مارکسی تعلیم

کیا سوشلزم صرف مغربی ملکوں کے لئے ہے؟

نیودتا مجمدار

ترجمہ: قیصر عباس

سوشلزم کا نعرہ آج پھر فضاؤں میں گردش کر رہا ہے۔ امریکہ میں 2008ء کے اقتصادی بحران میں سوشلزم کی جو بازگشت سنائی دی اس نے سرمایہ داری کے استحصالی نظام کو پوری طرح طشت ازبام کیا اور نئی نسل کو حوصلہ دیا کہ وہ سماجی عدم مساوات اور اقتصادی کٹوتیوں (Austerity) کے خلاف بھرپور احتجاج کرے۔ اس سیاسی فضا نے ایک ایسے ماحول کی راہ ہموار کی جس میں ایک صدارتی امیدوار نے قومی سطح پر سوشلزم کو سیاسی بحث کا حصہ بنا دیا۔

اگرچہ امریکی سیاست دان برنی سینڈرز کوئی ریڈیکل سیاسی لیڈر نہیں مگر انہوں نے کھلم کھلا طور پر سوشلسٹ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ہزاروں نوجوانوں کی توجہ اپنی صدارتی مہم کی طرف مبذول کرائی جو سیاسی پنڈتوں کے لئے ایک حیران کن بات تھی۔

اس پس منظر میں نہ صرف دائیں بلکہ بائیں بازو کے حلقوں نے بھی شکوک و شبہات کی یلغار شروع کی، خصوصاً ان لوگوں نے جن کا شکوہ تھا کہ سوشلزم صرف اقتصادی نظام کی تنقید ہے جو سیاہ فام اور دوسری اقلیتوں کے آج کے مسائل سے کوسوں دور ہے۔ برنی نے جب سکنڈینیویا میں سوشل ڈیموکریسی کی بات کی تو عام لوگوں کا خیا ل یہ تھا کہ وہ علاقے کی ان روایات کی بات کر رہے ہیں جہاں صرف اکثریت کے حقوق پر زور دیا جاتا ہے۔ اس قسم کی تنقید کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیادہ فروغ ملا جہا ں یہ اعتراض عام تھا کہ سوشلزم اگرچہ اقتصادی نا انصافیوں کی بات کرتا ہے لیکن اس کا دائر ہ کار مغربی ممالک تک ہی محدود ہے۔ اس طرح یہ نظریہ جنوبی دنیا (گلوبل ساؤتھ) کے علاوہ دیگر علاقوں میں سماجی جبر اور نسلی تعصب کے مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

کیا یہ تمام اعتراضات درست ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ سوشلزم اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ عالمی سطح پر مزدور سر مایہ داروں کے ہاتھوں نقصان اٹھا رہے ہیں اور اس استحصال سے نجات حاصل کرنا ان سب کا مشترکہ مقصد ہے۔ اگرآپ کو یقین نہ آئے تو بنگلہ دیش کے ان مزدوروں سے پوچھئے جن کے ایک ہزار سے زیادہ ساتھی اپریل 2013ء میں کپڑوں کی فیکٹری، رعنا پلازہ، میں پوری عمارت گرنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔ اس عمارت کو انسانی جانوں کے لئے خطرہ قرار دیا گیا تھا لیکن فیکٹری کے مالک نے کارکنوں کو ملازمت سے برطرف کرنے کی دھمکی دے کر کام کرنے پر مجبورکیا۔

حادثے کے دو برس بعد بنگلہ دیش میں صنعتوں کے مسائل پر ہیومن رائٹس واچ نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں صنعتوں کے مالکین مزدروں کے اتحاد اور یونین سازی کو برداشت نہیں کرتے تاکہ کارکنوں کی اجرت اور ان کے حالات کار پر ان کا عمل دخل قائم رہے۔ ان کارکنوں کی بڑی تعداد خواتین پر مشتمل تھی۔ یونین سازی کے خلاف ہر قسم کے حربے استعما ل کئے جاتے جن میں ڈرانا، دھمکانا اور انتہائی اقدامات اٹھا نا عام ہتھکنڈے تھے۔ تنظیمی سرگرمیوں میں شامل لیڈروں کو نہ صرف برطرف کیا جاتابلکہ پور ی صنعت میں ملازمت کے لئے نااہل قرار دے دیا جاتا۔

ادھر دنیا کے دوسرے کونے، امریکہ میں ایک بڑی کمپنی، وال مارٹ نے پانچ سٹور بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے چند گھنٹوں کے نوٹس پر دو ہزار دو سو ملازمین کو نکال باہر کیا۔ بظاہر تو ان برطرفیوں کی وجہ سٹورز میں پرانے پلمبنگ نظام کو جدید بنانا تھی لیکن دراصل یہ اقدامات ان ملازمین کے خلاف ہوئے جو کارکنوں کی اجرت اور حالات کار میں بہتری کے لئے انہیں منظم کر رہے تھے۔ وال مارٹ امریکہ کی وہ کمپنی ہے جہاں سیاہ فام اور لاطینی امریکیوں کے علاوہ خواتین ایک بڑی تعداد ملازم ہے جو حال ہی میں بہتر اجرتوں کے لئے بھوک ہڑتال کر چکے ہیں۔ جہاں ایک طرف بنگلہ دیشی مزدور اپنے اتحاد کے ذریعے حالات کار بہتر بنانے کی کوشش میں مصروف ہوں اور دوسری جانب وال مارٹ کے ملازمین کو برطرف کیا جا رہا ہو تو یہ صرف یورپی ممالک نہیں بلکہ پوری دنیا کے محنت کشوں کے مسائل کا سوال ہے۔ اس صورت حال میں ان کمپنیوں کے مالکین کا یہ موقف کہ سوشلزم صرف یورپی ممالک کا مسئلہ ہے ایک کھوکھلا بیانیہ ہے۔

