دن کی اہمیت کو بھی لبرل اور فیمنسٹ بورژاوی مسخ کرتی نظر آ رہی ہے۔ محنت کش خواتین کے عالمی دن کی تاریخ بنیادی طور پر گارمنٹس کی فیکٹری میں کام کرنے والی عورتوں کی ایک ہڑتال سے شروع ہوئی۔ لیکن محنت کش خواتین کی اس عظیم تحریک کو مروجہ نظام اور اس کے حواری زائل کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل نظر آتے ہیں تاکہ سماج میں اتھل پتھل نہ ہو اور سرمایہ داری کا استحصال برقرار رہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محنت کش خواتین اس طبقاتی تفریق کو سمجھتے ہوئے ایک ایسی لڑائی لڑنے کی جانب جائیں جہاں محنت کش مرد و خواتین صنفی امتیاز سے بالا تر ہو کر باہمی جڑت بناتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑائی لڑیں تبھی آزادی حاصل ہو سکے گی۔ ایک سوشلسٹ سماج ہی مرد و عورت کو حقیقی آزادی کی ضمانت دے سکتا ہے۔