چند روز قبل، پروفیسر حضرات کی ایک محفل میں بیٹھا تھا۔ ایک صاحب نے محفل کے دس منٹ یہ کہانی سنانے میں ضائع کئے (جو ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں)کہ کوئی صاحب دنیا کو سنوارنے نکلے، دنیا نہیں سنوری، انہوں نے سوچا،دنیا کو چھوڑو،اپنا ملک سنوارتا ہوں۔ پورا ملک گھوما، ملک نہیں سدھرا۔ بات شہر اور گاوں سے ہوتی ہوئی یہاں پہنچی کہ مذکورہ صاحب نے دنیا کو سنوارنے کی بجائے خود کو سنوارنے کا فیصلہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر ہم خود ٹھیک ہو جائیں تو دنیا ٹھیک ہو جائے گی۔
نقطہ نظر
’آزاد فلسطین‘ پوری دنیا کے لوگوں کا نعرہ بن چکا ہے: لیلیٰ خالد
میں کہوں گی کہ ہم ان تمام لوگوں کے مشکور ہیں،جنہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اور جو کچھ فلسطین میں ہو رہا ہے اس کے حوالے سے اس رویے کا اظہار کیا ہے۔ دنیا کے لوگ اب اس جدوجہد کے بنیادی مسائل کو سمجھتے ہیں،کہ اس جنگ میں اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے، اور ہم فلسطینی یہ نہیں بھولیں گے۔
میں نے ٹی وی پر اور کامریڈوں کی بھیجی گئی ویڈیوز میں دیکھا ہے کہ میلبورن اور سڈنی میں زبردست مظاہرے ہوئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو اس کی وجوہات کا احساس ہونے لگا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔
وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج فائر بندی کرے اور غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے سے انخلاء کرے۔
یہ وہی ہے جو میں دنیا کے لوگوں، خاص طور پر نئی نسل سے کہہ رہی ہوں: انصاف کیلئے لڑتے رہیں۔
فلسطین کاز ایک انسانی کاز ہے۔ اب ہم صرف غزہ کی پٹی کا نہیں بلکہ انسانیت کا دفاع کر رہے ہیں۔
ہم سامراجیوں بالخصوص امریکی سامراج کے خلاف خطے میں ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ وہی جنگیں شروع کرتے ہیں اور وہ ہر طرح سے اور نئے ہتھیاروں سے اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں،لیکن وہ فلسطینی بچوں کیلئے کچھ نہیں دے رہے ہیں۔
تحریک انصاف کو 10 سالہ کارکردگی پر نہیں بلکہ دیگر وجوہات پر ووٹ ملا: ڈاکٹر نورین نصیر
”تحریک انصاف کو 10سال کے دوران خیبرپختونخوا میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ نہیں ملا۔ بی آر ٹی کے علاوہ ان کی کوئی کارکردگی ووٹ ملنے والی نہیں تھی۔ پبلک یونیورسٹیاں پرائیویٹ یونیورسٹیوں سے بھی مہنگی ہو گئی ہیں اور بحران کا شکار ہیں۔ تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں انہوں نے کوئی کام نہیں کیا۔ ماحولیات کا تو بیڑا ہی غرق کیا گیا۔ انہیں ہمدردی کا ووٹ ملا، پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے کی گئی مہنگائی، نوجوانوں کو متاثر کرنے والے بظاہر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اور غلامی سے آزادی کے نعرے کی وجہ سے نوجوانوں اور خواتین کا ووٹ ملا۔ پورے پاکستان میں متبادل سیاست کیلئے ایک بہت بڑا خلاء ہے۔ نوجوان اکثریت میں ہیں انہیں قائل کرنے والے قومی سطح کے متبادل کی ضرورت ہے۔“
خیبرپختونخوا: مخلوط لیکن ہائبرڈ حکومت کے امکانات زیادہ ہیں: عرفان اشرف
”اس وقت خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جنگی صورتحال ہے۔ لوگ اتنے مایوس ہیں کہ انہیں کوئی استعارہ چاہیے، جو ریاست کے خلاف ان کے غم و غصے کا مرکز و محور بن سکے۔ ریاست نے عمران خان کو وہ استعارہ بنا دیا ہے۔ اس لئے لوگ اگر ووٹ دینے جاتے بھی ہیں تو عمران خان فیکٹر کی وجہ سے ووٹ دینے جائیں گے۔ جس طرح سٹیٹس کو قوتیں ریاست کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہی ہیں، ووٹر ان کے خلاف نظر آرہا ہے۔ بہر حال اگلا سیٹ اپ مخلوط قسم کا ہو گا۔ ایک کور کمانڈر ہی صوبہ چلائے گا۔ افغانستان کے حوالے سے پالیسیوں پر فوج اپنا اثرورسوخ جمائے رکھے گی۔“
’لوگوں کو زیادہ امیدیں تھیں، گندم کی قیمتیں کم ہونے سے تحریک ماند پڑ گئی‘
’’عوام کو گلگت بلتستان کی تحریک سے بہت زیادہ امیدیں تھیں، لیکن تحریک بتدریج کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ گلگت میں دھرنا تو جاری ہے لیکن اب اس میں تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ گندم کی قیمتوں میں کمی کے نوٹیفکیشن سمیت دیگر اقدامات کی وجہ سے حکومت دھرنے کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ کچھ لوگ مذاکرات کر کے تحریک ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ دھرنے میں شریک لوگ 15رکنی چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کر چکے ہیں۔“
’بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گہرے اثرات، الیکشن ماضی کی طرح بے معنی ہیں‘
”بلوچستان میں ماضی کی طرح موجودہ الیکشن بھی انتہائی خوف و ہراس اور غیر یقینی صورتحال میں ہو رہے ہیں۔ ایک طرف وہ قوتیں ہیں جو الیکشن نہیں چاہتیں، اور ایک طرف وہ قوتیں ہیں جو انتہائی کنٹرولڈ الیکشن کے ذریعے من پسند لوگوں کو کامیاب کروانا چاہتی ہیں۔80فیصد غربت ہے، بجلی، گیس، تعلیم، علاج سمیت پینے کے صاف پانی کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ بے شمار وسائل ہونے کے باوجود ان وسائل سے بلوچ عوام کی زندگیاں تبدیل نہیں سکیں۔ کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا۔ الیکشن بلوچ عوام کیلئے بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔“
روحانی غربت کا شکار معاشرہ
سرمایہ درانہ سماج نے جہاں انسان کو مہنگائی، بے روزگاری، بھوک، لاعلاجی اور جہالت کے ذریعے مادی غربت کا شکار کر رکھا ہے،وہاں منڈی کی معیشت نے انسان کی لالچ، خود غرضی،حسد اورمقابلہ بازی پر مبنی جس سوچ اور رویوں کو جنم دیا ہے، اس نے انسان کو بڑے پیمانے پر روحانی غربت کا شکار کر رکھا ہے۔اس سماج میں جھوٹ بولنا اور دھوکہ دینا فن تصور کیا جاتا ہے۔جو انسان اس فن سے نہیں واقف ہے وہ اس سماج میں زندہ رہنے کے لیے نہیں موافق ہے۔انسان محض دوسرے انسان کے خلاف نہیں ہے،بلکہ اپنے آپ کے خلاف بھی برسر پیکار ہے۔محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو پیٹ کی بھوک مٹانے اور دیگر ضروریات زندگی کے حصول لیے اپنی مرضی کے خلاف قوت محنت کو بیچنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اسے اپنے آپ کے خلاف عمل کرنا پڑتا ہے،جو عمل اسے خود سے اور سماج سے بیگانہ کر دیتا ہے۔دوسری طرف سرمایہ دار طبقے کو بے رحم استحصال، دھوکہ دہی اور لوٹ مار کے ذریعے دولت حاصل کرنے کا عمل اس سے اس کی انسانیت چھین کر اسے درندہ بنا دیتا ہے۔اپنے جیسے انسانوں کو پیروں تلے روند کر آگے بڑھنے کی خواہش اور عمل انسان کو سنگ دل اور بے رحم بنا دیتا ہے۔
چاکلیٹی فیمن ازم بمقابلہ بلوچ خواتین کا فیمن ازم
سوشلزم کی طرح،فیمن ازم کا مطلب بھی ہے مزاحمت، قربانی، جدوجہد۔ پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میں تو لبرل ہونا بھی جان جوکھوں کا کام ہے۔ فیمن ازم تنظیم کا تقاضا کر تی ہے۔ تنظیم سازی کے لئے پیسے اور وقت کی قربانی درکار ہوتی ہے۔ ہم یہ توقع تو نہیں رکھتے کہ تنظیم کا ہر رکن ریڈ روزا (Red Rosa)یا ایما گولڈ مین (Emma Goldman)کی طرح جان کی بازی لگانے پر تیار ہو لیکن ایک بنیادی کمٹ منٹ اور مزاحمت تو اس تحریک کے ہر رکن پر فرض ہے۔ وائے افسوس فیمن ازم کی ایسی نسلیں بھی پائی جاتی ہیں جنہیں میں انگریزی میں feminism of conveniece قرار دیتاہوں۔ تن آسان فیمن ازم۔ چاکلیٹی فیمن ازم۔ سوشل میڈیا کی بگڑی زبان میں: ہومیو پیتھک فیمن ازم۔
مارکس، ماریہ چرچ اور مزدور
ماریہ چرچ کی مرمت کرنے والے مزدوروں نے اپنی حفاظت کے لئے ایک انوکھا طریقہ دریافت کیا ہوا تھا۔ خود کو موٹے رسوں سے باندھ کر انہوں نے رسوں کے دوسرے سرے چرچ کی دوسری جانب کھڑی اپنی گاڑی سے باندھ دئیے تھے۔ البم دیکھنے سے میری بات کی صحیح وضاحت ہو سکے گی(کہا جاتا ہے کہ جنگ میں فوجی افسروں نے ملٹری اکیڈمی میں جو پڑھا ہوتا ہے،بے کار جاتا ہے البتہٰ سپاہی بہترین دفاعی حکمت عملی خود سے ترتیب دیتے ہیں کیونکہ انہیں جان دینا یا بچانا ہوتی ہے)۔
بلوچ نسل کشی کیخلاف پاکستانی عوام ہمارا ساتھ دیں، یہ ہر مظلوم کی تحریک ہے: گلزار دوست بلوچ
”یہ کریمہ بلوچ کی ہی تحریک ہے،جس کی آج قیادت ماہ رنگ بلوچ، آمنہ بلوچ، سمی دین بلوچ اور صبیحہ بلوچ کے ہاتھوں میں ہے۔ بلوچ نسل کشی اور بربریت کے خلاف پاکستان بھر کے عوام اسی طرح ہمارا ساتھ دیں اور سرکاری بیانیہ کو مسترد کریں۔ یہ ہر مظلوم کی تحریک ہے اور تمام مظلوم مل کر ہی جیت سکتے ہیں۔ عوام بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ ہیں۔ مقابلے میں لگایا گیا دھرنا ریاست کے کارندوں کا ہے۔ ریاست کے یہ حربے عوام ناکام بنائیں گے۔“