پاکستان میں کرکٹ بہت شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ خاص کر جب ورلڈ کپ یا کوئی بڑی سیریز کھیلی جا رہی ہو تو لگ بھگ پورا ملک ٹیلی ویژن اسکرین سے چپکا ہو تا ہے۔ آپ میچ دیکھنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ٹیلی ویژن چینل آپ کو میچ دکھا رہا ہے۔ حقیقت میں چینل کے نظر میں آپ ایک جنس (commodity)ہیں جسے چینل اشتہاری کمپنیوں کے ہاتھ بیچ رہا ہوتا ہے۔ کرکٹ میچ ہو یا کوئی ڈرامہ،چینل کے لئے یہ میچ یا ڈرامہ ایک بہانہ ہوتا ہے۔اس بہانے وہ آپ کو اپنے پاس بلاتا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں،کہ آپ چینل کی آڈینس ہیں۔ اصل میں چینل کی آڈینس اشتہار دینے والی کمپنیاں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لگ بھگ ہر بال کے بیچ، ہر اُوور کے بیچ، اشتہار چل رہا ہوتا ہے۔
نقطہ نظر
سرخ جھنڈا اور جموں کشمیر کی عوامی حقوق تحریک
گزشتہ روز بڑے بھائیوں کے آشرباد سے چلنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر چلنے والی ایک وڈیو نظر سے گزری۔ ویڈیو میں جموں کشمیر میں موجود حریت پسندوں اور انقلابیوں کو انتشاری ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ وڈیو میں راولاکوٹ سے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ایک رہنما کا ایک کلپ بھی شامل کیا گیا تھا،جس میں جناب سرخ جھنڈے اور نظریات سے بیزاری کا اظہار کر ہے تھے۔
کیا پاکستانی سوشلسٹ ہمیشہ کے لئے ناکام ہیں؟
دریں اثنا،گذشتہ دس پندرہ سال میں بائیں بازو نے کسی حد تک اپنے وجود کا احساس دلایا ہے۔ نہ صرف ملک بھرکی یونیورسٹیوں میں طلبہ سیاست میں بائیں بازو کے گروہ متحرک ہیں، بعض کارکن ملک بھر میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ٹریڈ یونین تحریک میں کوئی بڑا ابھار دیکھنے میں نہیں آیا لیکن کئی چھوٹی چھوٹی لڑائیاں بائیں بازو کی قیادت میں لڑی گئی ہیں۔علی وزیر کی شکل میں بایاں بازو وفاقی پارلیمنٹ تک بھی پہنچا۔ بائیں بازو کے نظریات میں پہلے کی نسبت نوجوان طبقے کی دلچسپی بڑھی ہے۔ دانشور طبقے میں بھی ایسے افراد نظر آتے ہیں جو مارکس وادی نظریات سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔
بھنسالی کی ہیرا منڈی میں لاہور کا ’ماتم‘
بھارتی ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کی نیٹ فلکس سیریز ‘ ہیرا منڈی: دی ڈائمنڈ مارکیٹ’ کی تعریف اور تنقید دونوں جاری ہیں۔
اس فلم کی کہانی،اس کے کرداروں کی پرفارمنس، اس کی موسیقی،سکرین پلے کی تکنیک کے حوالے سے اس کی خوبیاں اور خامیاں، یہ سب اس مضمون کا موضوع نہیں ہے۔میں یہاں تقسیم سے پہلے والے اس لاہور کے بارے میں بات کروں گا، جوہندووں،سکھوں،مسلمانوں،انگریزوں،اینگلو انڈین نسل اور پارسیوں کے دلوں میں دھڑکتا تھا۔
”ہیرا منڈی“ میں جو شہر دکھایا گیا ہے وہ کس کا شہر ہے؟ اس کو کس کی نظر سے دکھایا گیا ہے؟سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ فلم نے شہر کو ایک نئے انداز میں پیش کیا ہے۔
خود غرضی، نرگسیت اپنی ذات سے نفرت کا اظہار ہوتے ہیں: ایرک فرام
خود غرضی خود سے محبت کرنے کا نام نہیں۔ دراصل خود غرضی اور خود سے محبت ایک دوسرے کا متضاد ہیں۔ خود غرضی لالچ کی ایک قسم ہے۔ ہر قسم کے لالچ کی طرح، خود غرضی کا پیٹ بھی نہیں بھرتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خود غرضی کے نتیجے میں کبھی بھی اطمینان نہیں ملتا۔
