فیڈریکو فوینٹس
مائیکل رابرٹس ایک مارکسی ماہر معاشیات ہیں جنہوں نے لندن شہر میں 40 سال سے زیادہ کام کیا اور ’دی نیکسٹ ریسیشن‘ میں معاشی مسائل پر لکھتے ہیں۔ وہ’دی لانگ ڈپریشن: مارکسزم اینڈ دی گلوبل کرائسز آف کیپیٹل ازم‘ کے مصنف اور ’کیپیٹل ازم ان دی ٹونٹی فرسٹ سنچری: تھرو دی پریزم آف ویلیو‘ کے شریک منصنف ہیں۔
’لنکس انٹرنیشنل جرنل آف سوشلسٹ رینیول‘ کے لیے فیڈریکو فوینٹس کے انٹرویو میں مائیکل رابرٹس نے 2اپریل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اعلان کردہ ٹیرف کی حالیہ یلغار کی وضاحت کی۔ اسے ٹرمپ نے ’یوم آزادی‘کا نام دیا لیکن وال اسٹریٹ جرنل نے اسے ’تاریخ کی سب سے گھٹیا تجارتی جنگ‘کے طور پر بیان کیاہے۔ رابرٹس اس بات کا خاکہ پیش کرتے ہیں کہ وہ امریکی عالمی بالادستی کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے ٹرمپ کے وسیع تر منصوبے میں کیسے فٹ ہوتے ہیں، اور بائیں بازو کا ردعمل کیسا نظر آتا ہے۔انٹرویو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
کیا آپ ٹرمپ کے نئے ٹیرف کی اہمیت، اور اس کے محرک کی وضاحت کر سکتے ہیں؟ کیا ٹیرف کے ذریعے ٹرمپ کی خواہشات کے پورے ہونے کا امکان بھی ہے؟
مائیکل رابرٹس: امریکی اشیا کی درآمدات پر ٹرمپ کا ٹیرف میں اضافہ 130 سے زائد سالوں میں سب سے بڑا ہے، جس سے موثر اوسط ٹیرف کی شرح 25 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اس سے غریب ’گلوبل ساؤتھ‘کے ممالک سے امریکہ کو اشیا کی برآمدات کو شدید نقصان پہنچے گا، جنہیں کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ دوسری طرف ویتنام جیسے ملک کو 45 فیصد کے ٹیرف میں اضافے کا سامنا ہے، جبکہ چین کو 59 فیصد کے ٹیرف میں اضافے کا سامنا ہے۔ تمام ممالک کے لیے 10فیصد ٹیرف میں اضافہ کیا گیا ہے، چاہے امریکہ کا ان کے ساتھ تجارتی خسارہ نہ بھی ہو۔
ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ان ٹیرف میں اضافے کی ضرورت ہے تاکہ دوسرے ممالک کی طرف سے ’برے طریقوں‘، غیر منصفانہ ٹیکسوں، کوٹے اور سبسڈی کے ذریعے امریکی مینوفیکچرنگ کی ’ڈکیتی‘ کو ختم کیا جا سکے۔ اس کا مقصد امریکی تجارتی خسارے کو کم کرنا یا ختم کرنا اور غیر ملکی صنعت کاروں کو براہ راست امریکہ میں سرمایہ کاری اور فروخت کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ اس کا مقصد امریکی گھریلو مینوفیکچررز کو اس قابل بنانا بھی ہے کہ وہ غیر ملکی ساختہ سامان کو امریکی مینوفیکچررز سے بدل سکیں، اور اس طرح ’امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں‘۔
یہ سراسربکواس ہے۔ امریکہ نے 1980 کی دہائی میں دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی خسارہ چلانا شروع کیا کیونکہ امریکی مینوفیکچرنگ نے سستی مزدوری اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنا کام گلوبل ساؤتھ اور کینیڈا میں منتقل کر دیا۔ امریکہ کو برآمد کیا جانے والا زیادہ تر سامان میکسیکو، کینیڈا، چین وغیرہ میں مقیم امریکی کمپنیوں سے آتا ہے۔ ویتنام امریکہ کو لاکھوں جوتے برآمد کرتا ہے، جو وہاں کی 59 امریکی ملکیتی نائیکی فیکٹریوں میں بنتے ہیں۔ ٹیسلا اپنی زیادہ تر الیکٹرک کاریں چین میں بناتی ہے۔ اندرون ملک امریکی مینوفیکچرنگ کے اخراجات بیرون ملک سے کہیں زیادہ ہیں، نہ صرف اس وجہ سے کہ مزدوری زیادہ مہنگی ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ بیرون ملک، خاص طور پر چین میں پیداواری صلاحیت میں نئی ٹیکنالوجیزکی وجہ سے بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
