نقطہ نظر


’بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گہرے اثرات، الیکشن ماضی کی طرح بے معنی ہیں‘

”بلوچستان میں ماضی کی طرح موجودہ الیکشن بھی انتہائی خوف و ہراس اور غیر یقینی صورتحال میں ہو رہے ہیں۔ ایک طرف وہ قوتیں ہیں جو الیکشن نہیں چاہتیں، اور ایک طرف وہ قوتیں ہیں جو انتہائی کنٹرولڈ الیکشن کے ذریعے من پسند لوگوں کو کامیاب کروانا چاہتی ہیں۔80فیصد غربت ہے، بجلی، گیس، تعلیم، علاج سمیت پینے کے صاف پانی کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ بے شمار وسائل ہونے کے باوجود ان وسائل سے بلوچ عوام کی زندگیاں تبدیل نہیں سکیں۔ کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا۔ الیکشن بلوچ عوام کیلئے بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔“

روحانی غربت کا شکار معاشرہ

سرمایہ درانہ سماج نے جہاں انسان کو مہنگائی، بے روزگاری، بھوک، لاعلاجی اور جہالت کے ذریعے مادی غربت کا شکار کر رکھا ہے،وہاں منڈی کی معیشت نے انسان کی لالچ، خود غرضی،حسد اورمقابلہ بازی پر مبنی جس سوچ اور رویوں کو جنم دیا ہے، اس نے انسان کو بڑے پیمانے پر روحانی غربت کا شکار کر رکھا ہے۔اس سماج میں جھوٹ بولنا اور دھوکہ دینا فن تصور کیا جاتا ہے۔جو انسان اس فن سے نہیں واقف ہے وہ اس سماج میں زندہ رہنے کے لیے نہیں موافق ہے۔انسان محض دوسرے انسان کے خلاف نہیں ہے،بلکہ اپنے آپ کے خلاف بھی برسر پیکار ہے۔محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو پیٹ کی بھوک مٹانے اور دیگر ضروریات زندگی کے حصول لیے اپنی مرضی کے خلاف قوت محنت کو بیچنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اسے اپنے آپ کے خلاف عمل کرنا پڑتا ہے،جو عمل اسے خود سے اور سماج سے بیگانہ کر دیتا ہے۔دوسری طرف سرمایہ دار طبقے کو بے رحم استحصال، دھوکہ دہی اور لوٹ مار کے ذریعے دولت حاصل کرنے کا عمل اس سے اس کی انسانیت چھین کر اسے درندہ بنا دیتا ہے۔اپنے جیسے انسانوں کو پیروں تلے روند کر آگے بڑھنے کی خواہش اور عمل انسان کو سنگ دل اور بے رحم بنا دیتا ہے۔

چاکلیٹی فیمن ازم بمقابلہ بلوچ خواتین کا فیمن ازم

سوشلزم کی طرح،فیمن ازم کا مطلب بھی ہے مزاحمت، قربانی، جدوجہد۔ پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میں تو لبرل ہونا بھی جان جوکھوں کا کام ہے۔ فیمن ازم تنظیم کا تقاضا کر تی ہے۔ تنظیم سازی کے لئے پیسے اور وقت کی قربانی درکار ہوتی ہے۔ ہم یہ توقع تو نہیں رکھتے کہ تنظیم کا ہر رکن ریڈ روزا (Red Rosa)یا ایما گولڈ مین (Emma Goldman)کی طرح جان کی بازی لگانے پر تیار ہو لیکن ایک بنیادی کمٹ منٹ اور مزاحمت تو اس تحریک کے ہر رکن پر فرض ہے۔ وائے افسوس فیمن ازم کی ایسی نسلیں بھی پائی جاتی ہیں جنہیں میں انگریزی میں feminism of conveniece قرار دیتاہوں۔ تن آسان فیمن ازم۔ چاکلیٹی فیمن ازم۔ سوشل میڈیا کی بگڑی زبان میں: ہومیو پیتھک فیمن ازم۔

مارکس، ماریہ چرچ اور مزدور

ماریہ چرچ کی مرمت کرنے والے مزدوروں نے اپنی حفاظت کے لئے ایک انوکھا طریقہ دریافت کیا ہوا تھا۔ خود کو موٹے رسوں سے باندھ کر انہوں نے رسوں کے دوسرے سرے چرچ کی دوسری جانب کھڑی اپنی گاڑی سے باندھ دئیے تھے۔ البم دیکھنے سے میری بات کی صحیح وضاحت ہو سکے گی(کہا جاتا ہے کہ جنگ میں فوجی افسروں نے ملٹری اکیڈمی میں جو پڑھا ہوتا ہے،بے کار جاتا ہے البتہٰ سپاہی بہترین دفاعی حکمت عملی خود سے ترتیب دیتے ہیں کیونکہ انہیں جان دینا یا بچانا ہوتی ہے)۔

بلوچ نسل کشی کیخلاف پاکستانی عوام ہمارا ساتھ دیں، یہ ہر مظلوم کی تحریک ہے: گلزار دوست بلوچ

”یہ کریمہ بلوچ کی ہی تحریک ہے،جس کی آج قیادت ماہ رنگ بلوچ، آمنہ بلوچ، سمی دین بلوچ اور صبیحہ بلوچ کے ہاتھوں میں ہے۔ بلوچ نسل کشی اور بربریت کے خلاف پاکستان بھر کے عوام اسی طرح ہمارا ساتھ دیں اور سرکاری بیانیہ کو مسترد کریں۔ یہ ہر مظلوم کی تحریک ہے اور تمام مظلوم مل کر ہی جیت سکتے ہیں۔ عوام بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ ہیں۔ مقابلے میں لگایا گیا دھرنا ریاست کے کارندوں کا ہے۔ ریاست کے یہ حربے عوام ناکام بنائیں گے۔“

