ٹونی عثمان
جنرل مشرف کے دور میں جب مختاراں مائی اجتماعی زیادتی کاشکار ہوئیں تو جنرل مشرف نے کہا یہ تو ویزا لے کر باہر جانا چاہتی ہے اس لیے اس نے اپنا ریپ کروایا ہے۔ جنرل مشرف کا بیان اور موٹروے ریپ کیس کے سلسلے میں لاہور پولیس کے سی سی پی او عمر شیخ کا بیان اُس سماج کی عکاسی کرتا ہے جہاں اپنی ذمہ داری سے گریزاں کرنے والوں اور مردوں کو برتر سمجھنے والوں کا ہرشعبے میں غلبہ ہے۔
جنرل مشرف جو اب خود ویزا لے کر اپنے ملک سے باہر مقیم ہیں، اپنے ذاتی بلاگ پر یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ انہوں نے 2005ء میں مختاراں مائی کی نقل و حرکت پرپابندیاں عائد کی تھیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مختاراں مائی کے کام اور اس کی تشہیر سے پاکستان کا امیج مجروح ہورہا تھا۔ گویا مختاراں مائی کو ریپ کیاجاتا ہے توپاکستان کے امیج پر کوئی فرق نہیں پڑتا مگر جب مختاراں مائی ریپ کے متعلق بتاتی ہیں تو پاکستان کاامیج خراب ہوتاہے۔
اگر سعادت حسن منٹو ہوتے تو اور کچھ نہیں تو جنرل مشرف کو یہ ضرور کہتے: ”اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی در فٹے منہ!“
آج کل ”لٹکا دو“، ”سرجری سے کاٹو“ اور ”سرعام پھانسی“ جیسے وحشیانہ نعرے لگ رہے ہیں۔ یہ تو معلوم نہیں کہ جنرل مشرف کے خیال میں ایسے نعروں سے امیج مجروح ہوتاہے یا نہیں مگر بعض نادان سوشل میڈیا پر وحشی کلچر کی وکالت کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جب جنرل ضیا نے سرعام پھانسی دی تو ریپ ہونا بند ہوگئے تھے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
جنرل ضیا بھی جنرل مشرف اور پولیس افسر عمر شیخ کی طرح عورت کو ہی قصور وار ٹھہراتے تھے۔ ٹی وی اناؤنسرز اور نیوز کاسٹرز کے سروں کو زبردستی دوپٹے سے ڈھانپا جاتاتھا اور خواتین دشمن قوانین حدود آرڈیننس کی شکل میں نافذ کئے گئے تھے جن کے مطابق عدالت میں ریپ کا کیس ثابت کرنے کے لیے 4 چشم دید گواہوں کا ہونا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اگر موٹروے ریپ کیس کو جنرل ضیا کے کالے قوانین کی نظر سے دیکھیں تو یہ ریپ ہوا ہی نہیں کیونکہ 4 بالغ افراد نے یہ ریپ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔
جنرل ضیا کے دور میں جب کراچی میں دوبرقعہ پوش بہنوں کو ریپ کیا گیا تو لاہور میں ایک احتجاجی مظاہرے میں لالہ رخ، نگہت خان اور ویمن ایکشن فورم کی دیگر کارکنوں نے علامتی طورپر اپنے دوپٹے نذر آتش کئے تھے۔ جنرل مشرف جیسی ذہنیت رکھنے والوں کے خیال میں ایسے مظاہروں سے پاکستان کا امیج مجروح ہوا ہوگا۔
عمران خان صاحب کو بھی پاکستان کے امیج کی بہت فکر رہتی ہے لیکن امیج خراب کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
آئیے پہلے اُن دنوں کی بات کرتے ہیں جب وہ حکومت میں نہیں تھے۔ دھرنے کے دوران انہوں نے فرمایا کہ نوازشریف پاکستان کے ہر ادارے کو خرید سکتا ہے۔ اوور سیز پاکستانیوں سے انہوں نے اپیل کی کہ وہ قانونی طریقے سے بینک کے ذریعے پیسے بھیجنے کی بجائے غیر قانونی طریقے سے ہنڈی کے ذریعے بھیجا کریں۔ سپریم کورٹ کی دیواروں پر لٹکتی شلواریں اور پی ٹی وی پر حملہ ملک کے امیج کو خراب کرنے کاایک سلسلہ تھا۔ یہاں تک کہ چینی وفد نے اپنا طے شدہ دورہئ ملتوی کر دِیا۔
اسی طرح جب خان صاحب نے بطور وزیراعظم امریکہ کا دورہ کیا تو قومی ائیرلائن پر سفر کرنے کی بجائے قطر ائیرویزپر سفر کر کے پی آئی اے کا امیج مجروح کیا اور جو کسر رہ گئی تھی وہ ان کی کابینہ کے رُکن غلام سرور خان نے پوری کردی۔ پھر یورپی یونین نے پی آئی اے کی پروازوں پر ہی پابندی لگا دی۔
عمران خان حکومت کو دو سال سے زائد کاعرصہ ہونے کے بعد جب نوازشریف اور آصف زرداری جیل سے باہر ہیں تو ”کرپشن کارڈ“ انتہائی کمزور ہو چکا ہے۔ سماج میں بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ سے عوام میں خوف و ہراس پایاجاتا ہے لہٰذا عوام کے جذبات کاناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے خان صاحب پھر پاپولسٹ نعروں کا سہارا لے کر اپنی حکومت کی ساکھ بچانے کی کوشش کررہے ہیں مگر انہیں کون سمجھائے کہ ایسے وحشیانہ نعروں سے پاکستان کا امیج خراب ہو رہا ہے۔