لاہور (جدوجہد رپورٹ) ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والے دنیا کے 450 بینکوں کی قرضوں پر کی جانیوالی سرمایہ داری کرہ ارض کے ماحول کو سالانہ 1.1 ٹریلین ڈالر سے زائد کا نقصان دے رہی ہے۔ ماحول کو پہنچنے والے نقصانات کے باوجود معاشی ترقی اور منافعوں کی لالچ میں حکمران طبقات ان منصوبوں سے ہونے والے نقصانات سے آنکھیں چرائے ہوئے ہیں۔
بین الاقوامی نشریاتی ادارے رائٹرز پر شائع ہونیوالی دنیا میں حیاتیاتی تنوع پر کام کرنیوالی تنظیم فنڈز فار بائیو ڈائیورسٹی انیشی ایٹو کی رپورٹ کے مطابق ڈویلپمنٹ فنانس انسٹیٹیوٹس (ڈی ایف آئی) کی ایک چوتھائی سرمایہ کاری فطرت کو سنگین نقصانات اور خطرات سے دوچار کر رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 2019ء میں ان 450 ترقیاتی بینکوں کی جانب سے کی جانیوالی 11.2 ٹریلین ڈالرز کی سرمایہ کاری میں سے 3.11 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کمزور ایکو سسٹم والے علاقوں میں کی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے فطرت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
ان ترقیاتی بینکوں کی اکثریت حکومتوں کی ملکیت ہے اور یہ پوری دنیا میں انفراسٹرکچر، زراعت اور دیگر منصوبوں کیلئے قرضوں کی شکل میں مالی اعانت کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سے منافعے کماتے ہیں۔ یہ سرمایہ کاری ایسے ترقی پذیر ملکوں اور علاقوں میں کی جاتی ہے جہاں ماحولیاتی قوانین یا تو کمزور ہوں یا ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہو۔ اس طرح یہ بینک اور ان سے قرض لینے والی حکومتیں اور نجی سرمایہ کار تو بھرپور منافعے حاصل کر لیتے ہیں لیکن حیاتیاتی تنوع سمیت ماحولیاتی نظام کو مختلف طرح کے نقصانات پہنچانے کی قیمت پر یہ تمام مالیاتی سرگرمی انجام پاتی ہے۔
رپورٹ میں مالیاتی اداروں سے ماحول کو پہنچنے والے نقصان کی جانچ کرنے اور فطری تناؤ کو کم کرنے کیلئے حکمت عملی اپنانے کی اپیل کی گئی ہے۔ تاہم سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے ایسا ممکن نہیں ہے۔ جہاں سرمایہ کاری اور پیداوار منافع اور شرح منافع کے حصول کیلئے کی جاتی ہے وہاں فطرت اور محنت کے استحصال کے بغیر منافع اور شرح منافع حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے سرمایہ داری نظام کو اکھاڑتے ہوئے پیداوار کا مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل اور ماحول دوست طریقوں کے استعمال کی طرف منتقل کئے بغیر فطرت اور ماحولیاتی نظام کو تباہی سے بچانا ممکن نہیں ہے۔