سرمایہ دار اس دنیا میں جہاں بھی ہو، مزدور کو صرف اپنے منافع کے تنا ظر میں ہی دیکھتا ہے اور جس نظام کی بنیاد ہی منافع پر ہو اس سے مزدوروں کی فلاح کی امید نہیں کی جا سکتی۔ ان حالات میں یہ امید کہ مارکیٹ کا نظام مزدوروں کے حالات بہتر بنانے کا ذریعہ ہے قطعی بے بنیاد ہے جو صرف نیو کلاسیک اقتصادیات کے ماہرین کی اخترا ع ہے۔ اپنی سیاسی اور اقتصادی طاقت کے ساتھ سرما یہ داروں کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ مارکیٹ کے قوانین کو اپنے حق میں استعمال کیا جائے۔

ان دونوں مثالوں کے پس منظر میں سوشلزم کے مطابق ہر جگہ سرمایہ دار کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کس طرح مزدوروں کی تنظیمی اور مزاحمتی کاوشوں کی کمر توڑ دی جائے۔ مزدوروں کے لئے طاقتور اداروں سے ٹکر لینا جو انہیں زیر کرنے کا ہر ممکن حربہ آزماتے ہیں، آسان نہیں ہوتا۔ چاہے وہ بنگلہ دیش کی کپڑوں کی صنعت ہو یا امریکہ میں وال مارٹ، دونوں ملکوں میں سرمایہ دار اپنے ہتھکنڈوں کو بے خوف و خطر استعمال کرتے ہیں۔ مزدوروں کے لئے ان حربوں سے نبٹنا انتہائی کٹھن مرحلہ ہوتا ہے لیکن دنیا بھر میں مزدوروں کی مزاحمتی تحریکیں سرمایہ داروں کو ہر قدم پر چیلنج کر رہی ہیں کیونکہ استحصال جہاں بھی ہو، مزاحمت پیدا کرتا ہے۔

سوشلز م صرف ایک یورپی نظریہ نہیں ہے۔ جس طرح سرمایہ داری ایک عالمی نظام ہے، اس کی مزاحمت بھی ایک عالمی حقیقت ہے۔ سرمایہ داری کا نظام امریکہ، فرانس، بنگلہ دیش اور نکوراگوا جیسے ملکوں میں مختلف ثقافتی نوعیت کا ہو سکتا ہے لیکن اس کا بنیادی خیال، کہ منافع انسانی فلاح سے زیادہ اہم ہے، ہر جگہ لاگو ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا کے بیشتر ملکوں میں گزشتہ سو برسوں سے سوشلزم ہی مزاحمتی، سماجی تحریکوں اور رہنماؤں کا ایک مقبول نظریہ رہاہے۔

چین کے ماؤزے تنگ، گھانا کے نکرومہ، گیانا کے والٹر روڈنی، جنوبی افریقہ کے کرس ہانی، گنی بساؤ کے املکار کیبرل، انڈیا کے ایم این رائے اور لاطینی امریکہ کے چے گویرا، ان تمام لیڈروں کے لئے سوشلزم ایک نظریے اور عملی نظام کی حیثیت سے اہم رہا ہے جو کسی طرح یورپی مزدور لیڈریوں کی کاوشوں سے کم نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ان انقلابی رہنماؤں کو ہمیشہ زمینداروں، اشرافیہ اور مذہبی قدامت پسندوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جو سوشلزم کو ایک یورپی نظریہ قرار دیتے ہوئے اسے رد کرتے رہے ہیں۔

اس بدقسمت صبح جب رعنا پلازہ کے محنت کشوں کی جانیں گئیں اس کے باوجود کہ فیکٹری کی دیوراروں میں واضح طور پر شگاف پڑ گئے تھے اور اسے انسانی جانوں کے لئے خطرناک قرار دے دیا گیا تھا، مالکوں نے مزدوروں کو کام کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ایک دکھیاری ماں، جس کی بیٹی اس حادثے میں ہلاک ہو گئی تھی، کا کہنا تھا کہ مالکوں نے اسے دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے کام نہیں کیا تو اسے پورے مہینے کی تنخواہ نہیں دی جائے گی۔ یہ مزدوروں سے غیر انسانی سلوک کی صرف ایک مثال ہے جو کسی ایک علاقے تک محدود نہیں ہے۔ یہاں غریب مزدوروں کو اپنے تحفظ اور ملازمت میں سے کسی ایک کو چننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سوشلزم اس غیر انسانی سلوک، نجی ملکیت اور استحصال کو رد کرتاہے۔

سرمایہ دارانہ نظام نہ صرف مزدوروں پر اس قسم کے جبر کو جاری رکھتا ہے بلکہ وہ سماجی سطح پر اس ماحول کو فروغ دیتا ہے جس میں اس استحصال کو جائز سمجھا جاتا ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑایا جاتا ہے۔ یہ نظریہ فرینز کافکاکے ناول کے ایک کردار گریگر سمسا کی طرح لوگوں کو انسانیت کی سطح سے نیچے گرا کر معاشرے میں تنہا کر دیتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کو رد کرنے اور اس کی جگہ ایک منصفانہ نظام کے قیام کی کوششیں عالمگیر نوعیت کی ہیں جنہیں صرف یورپی ممالک تک محدودنہیں کیا جا سکتا کیونکہ سوشلزم ایک عالمی نظریہ ہے جس کی بنیاد انسانی فلاح و بہبود پر رکھی گئی ہے۔

بشکریہ: جیکوبن

Roznama Jeddojehad
+ posts