یہ محصولات امریکی صارفین اور کاروباروں کے لیے ضروری سامان کی درآمدات میں کمی یا ان کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنیں گے اور یوں امریکی معیشت کو نقصان پہنچے گا۔ دوسرا، اگر جوابی کارروائی ہوتی ہے، جیسا کہ ہو گا، تو امریکی برآمدات کوبھی اس کے مطابق نقصان پہنچے گا، جس کے نتیجے میں تجارتی خسارے میں شاید ہی کوئی تبدیلی آئے گی۔ بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ ترقی کو کم کرے گی، افراط زر میں اضافہ کرے گی اور امریکہ اور دیگر معیشتوں میں کساد بازاری کا باعث بنے گی جو پہلے ہی کساد بازاری کے دہانے پر ہیں۔
کیا امریکی سرمایہ دار ٹرمپ کے ٹیرف کی حمایت کرتے ہیں؟
مائیکل رابرٹس:مالیاتی شعبے اور بڑے کاروبار کی حامل حکمران اشرافیہ صدمے میں ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ٹرمپ صرف تجارت، سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی پر چھوٹ حاصل کرنے کے لیے ٹیرف میں اضافے کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ یہ صرف جزوی طور پر سچ ہے۔ انہیں اب احساس ہورہاہے کہ یہ ٹیرف برقرار رہنے کا امکان ہے۔ نتیجے کے طور پر امریکی اسٹاک مارکیٹ ڈوب گئی۔ٹاپ سوشل میڈیا اور ٹیک کمپنیوں (نام نہاد میگنیفیسنٹ سیون) کے اسٹاک کی قیمتیں مزیدگر گئیں، اور یہاں تک کہ امریکی ڈالر بھی گر گیا۔ مرکزی دھارے کے ماہرین اقتصادیات ٹرمپ کے محصولات کی مذمت میں عملی طور پر متفق ہیں۔
لیکن ابھی تک حکمران طبقے کی طرف سے ان کے خلاف کوئی سیاسی اقدام نہیں کیا گیا ہے، حالانکہ رائے عامہ کے جائزے ٹرمپ کے خلاف منفی ہیں۔ وہ ٹرمپ کے دھڑوں سے خوفزدہ ہیں۔ ڈیموکریٹس خاموش ہیں، سرمایہ کار بینک بھی خاموش ہیں اور تیل کمپنیاں حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ امریکی زرعی برآمدات پر چین اور دیگر ممالک کی طرف سے جوابی کارروائی کے خوف سے صرف امریکی کسان ہی رو رہے ہیں۔ یہاں ٹرمپ بیل آؤٹ پیکج کا اشارہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے آٹو درآمدات پر کینیڈا اور میکسیکو کے خلاف محصولات سے بھی گریز کیا ہے (جیسا کہ ان میں سے زیادہ تر سرحد کے اس پار واقع امریکی کمپنیوں سے ہیں)۔ اس وقت حکمران طبقہ مفلوج ہے۔
یہ محصولات ٹرمپ کی وسیع تر خارجہ پالیسی، خاص طور پر چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تصادم میں کیسے فٹ ہوتے ہیں؟