پرویز ہود بھائی کی بے باک، بے دھڑک تاریخ نویسی

آخر میں یہی کہوں گا کہ یہ کتاب پاکستان میں تاریخ نویسی کے حوالے سے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کتابوں کی کمی نہیں جو نظریاتی تعصب کا شاہکار ہیں۔ ایسی کتابیں بھی موجود ہیں جن میں تحقیقی عرق ریزی تو کی گئی ہے مگر کتاب کا موضوع کسی محدود سے اکیڈیمک مسئلے کا جواب تلاش کرتا ہے جبکہ متنازعہ موضوعات سے اجتناب برتا جا تا ہے۔
پرویز ہودبھائی کی کتاب بے شمار موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ کتاب ویدک دورسے شروع ہو کر موجودہ دہائی کے پاکستان پر روشنی ڈالتی ہے۔ یہ ایک ایسے سائنسدان کی تحریر ہے جس کی سوچ واضح ہے۔ ہر بات ثبوت کے ساتھ کی گئی ہے۔ اگر آپ سوشل سائنسٹسٹ ہیں اور آپ کی کسی تحریر کا حوالہ اس کتاب میں موجود نہیں تو خندہ پیشانی سے کام لیجئے گا کیونکہ پرویز ہودبھائی نے وہی حوالے پیش کئے ہیں جن کا تعلق ان کی دلیل سے بنتا تھا۔

ہالی وڈ بمقابلہ بالی وڈ: ایک مارکسی تجزیہ

امریکی زوال بارے اگر کسی کو کوئی غلط فہمی ہے تو غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت سے یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہئے۔ چین اور روس کا کردار کہیں نظر نہیں آ رہا(ثقافتی شعبے میں بھی چین اور روس کہیں دکھائی نہیں دیتے)۔ سوشلسٹ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو نئی سرد جنگ کا آغاز کوئی اچھی خبر ہے نہ امریکہ کا مسلسل سامراجی کردار۔ احسن انداز میں امریکی سامراج کا زوال نئی سرد جنگ سے نہیں،نئے سوشلسٹ انقلابات کی شکل میں ہی ہو سکے گا۔

جمہوری حقوق کی جدوجہد اور سوشلسٹ نقطہ نظر

سوشل میڈیا پہ اکثر بائیں بازو کے نظریات، حکمتِ عملی اور طریقہ کار پر تنقید سلسلہ لگا رہتا ہے۔اس میں مخالفین سے زیادہ بائیں بازو کے وہ کارکنان ہیں،جو بہت جلدی میں انقلاب کرنے کے خواہش مند تھے۔ انقلاب ہونہ سکا تو اب مایوسی کے عالم میں سوشل میڈیا پر مصنوعی تنقید کے ذریعے اپنا ذہنی تناؤ کم کرنے اور ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ان میں بائیں بازو کے کچھ ایسے کارکنان بھی ہیں جو اپنی حکمتِ عملی اور طریقہ کار کو درست ثابت کرنے کے لیے باقی رجحانات کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ یہ سب فیس بک پوسٹوں کی حد تک ہی ہو رہا ہے، جو کوئی سنجیدہ پلیٹ فارم نہیں ہے۔

سرمایہ دارانہ سماج کا پاگل پن

انسان کیا سوچتا ہے،اس سوچ کا تعین وہ خود نہیں حالات کرتے ہیں۔جو سوچیں انسان کو پریشان کر رہی ہیں،وہ اس کے ذہن کی پیداوار نہیں ہیں،بلکہ ان حالات کی پیداوار ہیں،جن میں وہ زندگی بسر کر رہا ہے۔موجودہ سماج میں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے اکثریتی انسان غیر انسانی ماحول، معاشی مشکلات اور سماجی گھٹن کی وجہ سے مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہیں۔محض محنت کش طبقہ ہی نہیں بلکہ سارے سماج کی ہی کیفیت پاگل خانے جیسی ہے۔جنگی جنون ہو یا نسل پرستی یا مذہبی انتہا پسندی،یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کے پاگل پن کا کھلا اظہار ہے۔فلسطین میں معصوم بچوں کا قتل عام یا سمندر میں ڈوبتے ہوئے انسانوں کی موت کا تماشا دیکھنا پاگل پن نہیں تو اورکیا ہے؟

بھوپال سے بلدیہ ٹاون کراچی تک

اپنی پی ایچ ڈی کی ریسرچ کے سلسلے میں جب میں نے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن آف پاکستان کے سیکرٹری کامریڈ ناصر منصورکا انٹرویو کیا تو میڈیا کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کامریڈ صرف میڈیا کا شکوہ نہیں ہے بلدیہ ٹاون فیکٹری کے مزدور اس ملک کے دانشوروں اور ادیبوں کی بھی توجہ نہیں حاصل کر سکے کسی نے ان پر نظم نہیں لکھی، انہیں افسانے اور ناول کا موضوع نہیں بنایا صرف جواد احمد نے ایک گانا لکھا ۔ ان کا شکوہ بجا ہے پاکستان میں انٹرٹینمنٹ میڈیا نے بھی ایک ڈرامہ یا شارٹ فلم بلدیہ ٹاون فیکٹری کی آگ میں شہید ہونے والے مزدوروں پر نہیں بنائی۔
’’دی ریلوے مین‘‘ میں جب ٹرین میں چوری کرنے والا چور سٹیشن ماسٹر سے کہتا ہے کہ ’’آپ کا ڈیپارٹمنٹ بہادری پر کوئی میڈل نہیں دیتا؟‘‘ تو وہ جواب دیتا ہے کہ وہ صرف اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے ۔