ہیرا منڈی بطور سافٹ ہندتوا: پاکستان دہشت گرد سے بازار حسن تک
آٹھ قسطوں پر مبنی،سنجے لیلا بھنسالی کی نیٹ فلکس سیریز’ہیرا منڈی‘ کا ذکر سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر تو سنائی دیا ہی، راقم کے تجربے میں حالیہ دنوں میں شائد ہی کوئی ایسی محفل تھی جہاں اس سیریز کا ذکر نہ ہوا ہو۔بی بی سی اردو کے کالم نگار وسعت اللہ خان عام طور پر فلموں بارے نہیں لکھتے۔انہوں نے بھی ’ہیرا منڈی‘ پر کالم لکھ ڈالا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس حد تک تو یہ سیریز پاکستان میں کامیاب رہی کہ اسے دیکھا گیا،اس پر بات ہوئی۔
پاکستان کے چار چیلنج: معیشت، ماحولیات، فکری بنجر پن اور خارجہ پالیسی
اس پس منظر میں یہ امر قابل توجہ ہے کہ ملکی برآمدات کم سے کم ہو رہی ہیں۔ تارکین وطن جو رقوم بھیجتے تھے،ان میں کمی آ رہی ہے۔عام طور پر ان رقوم سے زر مبادلہ کی نازک صورتحال تھوڑی بہتر ہو جاتی تھی۔ان مسائل کے مرغوبے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان میں فیصلہ سازی کرنے والوں کے ہاتھ پاوں پھولے ہوئے ہیں جو بگڑی ہوئی معاشی صورت حال سے نپٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاسی پولرائزیشن نے پاکستان کی معاشی صورت حال کو مزید گڑ بڑا دیا ہے جس سے بے چینی مزید بڑھ گئی ہے۔سیاسی بیانئے میں موجود تقسیم سے بے یقینی پر مبنی ماحول میں مزید تیزی آئی ہے جس کے نتیجے میں معاشی بحالی کے لئے اقدامات لینا اور مشکل ہو گیاہے لہذا بیرونی امدا د کا سہارا لیا جاتا ہے جس کی اہم ترین شکل آئی ایم ایف پیکج ہیں۔ یہ کڑوی گولی بار بار نگلنی پڑ رہی ہے۔
ایک بھاری قیمت، جو ادا کرنی ہے
دنیا کا ہر ملک صحت کی دیکھ بھال کے حوالے سے اپنے اپنے چیلنجوں سے نبردآزما ہے لیکن ایک بات واضح ہے: صحت کی دیکھ بھال کو منافع کمانے والے ادارے کے طور پر فروخت کرنا ایک تباہی ہے،جیسا کہ امریکہ اس بات کا ثبوت ہے، جو مسلسل صحت کی دیکھ بھال پر فی کس زیادہ خرچ کرتا ہے اور بہت سے دیگر ملکوں کے مقابلے میں زندگی کی توقع، بچوں کی اموات وغیرہ کی صورت میں اس کے صحت کی دیکھ بھال کے بدتر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
سندھ نامہ (آخری حصہ): سندھ نے عمران خان کو ووٹ کیوں نہیں دیا؟
ان سارے شہروں اور علاقوں میں گھومتے ہوئے یا چھوٹے چھوٹے قصبوں سے گزرتے ہوئے جا بجا اگر کسی سیاسی جماعت کا پراپیگنڈہ نظر آیا تو وہ پیپلز پارٹی تھی۔ اس کی ایک وجہ شائد یہ تھی کہ انتخابی مہم کے دوران لگائے گئے پوسٹر اور بینر ابھی اترے نہیں۔ نوے کی دہائی میں قوم پرست جماعتوں کے پرچم اور وال چاکنگ زیادہ نمایاں ہوتی تھی۔ قوم پرست اب کی بار لگ بھگ غائب تھے۔ شائد ہی کہیں کسی قوم پرست جماعت کا جھنڈا یا وال چاکنگ دکھائی دی۔
چمکیلا کو گولی اور مستانہ کو تھپڑ نے مارا
چمکیلا غیرریاستی عناصر کی گولی سے اور مستانہ ریاستی عناصر کے تھپڑ سے مارا گیا ۔چمکیلا کو امتیاز علی مل گیا لیکن مستانہ کو شاید کسی امتیاز علی کا انتظار ہے ۔اوربارڈر کے دونوں طرف ورکنگ کلاس کو ایک ایسے نظام کا انتظار ہے جو انہیں زندگی میں ایسے مواقعے مہیا کرے کہ وہ اپنا بہتر کلچر تشکیل دے سکیں۔