مائیکل رابرٹس:ٹرمپ کے پاگل پن میں کوئی نہ کوئی طریقہ ہے۔ وہ امریکہ کو دنیا میں بالادست طاقت کے طور پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں، لیکن اب ڈیموکریٹس کی طرح پولیس کا کردار ادا کر کے ایسا کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ٹرمپ منرو ڈاکٹرائن کی طرف واپس آنا چاہتے ہیں۔ 1823 میں اس وقت کے امریکی صدر جیمز منرو نے تجویز پیش کی کہ یورپی نوآبادکار لاطینی امریکہ سے باہر رہیں اور مغربی نصف کرہ کو امریکہ کے لیے چھوڑ دیں۔ 19ویں صدی کے آخر تک لاطینی امریکہ اس کا’بیک یارڈ‘ بن چکا تھا۔ اس کے بعد امریکہ نے اپنے سامراجی عزائم کو بحرالکاہل کے پار فلپائن تک بڑھایا، اور ایک بڑھتے ہوئے جاپان کا مقابلہ کیا، جو بالآخر پرل ہاربر اور دوسری عالمی جنگ میں امریکہ کے داخلے کا باعث بنا۔
آج ٹرمپ یورپ کو پھینکنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ خود روس کے ساتھ ڈیل کریں، جبکہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی دیکھ بھال اور ایران کے ساتھ ڈیل کرنے کے قابل بنانا چاہتے ہیں۔اس کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ کو چینی معیشت کا گلا گھونٹنے کی کوششوں کو تیز کرنے اور چین کو امریکی کٹھ پتلی میں تبدیل کرنے کے لیے ایک حتمی ’رجیم چینج‘پر مجبور کرنے کی گنجائش فراہم کی جائے، جیسا کہ جاپان بن چکا ہے۔ بدقسمتی سے ٹرمپ کے لیے اور اس منرو پلس ڈاکٹرائن کے لیے 60فیصد ٹیرف میں اضافے کے باوجود چین کا عروج روکنے میں شاید بہت تاخیر ہو چکی ہے۔
پچھلی چند دہائیوں میں سے زیادہ تر امریکہ ہی اس کے پیچھے محرک تھا،جسے اکثر ’گلوبلائزیشن‘کہا جاتا ہے، اورجس نے تجارتی رکاوٹوں کو کم کرنے کی کوشش کی۔ کیا یہ ٹیرف ’گلوبلائزیشن‘کے اختتام کا اعلان ہیں؟
مائیکل رابرٹس:1990 اور 2000 کی دہائیوں کی گلوبلائزیشن کی لہر2008-09 کی عظیم کساد بازاری کے ساتھ ختم ہوئی۔ 2010 کی دہائی کے دوران عالمی جی ڈی پی کے ایک حصے کے طور پر عالمی تجارت، خاص طور پر عالمی اشیا کی تجارت، جمود کا شکار رہی۔ ٹرمپ کے ٹیرف اس کو مزید خراب کریں گے۔ گلوبلائزیشن کی دہائیوں میں امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنی پیداوار بیرون ملک منتقل کی اور اپنا منافع جان بوجھ کر بنائی گئی ٹیکس ہیونز میں منتقل کیا۔ بڑی معیشتوں کے مابین سرمائے کا بہاؤ تیز ہوا، لیکن گلوبل ساؤتھ کے استحصال میں بھی اضافہ ہوا۔تاہم 2010 اور 2020 کی دہائی کے لانگ ڈپریشن میں سرمائے کا بہاؤ بھی کم ہو گیا ہے۔
اگر ٹرمپ کے محصولات مزید اقتصادی ڈی کپلنگ کی طرف اشارہ کرتے ہیں، تو کیا یہ گلوبل ساؤتھ ممالک کے لیے مزید خود مختار ترقیاتی حکمت عملیوں کو آگے بڑھانے کے لیے جگہ پیدا کر سکتا ہے؟
مائیکل رابرٹس: کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ ’ڈی کپلنگ‘، یعنی گلوبل ساؤتھ ممالک اور سامراجی کورممالک کے درمیان نسبتاً کم ہونے والی تجارت اور سرمائے کا بہاؤ، بڑے گلوبل ساؤتھ ممالک کو زیادہ ترقی پسند معاشی ’صنعتی حکمت عملی‘ متعارف کرانے، سامراج کی گرفت سے بچنے اور ’کیچنگ اپ‘ کے آغاز کی اجازت دے گا۔ اس پر میرے تحفظات ہیں۔ امریکی سامراج گزشتہ چند دہائیوں میں کمزور ہوا ہے۔ یہ جزوی طور پر ٹرمپ کے عروج کی وضاحت کرتا ہے، لیکن امریکہ اب بھی غالب مالی طاقت ہے (امریکی ڈالر اب بھی حکمرانی کرتا ہے) اور دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے۔ اسے اب بھی دوسرے سامراجی ممالک کی پشت پناہی (زیادہ تر) حاصل ہے۔
متبادل برکس گروپ (برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کی قیادت میں) سیاسی اور اقتصادی طور پر متنوع ہے، اور اس کا کوئی حقیقی مالی یا فوجی اثر نہیں ہے۔ زیادہ تر برکس ممالک مطلق العنان آمریتوں (روس، چین، ایران، سعودی عرب) یا کمزور نیو لبرل سرمایہ دارانہ حکومتوں (جنوبی افریقہ، بھارت) کے ذریعے چلائے جاتے ہیں،جو محنت کش طبقے کے مفادات کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔ سامراج سے توڑنے اور آزاد معاشی ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے ان معیشتوں کے بڑے شعبوں کی عوامی ملکیت، منصوبہ بند ریاستی سرمایہ کاری، محنت کش طبقے کی جمہوریت اور ایک بین الاقوامی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہوگی جو چین میں بھی موجود نہیں ہے۔ اس کی بجائے برکس رہنما ایسی پالیسیوں کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔
ٹرمپ نے ’ملازمتیں واپس لانے‘ اور ’امریکی ورکرزکی حفاظت‘کے طریقے کے طور پر اپنے محصولات وضع کیے ہیں۔ گلوبل نارتھ یا ساؤتھ کی محنت کش طبقے کی قوتوں کو ان محصولات کے بارے میں اور دوسرے ممالک سے جوابی محصولات کی بات پر کیا موقف اختیار کرنا چاہیے؟
مائیکل رابرٹس:بہت سے امریکی ٹریڈ یونین لیڈر اس یقین کے ساتھ ٹیرف کی حمایت کر رہے ہیں کہ اس سے مزید ملازمتیں پیدا ہوں گی اور گھریلو صنعتوں کو بحال کیا جائے گا۔ یہ غلط ہے کیونکہ ٹیرف صرف امریکی برآمدات کو کم کرے گا، افراط زر کو تیز کرے گا اور امریکہ کو کساد بازاری کی طرف لے جائے گا۔ مزید برآں ٹرمپ امیروں کے لیے ٹیکسوں میں بڑی کٹوتیوں کی تیاری کر رہے ہیں، جس کی ادائیگی بھاری سرکاری خدمات، طبی اور فلاحی کٹوتیوں سے کی جائے گی۔ امریکی مزدور رہنماؤں کو چاہیے کہ تمام خدمات میں کٹوتیوں کی مخالفت کریں، امیر اور بڑے کاروبار پر زیادہ ٹیکسوں کا مطالبہ کریں، اور بینکوں اور میگنیفیسنٹ سیون کو ٹیک اوور کرنے کا مطالبہ کریں، ساتھ ساتھ ملازمتوں اور پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے ریاستی قیادت میں سرمایہ کاری کے منصوبوں کا مطالبہ کریں۔ مزدور رہنماؤں کو قوم پرست، تحفظ پسند اور تارکین وطن مخالف پالیسیوں کی مخالفت کرنی چاہیے، اور دوسرے ممالک میں مزدوروں کے ساتھ اتحاد اور مشترکہ پالیسیاں قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
گلوبل ساؤتھ میں محنت کشوں کے رہنماؤں کو نہ صرف ٹیرف کی مخالفت کرنی چاہیے بلکہ اپنی معیشتوں پر سرمایہ دارانہ کنٹرول کے خاتمے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ انہیں آزاد تجارت کے لیے مشترکہ پالیسیاں قائم کرنے، قرضوں کے جابرانہ بوجھ کو ختم کرنے اور موسمیاتی کنٹرول کے موثر اقدامات کے لیے گلوبل نارتھ میں کارکنوں کی تنظیموں کے ساتھ رابطہ قائم کرنا چاہیے، کیونکہ گلوبل وارمنگ پہلے ہی عالمی سطح پر علاقوں کو تباہ کر رہی ہے۔
(بشکریہ: ’لنکس‘، ترجمہ: حارث قدیر)